اسلام آباد( نمائندہ خصوصی )سپریم کورٹ آف پاکستان نے وفاقی حکومت کی درخواست منظور کرتے ہوئے مبارک ثانی کیس میں چھ فروری اور چوبیس جولائی کے فیصلوں سے تمام متنازع پیرا گراف حذف کر دیئے۔چیف جسٹس آف پاکستان نے قرار دیا ہے کہ قادیانی آئینی حقوق لینا چاہتے ہیں تو وہ خود کو پہلے غیر مسلم تسلیم کریں یا ختم نبوت ﷺ پر ایمان لائیں۔تفصیلات کے مطابق مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ کے چوبیس جولائی کے متنازع فیصلے کی درستگی کے لئے وفاقی حکومت کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت آج(جمعرات کو)ہوئی۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے مذکورہ درخواست کی ساڑھے پانچ گھنٹے طویل سماعت کے بعد مختصر فیصلہ سناتے ہوئے اپنے چھ فروری اور چوبیس جولائی کے فیصلوں کے تمام متنازع پیرا گراف کو حذف کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے روبرو وفاقی حکومت نے چوبیس جولائی کے فیصلے کی درستگی کے لئے درخواست دائر کی۔جس پر عدالت عظمیٰ نے مذہبی شخصیات کو رہنمائی کے لئے نوٹس جاری کئے۔پارلیمنٹ نے بھی عدالت عظمیٰ کے چوبیس جولائی کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا اور آج عدالت عظمیٰ کے روبرو مذہبی شخصیات نے بھی مذکورہ فیصلے کے متعدد پیرا گراف پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انہیں حذف کرنے اور اس حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر انحصار کرنے پر زور دیا۔عدالت عظمیٰ اٹارنی جنرل آف پاکستان اور معاونت کے لئے موجود مذہبی شخصیات کے تفصیلی دلائل سننے کے بعد وفاقی حکومت کی درخواست منظور کرتے ہوئے اپنے چھ فروری اور چوبیس جولائی کے فیصلوں کے متنازع پیرا گراف کو حذف کرتی ہے۔مذکورہ فیصلوں کے حذف شدہ پیرا گراف کو بطور عدالتی نظیر استعمال نہیں کیا جاسکے گا۔ٹرائل کورٹ ملزم مبارک ثانی کے خلاف مقدمے کا فیصلہ عدالت عظمٰی کے مذکورہ فیصلوں سے متاثر ہوئے بغیر میرٹ پر کرے۔مختصر فیصلے کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔دوران سماعت عدالتی نوٹس پر شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے ترکیہ کے دارالحکومت استنبول سے وڈیو لنک کے ذریعے اپنے دلائل پیش کئے۔جبکہ سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمٰن نے بنفس نفیس عدالت عظمٰی کے روبرو پیش ہوکر اپنے دلائل دیئے۔ان کے علاوہ جامعہ غوثیہ رضویہ بھیرہ کے مفتی شیر محمد خان،چیف خطیب کے پی کے مولانا طیب قریشی،صاحبزادہ ابوالخیر زبیر،مفتی منیب الرحمٰن کے نمائندے پیر سید حبیب الحق شاہ،عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ﷺ کے مرکزی رہنما مولانا اعجاز مصطفیٰ کے نمائندے محمد طیب اور مفتی عبدالرشید،جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کی طرف سے فرید احمد پراچہ،ڈاکٹر عطاء الرحمٰن،جمیعت اہل حدیث کے امیر پروفیسر ساجد میر کے نمائندے حافظ احسان ایڈووکیٹ نے بھی عدالت عظمیٰ کے روبرو پیش ہوکر اپنے دلائل دیئے۔اسی طرح جامعة المنتظر لاہور کے مہتمم علامہ سید جواد احمد نقوی نے بھی سپریم کورٹ لاہور رجسٹری سے بذریعہ وڈیو لنک اپنے دلائل دیئے۔دوران سماعت تحریک تحفظ ناموس رسالت ﷺ پاکستان کے مرکزی جنرل سیکریٹری حافظ احتشام احمد،تحریک لبیک پاکستان کے سرپرست اعلیٰ قاضی محمود اعوان،مفتی حنیف قریشی اور دیگر مذہبی شخصیات بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل عثمان منصور نے موقف اختیار کیا کہ ارکان پارلیمنٹ اور پارلمینٹ کی لاء اینڈ جسٹس کمیٹی کے مطالبے پر وزیر اعظم پاکستان نے مجھے ہدایت کی تھی کہ عدالت عظمیٰ کے مذکورہ فیصلے میں موجود حادثاتی غلطیوں کی درستگی کے لئے درخواست دائر کی جائے۔اس حوالے سے اسپیکر قومی اسمبلی نے بھی مجھے ایک خط لکھا تھا۔ہم نے اپنی درخواست میں ان مذہبی شخصیات کا بھی ذکر کیا تھا،جنہوں نے عدالت عظمیٰ کے مذکورہ فیصلے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔عدالت عظمیٰ نے مذکورہ مذہبی شخصیات کو نوٹسسز بھی جاری کئے۔ان میں سے اکثر مذہبی شخصیات عدالت عظمیٰ کی معاونت کے لئے موجود ہیں۔میری رائے ہے کہ عدالت مذہبی شخصیات کو پہلے سن لے۔اس لئے کہ یہ مذہبی معاملہ ہے۔جس کے بعد مفتی تقی عثمانی نے استنبول سے وڈیو لنک کے ذریعے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے چوبیس جولائی کے فیصلے کا پیرا نمبر 7 اور 42 آئین و قانون اور عدالتی نظائر کے خلاف ہے۔ان دو پیرا گراف کو حذف کرنا ضروری ہے۔آئین پاکستان میں دوسری ترمیم کے ذریعے قادیانیوں کو صرف غیر مسلم اقلیت قرار دیکر پارلیمنٹ نے قادیانیوں کے ساتھ کچھ رعایت کی۔ورنہ قادیانی صرف غیر مسلم نہیں بلکہ زندیق اور مرتد ہیں۔پارلیمنٹ اگر انہیں زندیق اور مرتد قرار دیتی تو پھر ان کے لئے احکامات مزید سخت ہوتے۔مگر قادیانی پارلیمنٹ اور آئین کے اس فیصلے کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔جب وہ آئین کو ہی نہیں مانتے تو انہیں غیر مسلموں کے حقوق کیسے دیئے جاسکتے ہیں؟قادیانی آئین کے تحت خود کو غیر مسلم تسلیم کریں۔اپنے مذہب کو واضح کریں،جس کا اسلام اور شعائر اسلام سے کوئی تعلق نہ ہو۔پھر وہ بے شک دیگر غیر مسلموں کی طرح حقوق لیں۔لہذا قادیانی تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 بی اور سی کے تحت نہ تو عوامی سطح پر اپنے مذہب کی تبلیغ کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے نجی اداروں میں۔سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے دلائل میں مفتی تقی عثمانی کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ میری 72 برس عمر ہو گئی ہے۔میں ان 72 سالوں میں آج پہلی دفعہ کسی عدالت میں پیش ہو رہا ہوں۔آج بھی میں صرف اس لئے عدالت عظمیٰ کے روبرو حاضر ہوا کہ معاملہ عقیدہ ختم نبوت ﷺ کے تحفظ کا ہے۔یہ تو کہا جاتا ہے کہ ہم مسلمان قادیانیوں کو غیر مسلم کہتے ہیں۔لیکن اس پہلو کی طرف توجہ نہیں دی جاتی کہ قادیانی آئین پاکستان سے انحراف کرتے ہوئے خود کو مسلمان اور پوری امت مسلمہ کو غیر مسلم اور کافر کہتے ہیں۔قادیانیوں کو اس وقت تک کوئی حقوق نہیں دیئے جا سکتے،جب تک وہ خود کو آئین پاکستان کے تحت غیر مسلم تسلیم نہ کر لیں۔مفتی شیر محمد خان نے بھی عدالت عظمیٰ کے مذکورہ فیصلے کے متنازع پیرا گراف کو حذف کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ قادیانیوں کو نہ تو عوامی سطح پر تبلیغ کی اجازت ہے اور نہ ہی نجی طور پر۔تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 بی اور سی قادیانیوں پر مطلقاً پابندیوں کا اطلاق کرتا ہے۔قانون نے جن پابندیوں کا اطلاق مطلقاً کیا،انہیں عدالت مقید کیسے کر سکتی ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے آئین و قانون پر عملدرآمد کرنے کا حلف اٹھا رکھا ہے۔قادیانی غیر مسلم ہیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں۔ہم اس سے بھی متفق ہیں کہ قادیانی اپنے عقیدے کی تبلیغ نہیں کر سکتے۔اس لئے کہ یہ قانون کی منشاء ہے۔ہم انسان ہیں۔ہم سے غلطیاں ہو سکتی ہیں۔اگر ہم یہ کہیں کہ ہم سے کوئی غلطی نہیں ہوتی تو پھر ہم انسان نہیں۔میں ہر نماز کے بعد دعاء کرتا ہوں کہ اللّٰہ مجھ سے درست فیصلے کروائے۔میں نے کبھی دباؤ میں کوئی فیصلہ نہیں کیا۔جس دن ایسی نوبت آئی کہ مجھے دباؤ کے تحت فیصلے کرنے پڑیں تو میں اسی دن منصب چھوڑ کر گھر چلا جاؤں گا۔قادیانیوں کے متعلق جو آئین و قانون کہتا ہے،ہم اس سے سو فیصد متفق ہیں۔ممکن ہے کہ فیصلہ لکھتے ہوئے ہم سے الفاظ کے چناؤ میں غلطیاں ہوئی ہوں۔ہم ان غلطیوں کی اصلاح کریں گے۔علمائے کرام کے دلائل سے بہت کچھ آج مجھے ایسا معلوم ہوا،جو پہلے معلوم نہیں تھا۔آئین پاکستان کے تحت قادیانی غیر مسلم ہیں اور آئین پاکستان کا آرٹیکل پانچ پاکستان کے ہر شہری بشمول عارضی طور پر پاکستان آئے غیر ملکیوں کو بھی آئین کی پاسداری کرنے کا پابند کرتا ہے۔قادیانی آئینی حقوق لینا چاہتے ہیں تو انہیں پہلے خود کو آئین پاکستان کے تحت غیر مسلم تسلیم کرنا ہو گا یا پھر ختم نبوت ﷺ پر ایمان لانا ہوگا۔دوران سماعت سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا اور تحریک انصاف کے رہنماء لطیف کھوسہ نے بھی دلائل دینے کی کوشش کی مگر چیف جسٹس آف پاکستان نے انہیں دلائل پیش کرنے کی اجازت نہیں دی اور ریمارکس دیئے کہ اگر وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں تو درخواست دائر کریں۔بصورت دیگر اگر انہیں ہمارے کسی فیصلے پر اعتراض ہے تو اسے وہ پارلیمنٹ کے ذریعے بھی کالعدم قرار دلوا سکتے ہیں۔