کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ) بلدیہ عظمی کراچی میں منصوبہ بندی کے ساتھ ملازمین کے حقوق غضب کرنے کا سلسلہ جاری ہے، ریٹائرڈ ہونے والے 23 ہزار ملازمین کی پنشن اور واجبات کی مد میں اب یہ 12 ارب روپے سے تجاوز کر گئی ہے۔ کئی درجن ملازمین اپنے واجبات ملنے کے انتظار میں دنیا سے چل بسے ہیں اور ان کے ورثاء دفاتر کے چکر لگانے پر مجبور ہیں۔ 2016ء سے ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین واجبات اور پینشن میں اضافہ کی رقم سے بھی محروم ہیں۔ اس ضمن میں صوبائی حکومت نے دو سال قبل دو ارب 76 کروڑ روپے مالی امداد کا اعلان کیا تھا جسے صوبائی کابینہ کی سب کمیٹی کے صوبائی وزراء سید ناصر حسیں شاہ، سعید غنی اور امتیاز شیخ نے منظورکیا تھا وہ مالی امداد بھی تاحال نہ مل سکی جبکہ صوبائی کابینہ نے ایلڈ روڈ شاہین کمپلیکس کے نزدیک پانچ ہزار گز یعنی ایک ایکٹر سے زائد زمین کراچی الیکڑ ک کو الاٹ کر دی ہے جس سے تقربیا دو ارب 76 کروڑ روپے کی آمدنی کی توقع ہے۔ یہ فنڈز بلدیہ عظمی کراچی کے ملازمین کے واجبات کی ادائیگی پر خرچ کیا جائے گا۔ اسے ریٹائر ہونے والوں کو دینے کی منظوری دے دی گئی ہے۔ یہ قرضہ جات مالی سال 2023-24 کے دوران ادا کیا جائے گا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ K-الیکٹرک کو 5000 مربع گز سے زیادہ کی زمین شاہین کمپلیکس ریملی ایلینڈر روڈ پر دینے کی منظوری دے دی ہے۔ زمین کی اصل مالیت 15 ارب روپے سے زائد بتائی جاتی ہے لیکن اسے صرف دو ارب 76 کروڑ روپے میں الاٹ کرنے کی منظور دی گئی ہے جس سے کک بیک کے خدشات ابھر رہے ہیں۔اس سلسلے میں آنے والے مالی وسائل کو پنشن کے اخراجات کے لیے پورا کیا جائے گا۔ بلدیہ عظمی کراچی کو مزید 1.1 بلین روپے کے اضافی فنڈز کی صوبائی حکومت کو دی جانے والی درخواست پر غور کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق بلدیہ عظمی کراچی اور دیگر بلدیاتی اداروں کے ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات 11 ارب 78 کروڑ 37لاکھ 80 ہزار روپے پر پہنچ گئے ہیں۔ 2016-17 سے 2023-24 تک ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین اب تک واجبات سے محروم ہیں جن میں 3361 بلدیہ عظمی کراچی کے ملازمین کے تین ارب 44 کروڑ 49 لاکھ روپے، 1392 سینٹرل کے ملازمین کے ایک ارب 46 کروڑ 76 لاکھ روپے، 929 ایسٹ کے ملازمین کے 88 کروڑ 41 لاکھ روپے، 687 ملازمین ویسٹ اور کیماڑی کے 69 کروڑ 19لاکھ روپے، 1332ملازمین ساوتھ کے ایک ارب 33 کروڑ 18 لاکھ روپے، 724 ملازمین کورنگی کے 83 کروڑ 82 لاکھ روپے، 285 ملازمین ملیر کے 34 کروڑ 25 لاکھ روپے، 137ضلع کونسل کراچی کے 11 کروڑ 25 لاکھ روپے، 152ملامین ایس سی یو جی پنشن کے 19 کروڑ 91 لاکھ روپے، 18ملازمین کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کے 68 لاکھ روپے، 38 ملازمین کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے ایک کروڑ 90 لاکھ روپے کے واجبات موجود ہیں۔ واجبات کے ساتھ پنشن کی مد میں مجموعی طور پر نو ارب 34 کروڑ روپے تک پہنچ چکے ہیں جبکہ پنشن میں 2019-20 میں ایک ارب 58 کروڑ 40 لاکھ روپے، سال 2020-21 میں 66 کروڑ روپے، سال 2022-23 کی 11کروڑ روپے، سال 2023-24 کی 8 کروڑ 90 لاکھ روپے کے واجبات تک پہنچ چکے ہیں۔ بلدیہ عظمی کراچی اپنے پنشنرز کو 60 کروڑ روپے میں سے صرف 23 کروڑ روپے کی ادائیگی کررہے ہیں۔ تین سالوں کے دوران مزید ملازمین بڑی تعداد میں ریٹائرڈ ہوجائیں گے۔ بڑی تعداد میں ریٹائرڈ ہونے والے پنشنرز عدالت سے رجوع کرچکے ہیں۔ فنانس ڈپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ 80 آئینی کیس کے ملازمین کو اب تک 42 کروڑ 10 لاکھ روپے کی ادائیگی کرچکے ہیں۔ میئر کراچی مرتضی وہاب نے کئی بار ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات جلد دینے کا اعلان کئی بار کیا اور سندھ حکومت سے مالی امداد کا وعدہ کیا تھا تاہم اس معاملے میں ان کی سنجیدگی نظر نہیں آرہی کیونکہ وہ سندھ حکومت کے ترجمان بھی ہیں اس کے باوجود اب تک وہ صوبائی حکومت سے دھیلہ بھی حاصل نہیں کر سکے۔ ریٹائرڈ ملازمین اور مختلف تنظمیوں کی یونینوں کا بھی احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ متعدد مرتبہ میئر کراچی نے یقین دہانی کرائی تھی لیکن ان پر عمل نہ ہوسکا۔ اس بارے میں ریٹائرڈ ملازمین کی ایکشن کمیٹی کے کنوینر ڈاکٹر سعید اختر کا کہنا ہے کہ ملازمین گذشتہ 8 سالوں سے دھکے کھا رہے ہیں، دربدر پھر رہے ہیں،اپنے حق کیلئے آواز بلند کررہے ہیں لیکن مظلوموں کی فریاد کوئی نہیں سن رہا ہے۔ مرتضی وہاب میئر کراچی اور حکومت سندھ کے غیر سرکاری ترجمان بھی لگتا ہے صرف کٹ پتلی ہیں۔ صوبائی حکومت کراچی کے بلدیاتی اداروں کے ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات کی ادائیگی کرنے میں سنجیدگی نظر نہیں آرہی ہے،حالانکہ کراچی پاکستان اور خصوصا” سندھ حکومت کو پال رہا ہے۔ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات کے ساتھ گذشتہ پانچ سالوں سے حکومت کے اعلانات اور حکمنامے کے اجراء کے باوجود پنشنرز کے اضافی رقم کی ادائیگی بھی نہیں کی جارہی ہے۔ اس بارے میں میئر کراچی کا کہنا ہے کہ فنڈز کی کمی کے باعث پنشنرز کی اضافی رقم ادا کرنے سے قاصر ہیں تاہم ریٹائرڈ ملازمین کا کہنا ہے کہ ہمارے فنڈ ادا نہیں کیئے جارہے لیکن اپنے شاہانہ اخراجات میں کمی نہیں کی جارہی ہے بلکہ ہر سال اس میں اضافہ ہی کیا جا رہا ہے اور ہمیں مجبور کیا جارہا ہے کہ ہم بھوک اور افلاس سے مرجائیں۔ میئر کراچی اور ان کے سہولت کار ہمیں اجتماعی بھوک ہڑتال اور اجتماعی خود کشی کا سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ کے ایم سی سجن یونین کے سربراہ ذولفقار شاہ کا کہنا ہے سندھ حکومت عدالتی فیصلے پر بھی عملدرآمد نہیں کر رہی اور نہ ہی اپنے اعلانات کا پاس رکھ رہی ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے بلدیاتی ادارے KMC کے ملازمین کو حکومت سندھ کی تنگ نظری اور تعصب کے باعث ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین کی زندگی تنگ کر دی گئی ہے، اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ہم راست اقدام اٹھانے پر مجبور ہو جائیں گے۔