لاہور(رپورٹ:محمد قیصر چوہان)پاکستان کی ترقی وخوشحالی کے سب سے بڑے منصوبے اور چین کو معاشی طور پر سپر پاور بنانے کے اہم ترین پراجیکٹس میں سے ایک پاک چین اقتصادی راہدری (سی پیک)کے سب سے بڑے دشمن امریکا کی سر پرستی اور بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کی بھر پور معاونت سے کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) ، بی ایل ایف اور مجید بریگیڈپر مشتمل (بلوچ راجی آجوہی سنگر)دہشت گرد تنظیموں کا اتحاد ”براس“ افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس ،داعش اورتحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)سمیت دیگر چھوٹی آرگنائزیشنزکے ساتھ مل کر پاکستان کے دو اہم ترین صوبوں خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں دہشت گردی کرنے میں مصروف ہیں۔یہ کالعدم تنظیمیںمذہب اور قوم پرستی کی آڑ لے کر خیبرپختونخواہ کی پشتو بیلٹ اور بلوچستان کی بلوچ بیلٹ میں ہمدردی لیتی ہیں اور پھر سیکیورٹی فورسز اورعام شہریوں کو دہشت گردی کی کاررائیوں کے ذریعے قتل کر رہی ہیں ۔ گزشتہ دنوں بلوچستان میں خون کی ہولی کھیلی گئی دہشت گردی کی ان کارروائیوں میں 14 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 54 افراد شہید ہوئے جبکہ اسسٹنٹ کمشنر، لیویز، سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 20 افراد زخمی ہوگئے، فورسزکی جوابی کارروائی میں 21 دہشت گرد بھی ہلاک ہوئے ۔کالعدم علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے ان حملوں کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے اسے ”آپریشن ہیروف “کانام دیا۔دہشت گردوں کے قبضے سے نائٹ وژن کیمرے اور جدید اسلحہ برآمد ہواہے،جس سے پتہ چلتا ہے کہ انھیںکسی بیرونی طاقت کی معاونت حاصل ہے جس کا مقصد پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کے علاوہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو سبوتاژ کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں کی پاکستان سے پہلے بھارتی میڈیا میں تشہیر شروع ہوگئی اور شادیانے بجائے جانے لگے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سمیت دیگر کالعدم دہشت گرد تنظیموںکی افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں۔بلوچستان کے مختلف اضلاع میں ایک ہی دن میں دہشت گردی کے پے درپے واقعات رونما ہوئے جس کے نتیجے میں سیکورٹی اہلکاروں سمیت 54فراد جاں بحق ہوگئے،جوابی کارروائی میں 21 دہشت گرد بھی مارے گئے ہیں ،دہشت گردوں نے موسیٰ خیل کے علاقے راڑہ شم میں قومی شاہراہ کی ناکہ بندی کرکے پنجاب سے آنے والی بسوں کو روکا۔ مسافروں کو اتار کران کے شناختی کارڈ چیک کئے اور ان میں سے 23افرادکو گولی مارکر قتل کر دیا گیا۔ان تمام کا تعلق جنوبی پنجاب کے مختلف علاقوں سے تھا۔کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے دہشت گردوں نے 23 گاڑیوں کو بھی آگ لگا دی جن میں 17 ٹرک ، 2 مسافر وین اور 4 پک اپ گاڑیاں شامل تھیں، کولپور کے قریب ایک پل کو دھماکے سے اڑادیا گیا،جس سے بلوچستان، پنجاب اور خیبر پختونخواکے درمیان ریلوے ٹریفک معطل ہو گئی۔
وطن عزیز اس وقت سیاسی عدم استحکام،معاشی ابتری اور قدرتی آزمائشوں کے مشکل ترین دور سے گزررہا ہے۔ایران جانے اور وہاں سے واپس آنے والے زائرین اور اندرون ملک سفر کرنے والوں کی کوچز اور گاڑیوں کے اندوہناک حادثات نے کئی گھروں میں صف ماتم بچھادی۔ابھی ان صدمات کے اثرات جاری تھے کہ24 اور 25 اگست ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات میں نامعلوم مسلح افراد نے مستونگ، قلات، پسنی اور سنتسر میں لیویز اور پولیس تھانوں پر حملے کیے، جس کے نتیجے میں متعدد اموات ہوئیں۔سبی، پنجگور، مستونگ، تربت، بیلہ اور کوئٹہ میں دھماکوں اور دستی بم حملوں کی بھی اطلاعات موصول ہوئیں، حکام نے تصدیق کی ہے کہ حملہ آوروں نے مستونگ کے بائی پاس علاقے کے قریب پاکستان اور ایران کو ملانے والے ریلوے ٹریک کو دھماکے سے اڑا دیا۔قلات کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس دوستین دشتی کے مطابق ضلع قلات میں رات بھر ہونے والے واقعات میں سیکورٹی اہلکاروں سمیت 11 افراد جاں بحق اور 6 زخمی بھی ہوئے۔ مسلح افراد نے پسنی تھانے پر حملہ کیا اور اہلکاروں کو زدوکوب کرنے کے بعد وہاں کھڑی 3گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو جلا دیا۔حملہ آور گوادر کے ساحلی قصبے سنتسر میں ایک اور تھانے میں توڑ پھوڑ کرنے کے بعد سرکاری اسلحہ بھی ساتھ لے گئے۔حکام کے مطابق مسلح افراد نے لیویز تھانہ کھڈکوچہ پر حملہ کیا اور وہاں موجود اہلکاروں کو یرغمال بنایا جبکہ قلات میں مسلح افراد کا قانون نافذ کرنے والے اداروں سے فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ جھڑپوں میں شہید ہونے والوں میں لیویز کے 4 سپاہی احسن اللہ، علی اکبر، رحمت اللہ اور نصیب اللہ شامل ہیں جبکہ پولیس سب انسپکٹر حضور بخش، ایک قبائلی رہنما اور 2 شہری بھی ان حملوں میں جاں بحق ہوئے۔ قلات میں ایک قبائلی شخصیت کے گھر پر حملہ کیا گیا۔بولان کے پہاڑ سے 6لاشیں ملی ہیں جو دہشت گردی کا نشانہ بنیں۔کوئٹہ میں دھماکے سے ایک شخص کی جان گئی۔سارے حملے رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے وقت میں کئے گئے جب سیکورٹی فورسز اور ان کے معاون قانون نافذ کرنے والے ادارے قومی ایکشن پلان اور عزم استحکام پروگرام کے تحت ملک دشمن عناصر کی بیخ کنی کیلئے صف آرا ہیں اور پوری قوم ان کی پشت پر ہے،لیکن ایسے سیاسی عناصر بھی موجود ہیں جو ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے ان اقدامات کی راہ میں روڑے اٹکارہے ہیں۔
دہشت گردی کے پیٹرن اور اہداف پر غور کیا جائے تو لگتا ہے کہ یہ سارے گروپس اپنے مشترک مفادات کے لیے ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے ہیں اور سہولت کاری بھی کرتے ہیں۔ ان دہشت گرد تنظیموں کا جرائم پیشہ مافیا گینگزاور وائٹ کالر کریمنلز کے ساتھ بھی مفاداتی رشتہ موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گرد کا مالی نیٹ ورک فعال ہے اور انھیں پاکستان میں سہولت کاری بھی میسر آرہی ہے۔ پاکستان کے سسٹم میں بھی ان گروہوں کی پینیٹریشن کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ افغانستان ایسے گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔ بلوچستان میں پاک ایران سرحد کے دونوں اطراف بھی ایسے گروہوں کے لیے چھپنے کی جگہیں موجود ہوسکتی ہیں۔ انھیں بیرونی طاقتوں کی آشیرباد بھی حاصل ہے۔بلوچستان معدنیات سے بھرپور اوراہم ترین تجارتی گزر گاہ ہے۔ گیس، تیل، تابنے،سونے کے ذخائر بھی ہیں۔ سی پیک کی کامیاب کا انحصار گوادر بندرگاہ اور بلوچستان میں قیام امن پر ہے۔ دہشت گردوں اور دہشتگردی کو زندہ رکھنے کے لیے تین چیزیں اہم ہیں یعنی پیسہ، ہتھیار اور تربیت، پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے گروہوں کو یہ تینوں چیزیں میسر ہیں، ان کے بغیر پاکستان میں دہشت گردی ممکن نہیں ہے۔ بلوچستان کے سمندری راستے مشرق وسطیٰ سے ملتے ہیں۔ بلوچستان کے ساحلی علاقوں سے آبنائے ہرمز، خلیج عمان اور بحیرہ عرب تک پہنچنا آسان ترین راستہ ہے۔ بلوچستان سے متصل سمندر، مشرق و مغرب کا سنگم اور عالمی سمندری جہاز رانی کا اہم ترین راستہ ہے۔اس محل وقوع کی وجہ سے پاکستان دشمن قوتوں کا نشانہ بلوچستان بنا ہوا ہے۔ ان ساحلوں تک رسائی اور قبضہ کرنا، جن پاکستان دشمنوں کا ہدف اور خواب ہے، پاکستان کے پالیسی سازوں کو یقینی طور پر ان کے بارے میں پوری معلومات ہوں گی۔ان حملوں میں نہ صرف شدت پسندوں کی حکمت عملی میں ایک واضح فرق نظر آیا بلکہ جو ہتھیار استعمال کیے گئے وہ بھی ان کی بڑھتی ہوئی صلاحیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ پہلو نہ صرف بلوچ شدت پسندوں کی بڑھتی ہوئی پرتشدد صلاحیتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔بلوچستان کے کئی علاقوں کے سرکاری سکولوں، سرکاری ملازمین بالخصوص اساتذہ کرام کو ہدف بنایا جاتا ہے۔ گوادر بندرگاہ کی جدید خطوط پر تعمیر اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک ) کو نقصان پہنچانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ دہشت گردی کے واقعات روزمرہ کا معمول بن گئے۔ بلوچستان کے دہشت گرد گروہ تاریخی حقائق کو مسخ کرکے نئی نسل کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ جدوجہد آزادی میں بلوچستان کا کردار پاکستان کے کسی بھی دوسرے خطے سے کم نہیں ہے۔ 1940 میں جب قرارداد پاکستان منظور ہوئی تو قاضی عیسیٰ بلوچستان کی نمایندگی کر رہے تھے۔ انھوں نے اس قرارداد کی بھر پور حمایت کی جس نے بالاخر قیام پاکستان کی راہ ہموار کی۔ نتاریخ کے ان اوراق کو بلوچ عوام کے سامنے لانا ضروری ہوگیا ہے۔ 18 ویں آئینی ترمیم سے بلوچستان کو ملنے والے حقوق اور وسائل میں اضافہ کیا گیا ہے اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے میگا پروجیکٹس بلوچستان کی سماجی اور معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ بلوچستان کے لوگوں اور ریاست کے درمیان رشتہ کمزور کرنے کی کوششوں سے وہ ترقیاتی منصوبے متاثر ہوسکتے ہیں جو اس صوبے کی پسماندگی، افلاس اور محرومی کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ شرپسند اور ریاست مخالف عناصر بلوچستان کے حوالے سے ریاست پاکستان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کر کے بلوچ نوجوان نسل کو گمراہ کر کے ریاست کا باغی بنا رہے ہیں۔ان کا مقصد بلوچستان میں دہشت گردی، انتہا پسندی اور بدامنی کو فروغ دینا ہے۔ تاریخ سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ بلوچستان کے عوام پاکستان کا حصہ بننے کی خواہش رکھتے تھے۔ افسوس کہ آج چند لوگ اپنے آباو ¿ اجداد کے وطن پرستی کے راستے کو چھوڑ کر غداروں کے بہکاو ¿ے میں آکر ملک دشمنی کی راہوں پر چل پڑے ہیں، تاہم بلوچستان کے غیور عوام دشمن کی ایسی ناپاک سازش ناکام بنانے کا بھر پور عزم رکھتے ہیں۔آج اس صوبے کو لہو لہو کرنے کے لیے پاکستان دشمن قوتیں پیش پیش ہیں۔ آج شدت پسند تحریکیں اور ان کے نام نہاد لیڈر اس سازش کا حصہ ہیں جو پاکستان کو کمزور کرنے کے مشن پر گامزن ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بلوچستان پاکستان میں ترقی کے لحاظ سے سب سے پسماندہ صوبہ ہے۔ اسی طرح سے بلوچستان کے معاشی استحصال اور سیاسی محرومیوں میں بیرونی طاقتوں کا کردار بھی ایک اٹل حقیقت ہے۔جنھوں نے مالی و سیاسی معاونت سے بلوچستان کے اندرونی حالات کو خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے طاقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں ایک سیاسی حکمت عملی کی بھی ضرورت ہے، جو صوبے کے پیچیدہ مسئلے کے تمام پہلوو ¿ں سے جامع طور پر نمٹ سکے۔
بلوچستان اور خیبرپختونخواہ گزشتہ چند برس سے دہشت گردی کا شکار ہے ،افغانستان اور ایران کی سرزمین بھی پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ دین اسلام اور پاکستان کے دشمنوں کی سرپرستی میں علیحدگی پسند، فرقہ وارانہ، نسلی اور مذہبی بنیاد پرستوں کی وجہ سے پاکستانی شہری دہشت گردوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ پاکستان میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں ایک لاکھ سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں،اس کے علاوہ پاکستانی معیشت کو بھی250بلین ڈالرز کا مالی نقصان پہنچ چکا ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں امریکی کھیل کھیلا جا رہا ہے ، دہشت گردوں کے پاس جدید ترین ہتھیاروں کی دستیابی پاکستان کی سلامتی متاثر کرنے کی بڑی وجوہات ہیںافغانستان سے امریکی اور نیٹو فورسز کے جانے کے باوجود امریکی ایجنٹ افغانستان میں موجود ہیں جن کا بنیادی مقصد پاکستان اور چین کے مفادات کو نقصان پہنچانا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی )،دہشت گرد تنظیم داعش جو امریکا کی پیداوار ہے،بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی قیادت میں(بلوچ راجی آجوہی سنگر)دہشت گرد تنظیموں کا اتحاد ”براس“ افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس، بھارتی خفیہ ایجنسی ” را “ کے ساتھ مل کر پاکستان میں دہشت گردی کی کاررائیاں کررہی ہیںان دہشت گرد تنظیموں کا بنیادی مقصد امریکی مفادات کا تحفظ اور خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثررورسوخ کو روکنا ہے، امریکا دہشت گردی کی کاررائیوں کے ذریعے( سی پیک) پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی)، بھارتی خفیہ ایجنسی ” را “ ،(بلوچ راجی آجوہی سنگر)دہشت گرد تنظیموں کا اتحاد ”براس“ اور داعش سمیت دیگر دہشت گرد تنظیموں کی پناہ گاہیں ہیں۔
پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں افغانستان میں چھوڑا جانے والا امریکی اسلحہ استعمال ہوا تھا پچھلے دو برسوں میں پاکستان میں ہونے والے خودکش حملوں میں زیادہ تر افغان شہری استعمال ہوئے ہیں۔ جس سے لگتا ہے کہ ٹی ٹی پی کو افغان طالبان کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ عسکریت پسندوں نے عملی طور پر پاکستانی ریاست کے خلاف جنگ کا اعلان کررکھا ہے۔سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے اندر ہونے والے کچھ حملوں میں افغان طالبان بھی ٹی ٹی پی کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے لوگوں نے افغانستان سے امریکا کو نکالنے میں طالبان کی مدد کی اور اب طالبان انھیں شیلٹر فراہم کر رہے ہیں، پاکستان میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں افغانستان سے لائے جانے والے امریکی ساخت کے اسلحے کے استعمال کے ثبوت ایک بر پھر منظر عام پرآچکے ہیں۔ پینٹاگون کے مطابق امریکا نے افغان فوج کو کل 427,300 جنگی ہتھیار فراہم کیے، جس میں 300,000 انخلا کے وقت باقی رہ گئے، اس بنا پر خطے میں گزشتہ دو سالوں کے دوران دہشت گردی میں وسیع پیمانے پر اضافہ دیکھا گیا ہے۔ پینٹاگون کے مطابق امریکا نے 2005 سے اگست 2021 کے درمیان افغان قومی دفاعی اور سیکیورٹی فورسز کو 18.6 ارب ڈالر کا سامان فراہم کیا۔یہ تمام حقائق اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ افغان ریجیم نہ صرف ٹی ٹی پی کو مسلح کر رہی ہے بلکہ دیگر دہشت گرد تنظیموں کے لیے محفوظ راستہ بھی فراہم کر رہی ہے۔بھارتی بدنام زمانہ انٹیلی جنس ادار ے ”را“ نے پاکستان میں دہشت گردی کرانے کے لیے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے چار دیگر دہشت گرد گروپوں کے ساتھ انضمام کے لیے 10لاکھ ڈالرز کی خطیر رقم خرچ کی ہے،بھارت افغانستان میں تھنک ٹینکس اور دیگر ذرائع سے بلوچ علیحدگی پسندوں کو بھی رقم فراہم کرکے ان کی مالی اعانت کرتا رہا ہے اور اب بھی کر رہا ہے۔ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ”را“ مختلف جی پی ایس کے ذریعے پاک چین اقتصادی راہداری ( سی پیک) کے منصوبوں پر حملے کروا کے ان منصوبوں کی پیش رفت رکوانے کے لیے بھاری سرمایہ کاری کر رہی ہے۔افغانستان میں 23 دہشت گرد تنظیمیں موجود ہیں جن میں سے 17تنظیمیں صرف پاکستان میں دہشت گردی پھیلاتی ہیں۔ پاکستان میں بھارتی اسپانسرڈ دہشت گردی کے بارے میں پاکستانی حکومت نے گزشتہ برس ایک ڈوزیئر جاری کیاتھا جس میں انتہائی مخصوص معلومات جیسے بینک اکاو ¿نٹس اور اس میں ملوث بھارتی شہریوں کے شواہد موجود ہیں جو دہشت گردوں کو مالی معاونت فراہم کرتے ہیں۔ اس ڈوزیئر میں ٹی ٹی پی، بلوچ شرپسندوں اور دیگر گروپوں کے تربیتی کیمپوں کی تعداد اور مقامات بھی شامل ہیں۔بھارتی ایجنسیز کی خطے میں دہشت گردی پھیلانے کا ثبوت قطر میں بھارتی بحریہ کے اہلکاروں کی سزا ہے اور کینیڈا میں سکھ رہنما کا قتل دوسرا اعلانیہ ثبوت ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے کلبھوشن یادو کو پکڑا ہوا اور سزا بھی سنائی جاچکی ہے۔
بلوچستان اور خیبرپختونخوا پاکستان دشمن قوتوں کے حملوں کا خصوصی نشانہ ہیں تاہم وفاقی دارلحکومت اسلام آباد، کراچی، لاہور اور ملک کے دوسرے شہروں میں بھی ان کے وار جاری ہیں ۔ گزشتہ ایک سال سے پاک افغان سرحد پردہشت گردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد خیال یہ تھا کہ ہماری شمال مغربی سرحد محفوظ ہوگئی ہے لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑاصوبہ بلوچستان جس کی سرحد ایران اور افغانستان سے ملتی ہے ایک عرصہ سے ملک دشمن عناصر کے مکروہ عزائم کا مرکز بنا ہوا ہے۔اس کے علاوہ افغانستان کی سرحد سے منسلک خیبرپختونخوا میں ضم ہونے والا فاٹاکا علاقہ ایک بار پھر دہشت گرودوں کے نشانے پر ہے۔ ریاست سے نالاں وہ عناصر اور تنظیمیں جنہیں پاکستان کے ازلی دشمن بھارتی حکومت اور خفیہ ادارے ریسرچ اینڈ انیلسس ونگ ”را “ اور امریکاکی سرپرستی اور سپورٹ حاصل ہے۔ ان عناصر میں پائی جانے والی منفی سوچ کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کے اندر دہشت گردی کی کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں ”را “ کی دہشت گرد ذیلی تنظیموں کا اتحادی گروپ ” براس “(بلوچ راجی آجوہی سنگر)دہشت گردی کی کاروائیوں میں مصروف ہے۔” براس“ نام نہاد دہشت گرد قوم پرست مسلح جماعتوں بلوچ لبریشن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بلوچ ریبلکن گارڈز نے قائم کیا ہوا ہے۔ دہشت گرد اتحاد ” براس“ ،بھارتی خفیہ ادارے ریسرچ اینڈ انیلسس ونگ ”را “ ،تحریک طالبان پاکستان( ٹی ٹی پی )اور داعش پاکستانی فورسز اور خاص کر میڈیا کے خلاف مذموم کاروائیاں کرکے امریکا کے مقاصد کو پورا کرنا چاہتا ہے۔ افغانستان کی سرزمین پر موجود دہشت گردوں کی جانب سے پاکستان کی سیکورٹی فورسز پر تسلسل کے ساتھ حملے کیے جا رہے ہیں۔پاک فوج کے بہادر سپاہی اور آفیسرز اپنی جانوں کا نذرانہ دیکر ملک و قوم کی حفاظت کرنے کا فریضہ ادا کر رہے ہیں۔ اسلام امن، سلامتی، احترام انسانیت کا مذہب ہے لیکن چند انتہا پسند عناصر کی وجہ سے پوری دنیا میں اسلام کا امیج خراب ہو رہا ہے۔
خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی لہر دوبارہ کیسے آئی؟ کیوں آئی؟ اور اس کا مستقبل کیا ہوگا؟یہ جاننے کے لیے ہمیں اگست 2021 میں جانا ہوگا۔ جب طالبان نے کابل پر قبضہ جمایا اور امریکی اتحادی اپنے افغان حکمرانوں سمیت افغانستان سے نکل گئے تو پاکستان میں خوشی کے شادیانے بجائے گئے کہ گویا طالبان کی فتح پاکستان کی فتح تھی۔تاہم اس وقت بھی سنجیدہ حلقے پریشان تھے کہ جن قوتوں نے امریکا اور ان کے اتحادیوں کو شکست دی وہ اگر طاقت میں آگئیں تو وہ پاکستان جیسے ملک کو خاطر میں کہاں لائیں گی۔ہمارے اکثر تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ افغان طالبان اب کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پر دباو ¿ ڈالیں گے کہ وہ پاکستان کے آگے ہتھیار پھینک دیں۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ افغان طالبان مر جائیں گے لیکن وہ ٹی ٹی پی کا بال بھی بیکا نہیں ہونے دیں گے۔افغان طالبان کا پاکستانی طالبان کے ساتھ خاصا پرانا رشتہ ہے۔ خصوصاً خیبر پختونخوا کے ماضی میں رہنے والے قبائلی علاقوں کے طالبان اور افغان طالبان کا۔افغان طالبان نے پاکستان کو تجویز دی کہ معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے اور اس لیے مذاکرات شروع کیے گئے۔چونکہ اس دور کے معاملات پی ٹی آئی حکومت کے ہاتھ میں تھے، پاکستان انتہائی کمزور پوزیشن پر بات کرنے لگا تھا۔ کئی نقادوں کے لیے یہ پاکستانی سرینڈر کے مترادف تھا جس میں تمام جنگجوو ¿ں کی خیبر پختونخوا کے ضم شدہ اضلاع میں دوبارہ آبادکاری اور تحفظ کی شرائط مان لی گئی تھیں۔وہ کون سا امن معاہدہ ہے، جس پر طالبان نے پہلے کبھی عمل کیا؟ کیا وہ ہتھیار پھینک کر جمہوری عمل کو تسلیم کرلیں گے؟ کیا وہ آئین پاکستان کے بنیادی اصولوں کا احترام کریں گے؟ ان سب سوالوں کا ایک ہی جواب ہے اور وہ ہے، ” نہیں“۔ شاید یہ بعض کے نزدیک حیرت کا سبب ہو لیکن جو خطے میں عسکریت پسندی قریب سے کا مشاہدہ کرتے رہے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ نہ تھکنے والی شدت پسندی کی وہ علامت ہے کہ جس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ ایک بار پھر زک پہنچانے کے لیے تمام تر قوت جمع کر سامنے آچکے ہیں۔
انتہا پسندی پاکستانی معاشرت کو برباد کررہی ہے اس انتہاپسندی کے جراثیم دہشت گردی کی بیماری کا سبب ہیں، انتہا پسندی کا تعلق اذہان سے ہے، جب کوئی ذہن ہی دہشت گرد بن جائے گا تو دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہوسکتا، اسی لیے ملک میں دہشت گرد عناصر دوبارہ سے منظم ہو کر کارروائیاں کر رہے ہیںان کارروائیوں میں ملکی سیکیورٹی اداروں پر حملے سر فہرست ہیں۔افغانستان میں جب طالبان حکومت قائم ہوئی تو تحریک انصاف کی حکومت ساڑھے چار لاکھ افغانیوں کو قانونی دستاویزات کے ساتھ پاکستان لائی جو واپس نہیں گئے۔اس کے علاوہ تین سے ساڑھے تین ملین افغانی غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم ہیں ،انہی میں سے بعض لوگ ہیں جو گزشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان کو اقتصادی و معاشی میدان میں کمزور کرنے کیلئے ڈالروں کی بوریاں بھر بھر کر افغانستان اسمگل کر رہے ہیں اور پاکستان کو ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کی دلدل میں دھکیلنے کی گھناو ¿نی سازش کر رہے ہیں۔جو لوگ گزشتہ 45 سال سے تزویراتی گہرائیوں کے چکر میں افغانستان کے عشق میں مبتلا ہیں اور اس نامراد عشق نے پاکستان کی بنیادیں تک ہلا کر رکھ دی ہیں لیکن ان کا عشق جو در حقیقت اربوں ڈالر کی جہاد انڈسٹری کے گرد گھومتا ہے، ایک لاکھ بے گناہ پاکستانیوں کی المناک موت اور کھربوں ڈالر کی معیشت کو نقصان کے بعد بھی ان کا عشق ختم نہیں ہوا۔پاکستان کے پالیسی ساز افغانستان کی تاریخ اور وہاں کے نسلی و ثقافتی تفاوت کو پورے شمالی ہندوستان ، روس ، چین اور ایران کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے محض بھائی چارے کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں، یہی پاکستان کی شمالی مغربی پالیسی کی ناکامی کا سبب ہے۔ٹی ٹی پی اور دیگر مقامی عسکریت پسند دھڑوں کے ساتھ تقریباً چھ امن معاہدے ناکام رہے ہیں اور پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔پاکستان نے اپنے انسداد دہشت گردی کے فوائد ضایع ہو جانے کا احساس کیے بغیر تشدد کی عدم موجودگی کو امن کی بحالی کے ساتھ تعبیرکیا۔اسی طرح افغانستان کے ساتھ پاکستان کی 2640 کلومیٹر طویل سرحد پر باڑ لگانے کو امریکی انخلا اور طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد افغانستان سے عدم تحفظ اور تشدد کے پھیلاو ¿ کو کم کرنے کے ایک ذریعہ کے طور پر دیکھا گیا۔ تاہم جوں جوں وقت گزرتا گیا یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ سرحد پر باڑ لگانے کے باوجود پاکستان میں دراندازی کو نہیں روکا جا سکا۔ شورش اور دہشت گردی کے تناظر میں، مختلف گروپوں کے مابین انضمام اور اتحاد دہشت گرد تنظیموں کی ملکیت اور لمبی عمر کے کلیدی اجزا ہیں۔ ایک عسکریت پسند گروپ جتنا زیادہ متحد ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ مہلک ہوتا جاتا ہے۔ پچھلے چار سالوں میں تقریباً تمام عسکریت پسند دھڑے ٹی ٹی پی کے ساتھ ضم ہو چکے ہیں اور اپنی آپریشنل طاقت کو بڑھاتے ہوئے پاکستان میں اپنی جغرافیائی رسائی کو بڑھا رہے ہیں۔ یہ تمام انضمام اور اتحاد پاکستان میں عسکریت پسندوں کی بحالی میں بھی کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ان افراد کی سوچ پر بھی تعجب ہے جو پاکستانی طالبان کو تو دہشت گرد سمجھتے ہیں جب کہ افغان طالبان کو پاکستان کا دوست اور خیر خواہ تصور کرتے ہیں۔ ہمیں اچھے طالبان اور برے طالبان کا فرق ختم کرنا ہو گا اور اس بات پر یقین رکھنا ہو گا کہ جو ملک پاکستان کے اجتماعی عوامی مفادات کے برعکس پالیسی پر گامزن ہے تو ہمیں بھی کاونٹر فارن پالیسی پر چلنا ہوگا۔تحریک طالبان کے ساتھ مفاہمت کی سوچ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے اور ان دہشت گردوں کا قلع قمع کرنا بہت ضروری ہے یہ دہشت گرد اعلیٰ تربیت یافتہ ہیں اور پاکستان مخالف قوتوں کے آلہ کار ہیں اور یہ پاکستان کا امن تباہ کررہے ہیں۔اسی طرح جو تنظیمیں پاکستان کی وحدت اور عوامی مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہیں، دہشت گردی میں ملوث ہیں، ان کے ساتھ انہی کی زبان میں بات کرنا ہوگی، جو ملک ایسی تنظیموں کی قیادت اور جنگجووں کو پناہ دے رہا ہے، انھیں تربیت کی آزادی دے رہا ہے، ان کی کھل کر حمایت کررہا ہے، اس ملک کی حکومت کے ساتھ بھی کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے،پاکستانی طالبان کو اندرونی اوربیرونی امداد مل رہی ہے۔ اس امداد کو ہر صورت روکنا ہو گا۔
افغانستان ہمارا پڑوسی اور برادر اسلامی ملک ہے جس کا پاکستان نے ہر اچھے برے وقت میں انتہائی نیک نیتی اور اسلامی اخوت کے جذبے سے ساتھ دیا ہے۔ اس وقت بھی جب ساری عالمی برادری اس کے ساتھ سفارتی تعلقات سے کنارا کش ہو گئی ہے۔ پاکستان اس کے ساتھ کھڑا ہے اور اس کی وکالت کر رہا ہے۔ روس اور امریکہ کے حملوں کے دوران افغانستان سے بے گھر ہونے والے لاکھوں مہاجرین کو پاکستان نے سالہاسال سے پناہ دے رکھی ہے اور ان کی اس کے باوجود کفالت کر رہا ہے۔ کہ ان میں سے کئی لوگ مختلف جرائم کے ارتکاب میں پکڑے بھی گئے ہیں۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ کابل حکومت نے ان فراخ دلانہ اقدامات کے بدلے میں پاکستان کی مشکلات کے حل میں مدد دینے کی بجائے الٹا اپنی سرزمین سے دہشت گردانہ حملوں اور تخریبی سرگرمیوں کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ پاکستان کی حکومت اور مسلح افواج نے اپنی اپنی سطح پر طالبان حکومت کو اپنے علاقے سے پاکستان کے خلاف ہونے والی دہشت گردی روکنے کیلئے بار بار توجہ دلائی مگر نتیجہ صفر نکلا۔ پاکستان عالمی سطح کے ہر فورم پر افغانستان کے حق میں آواز اٹھاتا رہا ہے۔ مگر افسوس افغانستان کی جانب سے پاکستان کی کوششوں کو سراہنے کے بجائے اس کی سرزمین پر دہشت و وحشت کا بازار گرم کرکے اس کے خلوص کا صلہ دیا گیا اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی سرپرستی کر کے پاکستان کے ساتھ دشمنی کا عملی ثبوت دیا گیا۔دوسری جانب پاکستان کے دشمن بھارت کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھا کر اس کی سازشوں کو تقویت پہنچائی گئی۔ اس کے باوجود پاکستان نے نیک نیتی کے ساتھ افغان امن عمل کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں کیونکہ پرامن افغانستان پاکستان سمیت خطے کے لیے ناگزیر ہے۔ اس وقت افغانستان میں عدم استحکام کی وجہ سے کئی دہشت گرد تنظیمیں فروغ پا رہی ہیں، جن پر قابو پانے میں افغان حکومت مکمل طور پر ناکام نظر آرہی ہے۔بدقسمتی سے ہمارے پالیسی ساز اس آس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ جب افغانستان میں افغان طالبان کی دوست حکومت قائم ہوگی تو پھر ٹی ٹی پی خود بخود ختم ہوجائے گی۔یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ٹی ٹی پی کی تمام لیڈر شپ کو امریکی ڈرون حملوں میں مار دیا گیا جس میں مولانا نیک محمد، بیت اللہ محسود اور ملا فضل اللہ اور حکیم اللہ محسود بھی شامل ہیں، جب دوحہ میں طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات معطل ہوئے تو اسی پاکستان نے تمام فریقوں کو مذاکرات کی میز پر بٹھایا اور مذاکرات کی کامیابی کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ افغانستان کی موجودہ حکومت کی مدد کے لیے اسلام آباد میں او آئی سی کا اجلاس طلب کیا اور افغانستان کے لیے فنڈ اکٹھے کرنے کا کام شروع کیا۔اس بات میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ پاکستان گزشتہ بیس سالوں میں دہشت گردی، فرقہ واریت اور خانہ جنگی کے کڑے مراحل سے گزرا ہے جس میں پونے ایک لاکھ سے زائد لوگ مارے جا چکے ہیں۔ اس دوران جو ایک بات کھل کر سامنے آئی وہ یہ تھی کہ کسی بھی گروہ یا تنظیم کو اس وقت تک کارروائی کی جرات نہیں ہوتی جب تک ریاستی اداروں اور سول سوسائٹی کے اندر اس کے لیے ہمدردی پیدا نہ ہو۔یہ ہمدردی گروہی یا انفرادی بھی ہو سکتی ہے اور ادارہ جاتی بھی جو سہولت کاری کی شکل میں ان کو دستیاب ہوتی ہے۔ دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے والوں میں نام نہاد پڑھے لکھے لوگوں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جن کے اپنے بچے یورپ اور امریکا میں پڑھتے ہیں مگر وہ قبائلی علاقوں، سوات اور مالاکنڈ کے اسکولوں کو تباہ کرنے والوں کو ” اگر، مگر “ کے ساتھ جواز فراہم کرتے ہیں۔ایک اور عنصر جس سے دہشت گرد فائدہ اٹھاتے ہیں وہ عام شہریوں کا رویہ ہے۔ ان دہشت گردوں کے ہمدردوں اور ہمنوا گروہوں اور افراد کے علاوہ کچھ لوگ خوف سے اور کچھ ہمدردی میں خاموش رہتے ہیں جو دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کا باعث بنتے ہیں۔ ان میں ہم سبھی شامل ہیں جو کھل کر برائی کی مخالفت نہیں کرتے۔دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکامی کی جو سب سے بڑی وجہ اب تک سامنے آئی ہے وہ ریاستی اداروں اور حکومت کی غیر متوازن پالیسی ہے۔ حکومت ہمیشہ مصلحت کی وجہ سے ایک پالیسی اپنانے میں ناکام رہی جس کی وجہ سے کبھی سختی اور کبھی نرمی برتی گئی۔
ہر بار فوجی آپریشن کے بعد دہشت گردوں کے ساتھ بار بار کیے جانے والے مذاکرات اور معاہدوں کی وجہ سے ہی ان گروہوں کو سنبھلنے کا موقع ملتا رہا۔ ہر بار کمر توڑنے کے ریاستی دعوو ¿ں کے باوجود ان گروہوں کی کارروائیاں جاری رہیں۔ ریاست کسی دوسری ریاست سے تو مذاکرات کر سکتی ہے مگر اپنے ملک کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد سے مذاکرات کس قانون اور آئین کے تحت کیے جاتے ہیں؟ ریاستیں اپنے مجرموں سے مذاکرات اور معاہدے نہیں کرتیں بلکہ ان کو پکڑ کر قانون کے تحت سزا دلواتی ہیں تاکہ دوسرے شہریوں کو تحفظ حاصل ہو جو ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔جب تک ریاست اس یک نکاتی پالیسی پر عمل پیرا نہیں ہوتی اپنی رٹ قائم نہیں کرسکے گی اور یہ بات ذہن میں ہمیشہ رکھنے کی ضرورت ہے کہ جس کی رٹ قائم نہ ہو وہ ناکام ریاست کہلاتی ہے۔اس ملک کا ہر علاقہ دہشت گردی سے متاثر ہوچکا ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے بہت سے علاقے تو مسلسل اس عذاب کو جھیل رہے ہیں ۔ ایک لمبے عرصے سے اس عفریت کا شکار ہونے کے باعث اس ملک کے عوام بھی اہم نتائج اخذ کرچکے ہیں۔عوام کی ایک بہت بڑی تعداد اس حقیقت کو جان چکی ہے کہ اس تمام تر دہشت گردی اور فرقہ واریت میں ریاست کے مختلف حصے ملوث ہیں اور ان کی پشت پناہی اور امداد کے بغیر یہ سب نہیں کیا جا سکتا۔ افغانستان، بھارت یا کسی دوسرے ملک میں سامراجی مفادات کے ٹکراو ¿ کا ملبہ بھی دہشت گردی کی صورت میں عوام پر ہی گرتا ہے۔ ماضی میں پاکستانی ریاست ان جنگجوﺅں سے متعدد بار مذاکرات بھی کر چکی ہے۔ ایک بار پھر دہشت گرد پوری توانائیوں کے ساتھ موجود ہیں اور کسی بھی جگہ حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح ان دہشت گردوں کی مکمل معاونت کرنے والے اور ان کے لیے خام مال مہیا کرنے والے پورے ملک میں پھیلتے جا رہے ہیں۔افغانستان کے اندر جو عدم استحکام ہے اس کی وجہ سے داعش جیسی تنظیمیں بھی وہاں اپنی جگہ بنا رہی ہیں مشرقِ وسطیٰ کے حالات کی وجہ سے داعش کے جو ارکان وہاں سے آرہے ہیں وہ افغانستان میں اپنے ٹھکانے بنانے میں کامیاب ہو رہے ہیں یہ سلسلہ اگر بڑھتا رہا تو نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان اور پورے خطے کے لیے خطر ناک ہوگا جو افغان تنظیمیں غیر ملکی افواج کے خلاف سرگرم عمل ہیں وہ افغانستان کے اندر سے ہی آپریٹ کررہی ہیں اور یہ کہنا محض الزام تراشی ہے کہ انھیں پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔پاکستان اپنی سر زمین افغانستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے عہد پر سختی سے کار بند ہے اور افغان حکام کا بھی فرض ہے کہ وہ پاکستان پر الزام تراشی کے بجائے تعاون کا راستہ اختیار کریں اور اچھے ہمسایوں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔ بھارت کے جال میں پھنس کر پاکستان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈے سے افغان حکام کو کچھ حاصل نہ ہو گا۔اب چونکہ افغانستان کی جانب سے دہشت گردی کے خاتمے اور پاکستان اور وسط ایشیا کے ساتھ معاشی تعلقات استوار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا جارہا ہے تو اس کے لیے افغانستان پر ہی زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بھارتی سازشوں کو بھانپتے ہوئے اس سے کنارہ کرے۔ٹی ٹی پی کی سرپرستی ترک کردے تو تب ہی افغانستان عالمی سطح پر ہمدردیاں حاصل کرکے دنیا سے بہتر تعلقات استوار کرسکتا ہے۔
پاکستان کے اندر ایک بااثر گروہ جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر انتہا پسندی کا سرپرست بنا رہا، یہ گروہ ریاستی سسٹم میں داخل ہوکر انتہاپسند نظریات کی سرپرستی کرتا رہا، دہشت گردوں کو گلوریفائی کراتا رہا،ریاستی میکنزم پر اثرانداز ہوکر انتہاپسند اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں، ہنڈلرز اورمنصوبہ سازوں کو بچاتا رہا، یہی وجہ ہے کہ تمام تر قربانیوں کے باوجود پاکستان دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں غیرمعمولی اضافہ ہوگیا ہے۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ دہشت گردوں کو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں دستیاب ہیں، ٹی ٹی پی افغانستان میں پناہ گاہوں کے ساتھ ساتھ جدید ترین ہتھیار حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو گئی ہے۔اس تنظیم کے دہشت گردوں کے پاس افغانستان میں امریکی فوج کے چھوڑے گئے ہتھیاروں کی موجودگی کے شواہد اس امر کا یقینی ثبوت ہیں کہ افغانستان کی طالبان حکومت اپنی سر زمین ٹی ٹی پی کو روکنے میں اب تک کامیاب نہیں ہوسکی ہے بلکہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنا ہی نہیں چاہتی۔کالعدم تحریک طالبان نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا رکھے ہیں، کوئی ریاست اپنے دشمنوں اور باغیوںکو برداشت نہیں کرسکتی۔ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔پاکستان کی مسلح افواج نے اربوں روپے خرچ کر کے اور جانوں کی قربانیاں دے کر جو باڑ لگائی تھی، اس کو اکھیڑنے کی کوشش کی گئی۔ پاکستان کے سیکیورٹی اداروں اور شہری آبادی کو نشانہ بنایا گیا۔افغان حکومت کو اس بابت مطلع بھی کیا گیا مگر کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے دوران پاکستان کی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا، ہمارے سیکڑوں فوجی افسر و جوان، پولیس افسر اور سپاہی،ایف سی کے افسر و سپاہی اور بے گناہ شہری شہید ہوئے۔ اس کے باوجود جن کی خاطر پاکستان نے یہ زخم سہے تھے، وہ آج ہمارے ممنون ہونے کے بجائے ہمیں ہی نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ افغانستان کی پالیسی ہمیشہ پاکستان مخالفت پر استوار رہی ہے، یہ ایک ایسی واضح حقیقت ہے جس سے آنکھیں نہیں چرائی جاسکتیں۔ ساڑھے چار لاکھ افغانیوں کو قانونی دستاویزات کے ساتھ پاکستان لایا گیا جو واپس نہیں گئے۔اس کے علاوہ تین سے ساڑھے تین ملین افغانی غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم ہیں، انھی میں سے بعض لوگ ہیں جو گزشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان کو اقتصادی و معاشی میدان میں کمزور کرنے کے لیے ڈالروں کی بوریاں بھر بھرکر افغانستان اسمگل کر رہے ہیں اور پاکستان کو دیوالیہ کرنے کی گھناو ¿نی سازش کر رہے ہیں، پاکستان میں بھی اس سازش کے کردار موجود ہیں اور اب خاصی حد تک بے نقاب بھی ہوچکے ہیں ، یہ وہ ناسور ہے جو پاکستان کا مال کھا کر طاقت ور ہوا، اب اسی کی بنیادیں ہلا نے کی کوششوں میں مصروف ہے۔افغانستان میں طالبان حکومت آنے اور اس کے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات حکومت کے لیے تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فوجی آپریشن سے بچ کر افغانستان جانے والے طالبان جنگجو سابق حکومت کے دور میں واپس پاکستان آنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ملک میں دہشت گردی بڑھ رہی ہے۔ ان افراد کی سوچ پر بھی تعجب ہے جو پاکستانی طالبان کو تو دہشت گرد سمجھتے ہیں جب کہ افغان طالبان کو پاکستان کا دوست اور خیر خواہ تصور کرتے ہیں۔ہمیں اچھے طالبان اور برے طالبان کا فرق ختم کرنا ہوگا اور اس بات پر یقین رکھنا ہوگا کہ جو پاکستان کے اجتماعی عوامی مفادات کے برعکس پالیسی کے خلاف ہے، وہ پاکستان کا دوست اور ہمدرد نہیں ہے۔
ملک میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات اور خودکش حملوں نے ایک مرتبہ پھر ملک کی سلامتی اور بقاءکو سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ شاید حالات کی سنگینی کا احساس ارباب اقتدار کو بھی ہوا ہو۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے صف اول کا کردار ادا کرکے اپنی فوج اور عوام کے خون کی قربانیاں پیش کی ہیں۔اس جنگ کی وجہ سے پاکستان سیاسی، معاشرتی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہوا ہے اور اس جنگ میں پاکستان نے ہزاروں قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ پاکستان نے اس جنگ کی بہت بھاری معاشی، معاشرتی اور اخلاقی قیمت چکائی ہے اور خدا جانے کب تک چکاتے رہیں گے۔ معیشت جو پہلے ہچکیاں لے رہی تھی دہشت گردی کے عذاب نے اس کو موت کے منہ میں دھکیل دیا ہے کاروبار تباہ ہو گئے ہیں، نئی صنعت لگ نہیں رہی، پرانی فیکٹریاں دھڑا دھڑ بند ہورہی ہیں اور ہزاروں کے حساب سے لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں۔ملک ترقی معکوس کی طرف گامزن ہے۔ دہشت گردی، خودکش دھماکوں اور دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ بہت تباہیاں و بربادیاں لے کر آئی ہے کتنے لوگوں کی خوشیاں اور ارمان خاک میں مل گئے، کتنے لوگ اس دہشت گردی کی آگ کے بھینٹ چڑھ گئے، اب تک ہونے والے خودکش دھماکوں کے متاثرین پر کیا گزر رہی ہے؟ ہر صبح طلوع ہونے والا سورج ان کے لیے امید کی کرن لاتا ہے یا نہیں؟اب ہمارے سامنے ایک ہی راستہ ہے کہ یا تو ہم ان مسلح حملہ آوروں کے خلاف لڑیں یا پھر ان کے آگے ہتھیار ڈال دیں جو پاکستان کو دوبارہ عہد تاریک میں لے جانا چاہتے ہیں۔
پاکستان کے سیکیورٹی ادارے دہشت گردوں کے خلاف برسر پیکار ہیں لیکن یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا پڑے گی کہ محض حکومت یا سیکیورٹی اداروں پر تکیہ کرکے بیٹھ جانا ہرگز مناسب نہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پوری قوم کے ہر فرد کو سپاہی بننا ہوگا اور اپنے دشمن کو ہم صرف اور صرف اتفاق اور اتحاد کے ذریعے شکست فاش دے سکتے ہیں۔اس معاملے میں ملک کی سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کو چاہیے کہ وہ اپنے حامیوں کو نسلی، لسانی یا مسلکی اختلافات میں الجھانے کے بجائے انھیں دہشت گردی کے خطرات سے آگاہ کریں اور عوام کو اس جنگ کے لیے ذہنی طور پر تیار کریں۔دہشت گردی ایک بہت بڑا ناسور ہے جس کے مقابلہ کے لیے پوری قوم کو متحد اور منظم ہو کر مشترکہ طور پر اس کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنا ہوگا۔ نوجوانوں کو دہشت گردوں کے اثرات سے محفوظ کرانا اور انھیں انتہا پسندانہ نظریات کا مبلغ بنانے کے بجائے مفید و کار آمد شہری بنانا ہوگا۔ پاکستان میں موجودہ دہشت گردی کے واقعات نے لوگوں کو بے سکون کر دیا ہے، ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے وطن عزیز کی سا لمیت کے لیے آپسی بھائی چارے اور مذہبی رواداری کو فروغ دیا جائے اور لوگوں کا حکومت پر اعتماد بحال کیا جائے۔بلوچستان اور خیبر پختوخوا کی حکومتوں کو ہی نہیں بلکہ ملک کے تمام صوبوں کی حکومتوں کو چاہیے کہ پولیس انفارمیشن سسٹم کو مزید بہتر بنائیں۔ سیاسی رہنما اپنے حلقوں میں مشکوک افراد کا ڈیٹا جمع کریں اور خفیہ ایجنسیاں ان اطلاعات پر کارروائی کریں تاکہ دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں پر کریک ڈاو ¿ن کیا جائے۔دہشت گردوں کا قلع قمع کرنا بہت ضروری ہے، اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں موجود ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ بھی ضروری ہے، یہی پاکستان کی بقا کی ضمانت ہے۔دہشت گردی کو ختم کرنے میں فوج کا کردار بہت اہم ہے اور فوج کی قربانیاں بھی بے شمار ہیں مگر فوج اکیلے یہ کام نہیں کرسکتی، نہ ہی تمام تر ذمے داری کا بوجھ فوج کے کندھوں پر ڈالا جاسکتا ہے کیونکہ اس سے فوج کی دفاعی صلاحیت متاثر ہوسکتی ہے، دہشت گردی پر قابو پانے کی 80 فیصد ذمے داری سیاسی حکومتوں اورسول انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے نظام انصاف بھی اپنی ذمے داری سے راہ فرار اختیار نہیں کرسکتا،ملک کی سیاسی قیادت بھی اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے جب کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اپنے موقف میں واضح نہیں رہیںبلکہ الجھاوﺅپیدا کرنے کا سبب بنی ہیں۔ جب تک ملک میں موثر نظام حکومت نہیں ہوگا اور ہر شعبہ اپنا فعال کردار ادا نہ کرے ا ±س وقت تک دہشت گردی سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے۔