اسلام آباد۔(نمائندہ خصوصی ):وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی ترقی و اصلاحات وخصوصی اقدامات پروفیسر احسن اقبال نے کہا ہے کہ ملک کو معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے امن، سیاسی استحکام، پالیسیوں کا تسلسل اور اصلاحات کا عزم بہت ضروری ہے، حکومت ڈیجیٹلائزیشن کے عمل سے تیز رفتار ترقی کی بنیاد رکھنا چاہتی ہے، جدید دنیا ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی بنیاد پر بدل چکی ہے، آج کے دور میں ڈیجیٹل انقلاب ترقی کا مظہر ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈیجیٹل کے ذریعے پاکستان کو با اختیار بنانے کے موضوغ پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل سٹڈیز اور سینٹر آف پاکستان اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز نے اس سیمینار کا انعقاد کیا ۔انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل انقلاب نے ہماری زندگی کے ہر پہلو کی تشکیل نو کی ہے، اب ہم ایک علاقے، خطے تک محدود نہیں ہیں بلکہ ایک وسیع عالمی نیٹ ورک سے جڑ چکے ہیں جبکہ آج ڈیجیٹل ٹیکنالوجی ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکی ہے ، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی بدولت شخصی آزادیوں اور سماجی خود مختاری کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔احسن اقبال نے مزید کہا کہ ہم وہ جنریشن ہیں جو تختی سے لے کر ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی تبدیلی سے گزری ہے، کسی بھی ملک کے لیے ٹیکنالوجی اپنانا آسان نہیں ہوتا، نئی پالیسیوں کا تعین بجائے خود بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے، پالیسیوں کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے پندرہ سال کا وقت درکار
ہوتا ہے۔انھوں نے کہا کہ ہمسایہ ممالک میں جنھوں نے ترقی کی ان میں سیاسی استحکام پہلی چیز تھی، حکومتی پالیسیوں پر عملدرآمد کے لئے کم سے کم دس دس سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے، ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہمارا مستقبل کیا ہوگا، غلط انتخاب آپ کو بیس بیس سال پیچھے دھکیل دیتا ہے، بدقسمتی سے ہم نے ایک ایسے ڈرائیور کے ہاتھ گاڑی کی چابی دی جس نے کبھی گاڑی چلائی ہی نہیں اور اب اس تجربے کا نقصان آج تک اور اگلے کئی سالوں تک نسلیں بھگتیں گی۔ احسن اقبال نے کہا کہ جوبیس سال بعد ہم ملک میں سو سالہ جشن آزادی کی تقریب منائیں گے، اگر ہم نے عدم استحکام ، پالیسیوں کے تسلسل پر کام نہ کیا تو اہم باقی دنیا سے بہت پیچھے رہ جائیں گے۔انھوں نے کہا کہ ہمارے ہاں اتنی کرپشن نہیں جتنی ہمسایہ ممالک میں ہے، مگر پچھلے دس سالوں میں پاکستان کو بدنام کیا گیا، پاکستانی قوم کی عزت نفس ایک منظم طریقے سے تباہ کی گئی، میرے ساتھ سیاسی انتقام لیا گیا، مجھے کئی سال نارووال سپورٹس سٹی بنانے کی وجہ سے خوار کیا گیا، جانتے بوجھتے نارووال سپورٹس سٹی کو متنازعہ بنایا گیا اور چار سال سپورٹس سٹی کو تنازعے میں ڈالنے کی وجہ سے تعمیری لاگت میں تین گنا اضافہ ہوگیا۔انھوں نے کہا کہ گزشتہ چار سالوں تک ملک میں فیصلہ سازی ختم کر دی، آج ایک اٹھارویں گریڈ کا بندہ بھی فائل پر دستخط کرتے ہوئے سو بار سوچتا ہے، ہمیں لوگوں کے اندر سے ڈر کو نکالنا ہے ، چین کے ساتھ اعتماد کی فضا ایک بار پھر اجاگر کرنی ہے ، چین کے ساتھ اعتماد کی بحالی کی کوششوں کے ساتھ ساتھ سی پیک 2.0 کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ ڈیجیٹل چیلنجز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا کہ دنیا کا سب سے بڑا چیلنج مس انفارمیشن ہے، اگر ہم ذمہ دارانہ رویوں کا مظاہرہ نہ کریں تو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی ہمارے لئے وبال بھی بن سکتی ہے، ہم نے ویژن 2010 ، 2025 میں سب سے زیادہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کو فروغ دیا۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آئی آر ایس کے صدر سفیر جوہر سلیم نے پالیسیوں اور اداروں کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کی اہمیت پر زور دیا تاکہ ملک میں ڈیجیٹل تبدیلی کے عمل کو تیز کیا جا سکے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ ڈیجیٹل تقسیم ہے، معیشت اور معاشرے کے کچھ شعبے ڈیجیٹل تبدیلی سے کافی فائدہ اٹھا رہے ہیں جبکہ دیگر پیچھے رہ گئے ہیں۔ انہوں نے ایک طرف ای گورننس اور تمام عوامی خدمات کو ڈیجیٹلائز کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور دوسری طرف ڈیجیٹل بیداری کو فروغ دینے اور بہترین طریقوں کو اپنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ پاکستان اب صرف تیز رفتاری سے ڈیجیٹل تبدیلی کے ذریعے دیگر اعلیٰ ترقی یافتہ معیشتوں کے ساتھ مل سکتا ہے۔آمنہ منور اعوان نے واضح کیا کہ ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز صنعتوں میں انقلاب لانے، فیصلہ سازی کے عمل کو بڑھانے اور نئے اقتصادی مواقع پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، ان چیلنجوں سے نمٹنے اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کا مکمل فائدہ اٹھانے کے لیے، ہمیں مصنوعی ذہانت (اے آئی)، بلاک چین ٹیکنالوجی، اوپن سورس انٹیلی جنس (اوایس آئی این ٹی)، کوانٹم کمپیوٹنگ، سائبر سکیورٹی، ڈیجیٹل میڈیا لٹریسی، انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اور تعلیم و تربیت پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے، آئیے ہم ہر فرد کو ڈیجیٹل طور پر بااختیار بنانے اور پاکستان کو جدت اور ترقی کی روشنی میں تبدیل کرنے کی اپنی کوششوں میں متحد ہو جائیں۔وزارت آئی ٹی اور ٹیلی کام کی ایڈیشنل سیکرٹری عائشہ حمیرا چوہدری نے ملک میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بنیادی ڈھانچے کو آگے بڑھانے میں وزارت آئی ٹی اور ٹیلی کام کی کوششوں کے بارے میں شرکاء کو آگاہ کیا۔ انہوں نے ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ اشتراک کے ذریعے ڈیجیٹل تبدیلی کو فروغ دینے کی کوششوں پر بھی زور دیا۔این آئی ٹی بی کے سی ای او ڈاکٹر بابر ماجد بھٹی نے مجموعی سماجی و اقتصادی ترقی کے حصول کے لیے ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کو اپنانے کی اہمیت پر زور دیا۔انہوں نے ملک میں ڈیجیٹل اقدامات اور منصوبوں کے اوور لیپنگ مظاہر کو حل کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا کیونکہ وہ ڈیجیٹلائزیشن کی ترقی میں موثر طریقے سے حصہ نہیں ڈال رہے ہیں۔ نیشنل سی ای آر ٹی کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر حیدر عباس نے بتایا کہ عالمی اور قومی سائبر سکیورٹی انڈیکس کے مطابق پاکستان سائبر سکیورٹی کے لحاظ سے سب سے زیادہ غیر محفوظ ممالک میں سے ایک ہے۔انہوں نے ذکر کیا کہ پاکستان سائبر ایمرجنسی رسپانس ٹیم نے پاکستان کی ڈیجیٹل سرحدوں کی حفاظت کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں اور ڈیجیٹل سکیورٹی لچک کو بڑھانے کے لیے تمام بڑے سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔پاشا کے وائس چیئرمین خرم راحت نے ڈیجیٹل تبدیلی اور سائبر سکیورٹی کے لیے ایک مضبوط فریم ورک کے قیام کی سفارش کی۔ انہوں نے ڈیٹا منیٹائزیشن کو فروغ دینے اور عوامی رسائی کو بڑھانے کے لیے قانونی فریم ورک اور اوپن ڈیٹا پالیسی کے سخت نفاذ کی ضرورت پر بھی زور دیا۔