اسلام آباد۔(نمائندہ خصوصی )وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات، قومی ورثہ و ثقافت عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ پنجاب ہتک عزت قانون 2024 صوبائی معاملہ ہے، پنجاب کا حق ہے کہ وہ اپنا قانون منظور کرے، ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی کے حوالے سے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے لئے کابینہ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ یہ بات انہوں نے منگل کو یہاں ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ کمیٹی کا اجلاس سینیٹر سید علی ظفر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں پرائیویٹ ممبر ”دی پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز (ترمیمی) بل 2022“ پر غور ہوا۔وفاقی وزیر اطلاعات نے کمیٹی کو بتایا کہ صحافیوں کے تحفظ کے بل کو حتمی شکل دینے اور پارلیمنٹ سے منظوری کے لئے کوششیں تیز کرنے کے لئے وزارت انسانی حقوق کو خط لکھ دیا ہے، جرنلسٹس پروٹیکشن کمیشن وزارت انسانی حقوق کے تحت کام کر رہا ہے، کمیشن کو اپنی وزارت کے تحت لانے کے لئے تیار ہیں، اس مقصد کے لئے ہمارے پاس پہلے ہی کافی فنڈز موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بل میں منیجرز اور سپروائزر نوعیت کی ملازمتیں نان جرنلسٹس کیٹیگری میں شمار ہوتی ہیں،
یہ کیٹیگری بالکل الگ ہے، ان دونوں چیزوں کو ملا کر قانون کے اندر پڑھا جاتا ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ گزشتہ حکومت کے دوران جب پارلیمنٹ تحلیل ہوئی تو یہ بل بھی زیر التواءتھا، وزارت انسانی حقوق کو خط لکھ دیا ہے کہ اسے فی الفور حتمی شکل دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ کمیشن کے چیئرپرسن کی تقرری کے لئے جو بھی طریقہ کار ہے اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہیں، یہ دو وزارتوں کے درمیان معاملہ ہے جس کی وجہ سے اس پر عمل درآمد میں تاخیر ہوئی۔ انہوں نے کمیٹی سے گذارش کی کہ اس بل کے حوالے سے ٹائم لائن کا تعین کیا جائے جس پر قائمہ کمیٹی نے وفاقی وزیر اطلاعات کی اس تجویز کی تائید کی۔ قبل ”دی پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز (ترمیمی) بل 2022“ کے محرک سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ بل کا مقصد صحافیوں، ان کے خاندانوں اور ان کی جائیدادوں کا تحفظ ہے، بل میں صحافیوں کو تشدد اور دیگر سانحات میں فوری ریلیف فراہم کرنے کے لئے کمیشن قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔پی ایف یو جے کے اراکین نے کمیٹی کو بتایا کہ مختلف قوانین میں ”صحافیوں“ کی تعریف مختلف ہے اور اسے تمام قوانین میں یکساں کیا جانا چاہئے۔ بل میں صحافیوں کے ذرائع کی حفاظت کے لئے بھی شقیں شامل ہیں۔ کمیٹی نے تفصیلی بحث کے بعد مزید غور و خوض کے لئے بل آئندہ اجلاس تک موخر کر دیا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پنجاب ہتک عزت قانون 2024 بھی زیر بحث آیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کمیٹی کو بتایا کہ جن کے پاس وسائل ہوتے ہیں وہ بیرون ملک جا کر ہتک عزت کا دعویٰ کرلیتے ہیں اور اس پر فیصلہ بھی ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں یہاں چینی کمپنیوں پر کک بیکس کے الزامات لگے، اس حوالے سے ایک مقدمہ چھ سال سے چل رہا ہے جو ابھی تک ابتدائی مرحلے سے آگے نہیں بڑھ سکا، یہ حقائق اپنی جگہ موجود ہیں۔انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت نے ایک قانون پاس کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کا اطلاق پنجاب میں ہوگا۔ اس قانون کو یہاں زیر بحث نہیں لایا جا سکتا، اس طرح کوئی بھی فورم دوسرے کے کام میں مداخلت کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کا حق ہے کہ وہ اپنا قانون منظور کرے، آئین و قانون کے تحت ہم پنجاب کے قانون کو یہاں زیر بحث نہیں لا سکتے۔ انہوں نے کہا کہ آپ وفاق کے حوالے سے بات کریں، اس پر ہم پوری ذمہ داری سے بات کرنے کو تیار ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی کے حوالے سے بل آیا جسے سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے لئے موخر کر دیا گیا، اس حوالے سے کابینہ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرے گی۔انہوں نے کہا کہ ”ایکس“ پلیٹ فارم پر ہر قسم کا مواد موجود ہے، ڈیجیٹل ڈومین کے اندر کرائم ہو رہے ہیں اور لوگوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں، اگر کسی پوسٹ کی وجہ سے کسی کو کوئی نقصان پہنچے تو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ پنجاب ہتک عزت قانون پر بحث کے دوران کمیٹی کے رکن سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ صوبائی حکومتوں کی جانب سے منظور کردہ قوانین پر نظرثانی کا حق نہیں کیونکہ 18 ویں ترمیم کے بعد یہ معاملہ صوبائی حکومتوں کے دائرہ کار میں آتا ہے۔سینیٹر سید علی ظفر نے کہا کہ اس ایجنڈے کا بنیادی مقصد دنیا بھر میں رائج ہتک عزت قوانین کا تقابلی جائزہ لینا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ قانون کا مقصد بنیادی حقوق اور آزادیوں میں توازن قائم کرنا ہونا چاہئے نہ کہ ایک کو دوسرے کی قیمت پر کمزور کرنا چاہئے۔ کمیٹی نے معاشرے اور اظہار رائے کی آزادی پر ہتک عزت قوانین کے اثرات پر بحث کے لئے خصوصی اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اجلاس میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ کے علاوہ سینیٹر عرفان الحق صدیقی، سینیٹر پرویز رشید، سینیٹر سرمد علی، سینیٹر عون عباس، سینیٹر محمد طلال بدر، سینیٹر عبدالشکور خان، سینیٹر جان محمد، سینیٹر اشرف علی جتوئی، سینیٹر سلیم مانڈوی والا، سینیٹر زرقا سہروردی تیمور، سینیٹر منظور احمد کاکڑ نے شرکت کی۔ سیکریٹری وزارت اطلاعات و نشریات عنبرین جان، پرنسپل انفارمیشن آفیسر مبشر حسن اور مختلف محکموں کے دیگر سینئر افسران بھی اس موقع پر موجود تھے۔