ارمچی (شِںہوا) چین میں ماؤنٹ چھومولانگما چڑھائی کا سیزن مکمل کرنے کے بعد نیپالی گائیڈ داوا کامی شیرپا نے چین کے شمال مغربی سنکیانگ ویغور خود مختار علاقے کے مزتاغ عطا جانے سے قبل گھرمیں قلیل وقت آرام کیا۔مزتاغ عطا اپنی زیادہ بلندی اور نسبتاََ قابل رسائی چڑھائی کی بدولت چین میں ایک مقبول چوٹی ہے۔ 7 ہزار 546 میٹر بلند پامیر سطح مرتفع کے مشرقی کنارے پر واقع یہ چوٹی کون لون پہاڑوں کا حصہ ہے۔داوا نے کہا کہ انہوں نے اس سے متعلق کئی بار سنا تھا اور 5 برس قبل وہ یہاں آنا چاہتے تھے تاہم اس وقت ایسا نہ ہوسکا ۔ عام طور پر ہم جون اور جولائی میں پاکستان جاتے ہیں لیکن رواں سال آخر کار انہیں یہاں آنے کا موقع ملا اور وہ بہت پرجوش ہیں۔شیرپا افراد دنیا بھر میں چڑھائی میں مہارت رکھنے کے سبب مشہور ہیں جوخطرناک اور انتہائی بلند ماحول میں غیرمعمولی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ داوا میں بھی یہ صلاحیتیں موجود ہیں جبکہ انکے ساتھی لکپا تمنگ اور جنگ بو شیرپا کئی بار ماؤنٹ چھومولانگما سرکرچکے ہیں۔داوا نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ماؤنٹ چھومولانگما پر خمبو آئس فال ہر ماہ تبدیل ہوتا ہے اور یہ خطرناک بھی ہے۔ اس لئے ہمیں راستے کی تلاش اور اسے درست کرنا ہوگا یہاں مشکلات اور خطرات کم ہیں کیونکہ یہاں سامان کی جانچ، آکسیجن اور حفاظتی انتظامات زیادہ ہے۔داوا تھوڑی بہت چینی بول سکتے ہیں، کیونکہ ماؤنٹ چھو مولانگما پر ان کے بہت سے گاہک چینی ہیں۔ حالیہ کوہ پیمائی سیزن میں ان کے 27 رکنی گروپ میں سے 20 چینی تھے۔انہوں نے کہاکہ ہرایک کے ساتھ بہترگفتگو کے لئے انہیں یہ زبان سیکھنا پڑی ۔ انکا کہنا تھا کہ اگر میں چینی سمجھتا ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ میرے پاس زیادہ مہارت ہے اورمیں زیادہ کما سکتا ہوں۔ماؤنٹ چھومولانگما سیزن کے بعد شیرپا افراد دنیا کے مختلف حصوں میں چلے جاتے ہیں اور مختلف چوٹیوں پر کوہ پیمائی میں معاونت کرتے ہیں داوا اور ان کے ساتھیوں کی بڑھتی تعداد اب چین کو اپنے روزگار کا ایک اہم حصہ تصور کرتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہاں تک رسائی بہت بہترین ہے۔ نیپال میں اگر آپ ماؤنٹ چھوومولانگما جاتے تو آپ کو اپنے سامان سے لدے جانوروں کے ساتھ طویل وقت لگتا تاہم مزتاغ عطا میں آپ کار کے ذریعے بیس کیمپ پہنچ سکتے ہیں، یہاں بہت خوبصورتی ہے دھوپ بہت اچھی ہے اور میں جس سے بھی ملا بہت اس کا اندازدوستانہ تھا۔کوہ پیمائی کے علاوہ مختلف شہروں میں مختلف ثقافتوں کا تجربہ کرنے کے لئے داوا نے گزشتہ برس موسم سرما میں اپنی چند چھیٹوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اہلخانہ کے ساتھ چین کا دورہ کیا تھا۔داوا نے کہا کہ چین ہمیشہ سے ان کے لئے پرکشش رہا ہے ۔ گزشتہ برس ہم نے شنگھائی اور چھنگ دو کا سفر کیا جہاں تیز رفتار ٹرینوں سے لطف اندوز ہوئے آخر کار وہ پانڈا دیکھا جسے ہم دیکھنا چاہتے تھے۔حالیہ برسوں میں بہت سے چینی نوجوانوں نے شہروں کو چھوڑ کر پہاڑوں پر بسیرا کیا ،اور وہ ٹک ٹاک جیسے مختصر ویڈیو پلیٹ فارمز پر اپنی کامیابیوں اور خوشیوں کو شوق سے بانٹ رہے ہیں جس سے کوہ پیمائی کی مقبولیت بڑھی ہے۔انہوں نے کہا کہ آج کے نوجوان ہمیشہ کمپیوٹر اور فون میں مصروف رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ پریشان ہیں جبکہ باہر جانے سے تازگی محسوس ہوتی ہے اور جب وہ کام پر واپس آئیں گے تو انہیں زیادہ توانائی ملے گی۔ کوہ پیمائی کی مشکلات پر قابو پانے کے بعد وہ بہتر طور پر سمجھ سکیں گے کہ زندگی سے کیسے لطف اندوز ہوتے ہیں۔کوہ پیمائی موسم ابھی باقی ہے تاہم داوا پہلے ہی اگلے سال چین واپس آنے کا سوچ رہے ہیں۔نیپالی شہری نے کہا کہ وہ چینی لوگوں کو کوہ پیمائی کی مہارت سکھانا چاہتے ہیں اور انہیں خود کو بہتر بناتے ہوئے خواب پورا کرنے کے قابل بنانے کے خواہشمند ہیں۔