کرآچی (رپورٹ: مرزاافتخار بیگ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی فائن آرٹ کمیٹی کی جانب سے معروف مصور مشکور رضا کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے تقریب کا انعقاد حسینہ معین ہال میں کیا گیا۔ تقریب میں صدر آرٹس محمد احمد شاہ ، چیئر مین فائن آرٹ کمیٹی فرخ شہاب، منصور عالم، مجید عزیز، شیریں مقصود ، توقیر احمد مہاجر ، معروف مصور شاہد رسام ، مہتاب علی ، سلمان علوی، غالب باقر، شہناز احد، ندیم الحسن، اے ایس رند اور ذوالفقار علی شاہ سمیت فن مصوری سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیات نے شرکت کی۔ تقریب سے صدرِ آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مشکور رضا کو ستارہ امتیاز ملنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں،مشکور رضا کا آرٹس کونسل سے بہت پرانا رشتہ ہے،آرٹس کونسل میں آج بھی مشکور رضا کی چالیس سال پرانی پینٹنگ لگی ہوئی ہے۔ انہوں صرف گھوڑے نہیں بلکہ بہت کچھ پینٹ کیا ہے ، مشکور نے سارے کام کر کے دکھائے۔40 سال پہلے پیسوں کا مصوری سے کوئی واسطہ نہیں تھا، اس وقت کے آرٹسٹ پیسوں کے لیے مصوری نہیں کرتے تھے، انڈیا اور بنگلہ دیش، چائنہ سمیت دنیا بھر کے ممالک نے ہمارا آرٹ خریدا۔ کیا ایک مصور کو حق نہیں ہے کہ وہ اچھے گھر میں رہے۔ مشکور رضا نے فیصلہ کیا کہ اچھا گھر بھی کرنا ہے اور بچوں کو اچھی زندگی بھی دینی ہے۔ آرٹس کونسل نے یہ سلسلہ شروع کیا کہ جتنے بڑے لوگ ہیں ان کو ٹریبیوٹ پیش کیا جائے۔ مشکور رضا کی پینٹنگ ہر جگہ پائی جاتی ہے، ان کی مقبولیت بہت زیادہ ہے۔ معروف مصور شاہد رسام نے کہا کہ یہ بہت قابل ستائش سلسلہ ہے۔آرٹس کونسل نے فنکاروں کی ان کی زندگی میں ہی پذیرائی کر نے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔جو بہت آگے تک رہے گا۔مشکور رضا نے جنون کی حد تک کام کیا۔آرٹ خریدنے کے ساتھ ساتھ مشکور رضا کو گھر خریدنے کا بھی شوق ہے۔مشکور رضا نے اس سفر کو طے کر نے کے لیے بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے، منصور عالم نے کہا کہ اس سے پہلے ہم نے زندہ لوگوں کے لیے پروگرام ہوتے ہوئے نہیں دیکھے ، ایسا صرف آرٹس کونسل میں ہوتا ہے یہ روایت آرٹس کونسل کی ہے،مشکور رضا کا کام کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ پاکستان میں بہت کم آرٹسٹ ہیں جن کے کام کو پذیرائی ملی ہو۔ مشکور رضا نے اپنے کام میں معیار اور مقدار دونوں کو برابر درجہ دیا انہوں نے ٹیکسٹائل ڈیزائننگ کے ساتھ ساتھ پینٹنگ کو زندگی میں شامل کیا۔ معروف بزنس مین مجید عزیز نے کہا کہ دنیا کے لوگ مشکور رضا کے کام کو پسند کرتے ہیں، میرے گھر میں ان کی پینٹنگ کے علاوہ کوئی اور پینٹنگ نہیں۔مشکور رضا خداداد صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ شیریں مقصود نے کہا کہ ہم کہیں بھی چلے جائیں وہاں مشکور بھائی نظر آتے ہیں، چاہے وہ اسکول ہو، اسپتال ہو، یا کوئی اور جگہ ۔انہوں نے دن رات بہت محنت کی ہے۔توقیر احمد مہاجر نے کہاکہ مشکور رضا کا کام دیکھ کر مجھے آرٹسٹ بننے کا شوق پیدا ہوا، وہ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ انڈین گھروں میں بھی پائے جاتے ہیں۔یہ بہت خوشی کہ بات ہے کہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی مشکور رضا کے کام کو سیلیبرٹ کر رہا ہے۔ ذوالفقار علی شاہ نے کہا کہ مشکور رضا نے رنگوں سے شناسائی سیکھائی۔ مشکور رضا کو معلوم ہے کہ کس طرح رنگوں کو پینٹنگ میں ڈھالنا ہے۔ا حمد شاہ آرٹ اور کلچر کے فروغ کے لیے بہت کام کر رہے ہیں۔ شہناز احد نے کہا کہ میں نے مشکور کو گہرے کلرز سے پینٹنگ بناتے دیکھا ہے جس میں سفید کلر بھی الگ سے نمایاں ہوتا تھا، مشکور کا پینٹنگ بنانے کا طریقہ ہر چار پانچ سال بعد بدلتا رہتا ہے، گھوڑے بنانے پر آئے تو نقطے برابر گھوڑے سے لے کر بہت بڑے بڑے گھوڑے بنا دیے۔ ندیم الحسن نے کہا ان کے بولڈ اسٹروک تصویروں کو بولنے پر مجبور کر دیتے ہے۔ غالب باقر نے کہا کہ مشکور اور میں نے ایک ہی اسکول سے پڑھا ، پاکستان میں مشکور سے زیادہ پینٹنگز کسی نے نہیں بنائیں۔ تقریب کے اختتام پر چیئر مین فائن آرٹ کمیٹی فرخ شہاب نے تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا۔ جبکہ صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے مشکور رضا کو آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے شیلڈ اور پھول پیش کیے۔