کراچی ( نمائندہ خصوصی کورٹ رپورٹر ) اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق پر مشتمل سنگل بنچ نے استفسار کیا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کو ان کے بچوں سمیت کس اختیار کے تحت امریکی ایجنسیوں کے حوالے کیا گیا؟ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے وکیل ایڈووکیٹ عمران شفیق نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر آئینی پٹیشن نمبر 3139/2015 کی سماعت کے بعد میڈیا کو بتایا کہ آج کی انتہائی اہم سماعت کے دوران سماعت معزز جج نے کچھ بنیادی سوالات پوچھے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے امریکی وکیل کلائیو اسمتھ نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر عافیہ کی رہائی کے لیے امریکی عدالتوں میں رحم کی اپیل کے بارے میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک اعلامیہ(declaration) جمع کرایا ہے جس میں انہوں نے عافیہ اور اس کے بچوں کے اغوا اور انہیں امریکہ کے حوالے کرنے سے متعلق تمام بنیادی حقائق کا ذکر کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اعلامیہ کے مطابق عافیہ صدیقی اور ان کے بچوں کو سندھ حکومت اور آئی ایس آئی نے امریکی ایجنسیوں کے حوالے کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل اور وزارت خارجہ کے حکام سے کہا کہ یہ سوالات اعلامیے میں اٹھائے گئے ہیں اور عدالت ان معاملات پر آنکھیں بند نہیں رکھ سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ عدالت ڈیکلریشن میں اٹھائے گئے سوالات پر انکوائری شروع کرنے کا حکم کیوں نہ دے؟ اور اس معاملے پر ڈی جی آئی ایس آئی سے رپورٹ طلب کر کے پوچھے کہ ان کے پاس کیا شواہد تھے جن کی بنیاد پر ڈاکٹر کو اغوا کرنے کا فیصلہ کیا گیا کہ عافیہ صدیقی کو اس کے بچوں سمیت امریکی ایجنسیوں کے حوالے کیا جائے۔انہوں نے سوال کیا کہ اگر ان کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہوں تو کیا پھر بھی ان کے پاس کسی قانون کے تحت عافیہ اور اس کے بچوں کو امریکی ایجنسیوں کے حوالے کرنے کا اختیار ہے؟عمران شفیق نے کہا کہ معزز عدالت نے حکومت کو قیدیوں کی واپسی کے بارے میں امریکا کے ساتھ کثیرالجہتی معاہدے کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے چار ہفتے کا وقت دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومتی عہدیداروں نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے امریکا کے ساتھ دوطرفہ معاہدے پر دستخط کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن امریکی حکومت کے ساتھ اس حوالے سے بات چیت ابھی شروع نہیں ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنجوعہ کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی واپسی میں ایک رکاوٹ یہ ہے کہ جب اس حوالے سے سزا کی معافی کی تحریک پیش کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ چونکہ ڈاکٹر عافیہ کو پاکستانی حکومت نے امریکا کے حوالے کیا تھا اس لیے ایسا عمل قانونی ہونا چاہئے۔آج کی سماعت میں جماعت اسلامی کے رہنما سابق سینیٹر مشتاق احمد بھی موجود تھے۔انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عافیہ اور ان کے بچوں کو حکومت پاکستان نے غیر قانونی طور پر امریکی ایجنسیوں کے حوالے کیا تھا۔ پھر انہیں غیر قانونی طور پر افغانستان منتقل کیا گیا اور جہاں سے انہیں ایک مرتبہ پھر غیر قانونی طور پر نیویارک منتقل کیا گیا جہاں ایک امریکی عدالت نے عافیہ کو غیر قانونی طور پر جیل کی سزا سنائی۔انہوں نے کہا کہ عافیہ کا تیسرا اغوا ہونے والا بچہ سلمان تاحال لاپتہ ہے۔ اسے فوری طور پر بازیاب کرایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ عافیہ کی رہائی کی چابی اسلام آباد میں موجود ہے لیکن ہماری اپنی حکومت عافیہ کی رہائی نہیں چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت پاکستان باضابطہ طور پر عافیہ کی رہائی کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر درخواست دائر کرتی ہے تو وہ چند دنوں میں رہا ہو سکتی ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی جلد رہائی کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔