کوئٹہ۔ (نمائندہ خصوصی ):وزیر اعلی بلوچستان میر سرفراز احمد بگٹی نے کہا ہے کہ دہشتگردی کے حالیہ واقعات میں 38معصوم لوگ شہید ہوئے ہیں جبکہ 21دہشتگردوں کو جہنم واصل کر دیا گیا ہے ،معصوم لوگوں کو قتل کرنے والے بلوچ نہیں دہشتگرد ہیں ، معصوم لوگوں کو قتل کرنے والے دہشتگردوں کو کیفر کردار تک پہنچا کرتمام شہداء کا بدلہ لیاجائے گا ،پاکستان توڑنے کی باتیں کرنے والے خام خیالی میں ہیں،بندوق اٹھاکر ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والوں سے کیسے مذاکرات؟ ، البتہ سیاسی مسئلہ پر سیاسی لوگوں سرداراخترجان مینگل ،ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ،نوابزادہ خالد مگسی ،پشتونخوامیپ سے بات ہوسکتی ہے ، تما م ذی شعور افراد کوفیصلہ کرناہوگاکہ وہ ان لوگوں کے ساتھ کھڑے ہونگے جو پاکستان توڑنا چاہتے ہیں یا پاکستان کو بنانے والوں کے ساتھ کھڑے ہونگے ، وہ لوگ جو لاپتہ افراد کے نام پر نکلتے ہیں ان کے ساتھ مذاکرات میں لاپتہ افراد کا نکتہ ہی نہیں ہوتا، یہ عناصرصرف لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے وزیر اعلی سیکرٹریٹ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر صوبائی وزرا میر ظہور احمد بلیدی، راحیلہ حمید درانی، میر عاصم کرد گیلو، میر حاجی علی مدد جتک، ملک نعیم بازئی، حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند ودیگر بھی موجود تھے۔ وزیر اعلی میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ گزشتہ شب جو بزدلانہ واقعات ہوئے اور دہشت گردوں نے مختلف اضلاع میں 38 کے قریب معصوم لوگوں کو شہید کیا ان واقعات میں بلوچوں نے نہیں بلکہ دہشتگردوں نے پاکستانیوں کو مارا ہے، ہمیں یہ چیز سمجھنا چاہیے، یہ دہشت گرد 30 سے 40 منٹ کیلئے روڈ پر کھڑے ہوکر لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں اور پھر بھاگ جاتے ہیں ، اگر یہ بزدل نہیں تو کھڑے رہتے پھر سکیورٹی فورسز ان کو جو جواب دیتی ان کو عمر بھر یاد رہتا۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ پاکستان کو توڑنا چاہتے ہیں یہ ان کی خام خیالی ہے میں واضح کرتا ہوں کہ ان تمام شہدا کا نہ صرف بدلہ لیا جائے گا بلکہ اسی انداز میں ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوگی حکومت بلوچستان سیکورٹی فورسز کے ساتھ مل کر ان دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچائے گی ،سیکورٹی فورسز کی جانب سے کلیئرنس آپریشن میں21دہشت گرد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ دو مقامات پر آپریشن اب بھی جاری ہے، میرسرفرازبگٹی نے کہاکہ یہ لڑائی ریاست کی لڑائی ہے جس میں عدلیہ، وکلا، سیاستدان ،صحافی سمیت ہرطبقہ شامل ہے کالعدم تنظیم بی ایل اے کے دہشت گرد وں نے جن معصوم لوگوں کو شہید کیاہے ان دہشتگردوں کے ہمدرد جو ان کیلئے نرم رویہ رکھتے ہیں اورپھر سڑکوں پر ان دہشتگردوں کی ایڈوکیسی کرتے پھررہے ہیں وہ ان شہداء کے لواحقین کو کیا جواب دے سکتے ہیں؟انہوں نے کہاکہ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ بندوق سے ریاست کو چیلنج کریں اور پھر عوام میں نفرت پیدا کرکے پروپیگنڈہ کے ذریعے ایک جواز پیش کرکے معصوم لوگوں کو قتل کرتے پھریں۔لوگوں کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ ان عناصر کے ساتھ کھڑا ہونا چاہتے ہیں جو پاکستان توڑنا چاہتے ہیں یا پھر ان کے ساتھ جو پاکستان کو مضبوط کرنا اور دیکھناچاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ دہشت گرد زمین پر فساد پھیلانا چاہتے ہیں، انہوں نے پشتونوں و بلوچوں کو بھی شہید کیاہے ان واقعات کے بعد ان لوگوں کیلئے سوچنے کا وقت ہے جو دہشت گردوں کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔میرسرفرازبگٹی نے کہاکہ ہم نے پہلے بھی دیکھا کہ دہشت گردی پروان چڑھتی ہے اورپھر کم ہوجاتی ہے اور پھر ان کے ہمدرد سڑکوں پر نکل آتے ہیں، ہم مذاکرات کیلئے تیار ہیں لیکن جو لوگ بندوق کے ذریعے بات کرنا چاہتے ہیں ان کے ساتھ کیا بات کریں؟ یہ دہشت گرد سافٹ ٹارگٹ ڈھونڈتے ہیں حالانکہ بیلہ میں انہی لوگوں نے حملہ کیااور فورسز نے انہیں منہ توڑ جواب دیا، اس لئے تو وہ سڑکوں پر نکل کر عام شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور پھر چند منٹ کے بعد بھاگ جاتے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ ہمارے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ وہ کون لوگ ہیں جو ان کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں، ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ ہمارے دروازے مذاکرات کیلئے کھلے ہیں لیکن بندوق کے زور پر کوئی بھی شے منظور نہیں ،دہشت گردی کی جنگ صرف فوج اور دہشت گرد کے درمیان نہیں بلکہ ہر پاکستانی کی ہے ، جو پاکستان کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں وہ افواج پاکستان کو سپورٹ کریں۔انہوں نے کہا کہ سیاسی لوگوں کے مسائل ہوں تو بیٹھ کر بات ہوسکتی ہے ۔وزیراعلیٰ بلوچستان نے صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ اتنی لمبی سڑکیں ہیں دہشتگرد ایک چھوٹے سے حصے پر کھڑے ہوکر واردات کرجاتے ہیں اگر حکومت چیک پوسٹ بناتی ہے یا کسی گاڑی میں چیکنگ ہوتی ہے توپھر اداروں کے خلاف پروپیگنڈہ شروع ہوجاتاہے۔انہوں نے کہاکہ حکومت بلوچستان نے فیصلہ کیا ہے کہ سوشل میڈیا کے پروپیگنڈہ میں نہیں آئیں گے اور نہ ہی بیرونی خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں کے پروپیگنڈے کو کامیاب ہونے دیں گے ۔انہوں نے کہاکہ وہ لوگ جو لاپتہ افراد کے نام پر نکلتے ہیں ان کے ساتھ مذاکرات میں لاپت افراد کا نکتہ ہی نہیں ہوتا یہ لوگ صرف لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہیں کرنا چاہتے ۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں کسی گرینڈ آپریشن کی ضرورت نہیں بلکہ سمارٹ آپریشن کی ضرورت ہے، ایک شخص ناراض ہوکر بندوق اٹھا لیتاہے اور معصوم لوگوں کو قتل کرتاہے تو کیا ہم ان سے مذاکرات کریں۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی مسئلہ تو ہمارا سردار اختر مینگل، ڈاکٹر عبد المالک بلوچ، نوابزادہ خالد مگسی یا پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ساتھ ہوسکتاہے ان کے ساتھ بات کرنے کیلئے بھی تیار ہیں لیکن عام لوگوں کو قتل کرنے والوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہوگی ۔