لاہور(نمائندہ خصوصی ):وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات، قومی ورثہ و ثقافت عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ آج جس کے پاس موبائل ہے وہ وی لاگر اور یوٹیوبر بن جاتا ہے ، سوشل میڈیا کے لئے قواعد و ضوابط ضروری ہیں۔ وہ جمعرات کے روز یہاں سینئر صحافی، پنجاب اسمبلی پریس گیلری کے صدر اخلاق باجوہ مرحوم کے گھر جا کر اہل خانہ سے ملاقات اور فاتحہ خوانی کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ اخلاق باجوہ کے ساتھ اچھے برے وقتوں کا ساتھ رہا ، وہ ایک فرض شناس اور دیانتدار صحافی تھے ، ایسا صحافی جو دوسروں کی مشکل میں دکھ بانٹنا جانتا تھا۔ ان کا پورا کیرئیر دیکھا جائے تو انہوں نے فرض شناسی اور انتہائی ایمانداری سے گزارا ، انہیں ہمیشہ دوسروں کی مشکل میں آگے بڑھ کر مدد کرتے دیکھا۔ وہ ہمیں بھی کوئی مشورہ دیتے تھے تو انتہائی خلوص سے دیتے تھے اور بڑی اچھی رہنمائی کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے خاندان کا ہمارے اوپر حق ہے اور ان کی دیکھ بھال کرنا ہمارے فرائض میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ صحافت کرنا آسان کام نہیں ہوتا، یہ جان جوکھوں کا کام ہے ، سخت موسم میں ڈیوٹی سر انجام دینا خلق خدا کی خدمت ہے۔انہوں نے کہا کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے اخلاق باجوہ مرحوم کے ایک بیٹے کی ملازمت کے حوالے سے اعلان کیا ہے ، ہم 25 لاکھ روپے فکس ڈیپازٹ کرا رہے ہیں اور پرسوں تک امانت ان کے حوالے کریں گے تاکہ بچوں کی پڑھائی اور دیگر معاملات میں کوئی تعطل نہ آئے ۔ انہوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں ایک کمیٹی تشکیل دی جائے ، ہم کوئی پروگرام شروع کریں جو حکومت کا پروگرام بھی ہو سکتا ہے اسے اخلاق باجوہ کے نام سے منسوب کریں ،پریس کلب کے اندر کوئی حال ، کسی سرکاری عمارت کو بھی اخلاق باجوہ کے نام سے منسوب کیا جا سکتا ہے تاکہ ان کی یاد زندہ رہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت نے ہیلتھ انشورنس کا پروگرام شروع کیا ہے ، ہم نے مختلف اداروں کے اشتہارات کی مد میں 1.6 ارب کے واجبات ادا کئے ۔ ہم نے کہا ہے جتنے بھی واجبات ہیں وہ ادا کئے جائیں گے ، ہم نے اداروں سے کہا ہے وہ اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کریں ۔میں جب بھی مالکان یا سینئر مینجمنٹ سے ملتا ہوں میں صرف یہی کہتا ہوں اپنے ورکرز کی تنخواہیں ادا کریں۔ انہوں نے اخبارات پر ٹیکس نہیں لگنے دئیے ، اگر وہ ٹیکس لگ جاتے تو اخبارات سے ہزاروں لوگ بیروزگار ہو جاتے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا ورکرز کا استحصال نہیں ہونا چاہیے بلکہ ادارے ویلفیئر کے لئے کام کریں ۔ہم نے ہیلتھ انشورنس شروع کی ہے اور پہلے مرحلے میں 10ہزار صحافی مستفید ہوں گے ، انشورنس کے پریمیم کی ادائیگی کر چکے ہیں۔لاہور پریس کلب کی گرانٹ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ صوبائی وزیر اطلاعات عظمی بخاری سے بات کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم تو چاہتے ہیں لائف انشورنس بھی ہو ، حکومت تیار ہے ،ادارے آئیں اور اس میں اپنا حصہ ڈالیں تاکہ اس طرح کا کوئی واقعہ ہو تو کسی کی کفالت کے لئے اعلان نہ کرنا پڑے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آج جس کے پاس موبائل ہے وہ وی لاگر اور یوٹیوبر بن جاتا ہے ، سوشل میڈیا کے لئے قواعد و ضوابط ہونے چاہئیں ، جب بھی اس کے لئے کوئی اقدام ہوتا ہے تو یہ کہا جاتا ہے کہ آزادی اظہار رائے پر قدغن لگنے لگی ہے، اس کے لئے کوئی نہ کوئی ایسی باڈی بنانی پڑے گی تاکہ انہیں ایڈیٹوریل کنٹرول کے اندر لایا جائے۔