تحریر :آغا سلمان باقر
اور ہمارے پیارے دوست ، ہم سب کے گم شدہ دوست ، حسن سدپارہ شگری کی گم شدہ لاش ڈیڑھ برس بعد ، کے ٹو K2 کی بلندی سے ذرا پہلے ” بُوٹل نِک ” کی برفوں میں دفن شدہ مل گئی ۔
یاد ہے جب گزشتہ برس کی سردیوں میں حسن سدپارہ نے K2 سر کیا اور بوٹل نک کے قریب کہیں اس کا پاؤں پھسلا ، رسا ٹوٹ گیا ، سانس اکھڑ گیا یا شاید برفانی تودہ پاؤں کے نیچے ٹوٹ گیا ۔۔۔ حسن سدپارہ ، گرا اور پھر ہزار تلاش کے باوجود نہ زندہ ملا ، نہ جسدِ خاکی اُس کا ملا ۔ بہت ڈھونڈا ، یقیناً وہ بُوٹل نیک کی نرم برفوں میں جا کر تھکا ہارا سو گیا ٫ پھر اُٹھ نہ سکا ، نہ ملنے کے لئے ، کہیں گُم ہو گیا ۔۔۔ !
حسن سدپارہ کے ساتھ کیا ہوا تھا ۔۔۔ ؟
وہی ہوا جو بدقسمت ” کوہ نوردوں ” کے ساتھ ہوا کرتا ہے ، جب پہاڑ اور پہاڑوں پر رہنے والی حسین و جمیل پریاں ، ان پر عاشق ہو جاتی ہیں تو وہ بد نیت پریاں ان کی روحوں کو اپنے پاس رکھ کے ان کے بدن نرم برفوں میں دبا دیا کرتی ہیں ۔۔۔
حسن سدپارہ شگری اکثر یہی کہانی راتوں میں کہانی بنا کر اپنے دوستوں کو سنایا کرتا تھا ۔۔۔
میں نے از راہ تفنن طبع پوچھا ۔۔۔
حسن سدپارہ بھائی ۔۔۔ اونچے پہاڑوں کی پریوں سے بچ کے رہنا ۔۔۔ یہ جس کوہ نورد پر عاشق ہو جاتی ہیں ،
ان کو اغواء کر کے ان کے ساتھ دادِ عیش لیتی ہیں ۔ پھر ان کا خون پی کر نئے شکار کی تلاش میں نکل جاتی ہیں ۔ تم یارا ، ان منحوس پریوں کے دامِ عشق میں مت پھنسنا ۔۔۔ !
حسن سدپارہ نے میرا سوال سن کر ایک زور دار قہقہہ لگایا ۔۔۔
آغا یارم ۔۔۔۔ میں اتنا باؤلا بھی نہیں کہ خون جما دینے والی برفوں میں اُن کوہ کاف کی پریوں سے عشق لڑاؤں ۔۔۔ پھر یکدم سنجیدہ ہو کر ، خواب ناک آواز میں بولا ۔۔۔
جس دن اونچے پہاڑوں کی برفیلی چوٹی پر کوئی پری ، حسن سدپارہ پر عاشق ہو کر مَر مٹی تو اس زمین پر واپسی پیدل ، اپنے پاوؤں پر نہیں ہوگی ۔۔۔ پھر جب کبھی میں ملوں گا ، اور اگر ملا تو ، اپنے قدموں پر نہیں ، رسیوں میں جکڑ اور باندھ کر ، خوب کھینچ کھانچ کر اپنی زمین میں دفن ہونے کے لئے لایا جاؤں گا ۔۔۔ باقی اللّٰہ مالک ہے
یہ کہہ کر حسن سدپارہ خاموش ہو گیا ۔
ہم سب بھی خاموش ہو گئے ۔
جلتی ہوئی آگ کا الاؤ روشن چھوڑ کر اپنے اپنے گھر چل دیئے ۔ ہم سب کو شاید حسن سدپارہ کی یہ ادا اور بات اچھی نہیں لگی تھی ۔
پھر گزشتہ سے پیوستہ سال کی سردیاں آئیں ۔ معلوم ہوا کہ حسن سدپارہ ایک ٹیم کے ساتھ سردیوں میں کے ٹو سر کرنے کو چل پڑا ۔ کے ٹو سر ہوگیا ۔ واپسی کا سفر شروع ہوا ۔ ایسے قاتل پہاڑوں سے سنا ہے کہ نیچے اترنا ، چڑھائی کی نسبت آسان ہوتا ہے ۔ مگر وہ جونہی ذرا نیچے اترا ، تو ایک مقام آتا ہے ، جس کو کوہ نوردوں کی زبان میں ” بُوٹل نِک ” کہتے ہیں ۔ ایک تنگ اور جان لیوا راستہ ۔۔۔ کہتے ہیں ، راستے کے اس حصے سے گذرتے ہوۓ ، چاہے چڑھائی ہو یا اُترائی ، ایک دفعہ تو کوہ نورد کی جان پر بن جاتی ہے ۔ سانس آکسیجن کی کمی سے اتھل پتھل ہو جاتا ہے ۔ بعض کوہ نوردوں کو خون کی قے بھی ، پھپھڑا پھٹ جانے کے سبب ہونے لگتی ہے ۔ غرض حالت خراب سے بھی خراب ہو جانے لگتی ہے ۔ اس لئے اس حصے کو کوہ نورد آہستہ آہستہ چل کے طے کرتے ہیں ۔ ایک دوسرے کے قریب قریب رہتے ہیں ۔ ایک دوسرے پر کڑی نظر رکھتے ہیں ۔
حسن سدپارہ نے نیا ورلڈ ریکارڈ بنانے کا ارادہ کر رکھا تھا ۔۔۔ وہ یہ کہ وہ سردیوں میں بغیر آکسیجن سلنڈر کے ، کے ٹو کو سر کرے گا ۔ اس نے کے ٹو سر کر لیا ، واپس آ رہا تھا ۔ پتہ نہیں کیا ہوا ۔ ساتھی کوہ نوردوں نے اسے گرتے دیکھا ۔ کچھ پتہ نہ چلا کہ رسی ٹوٹی ، رسی سے ہک نکل گیا ، برف میں گڑا کیل پھسل کے نکل گیا ۔ اللہ جانے کوئی پری حسن سدپارہ پر عاشق ہو گئی ، کسی رقیب دیو ناتھ نے دھکا دے دیا ۔ کیا ہوا ۔۔۔ کچھ نہ پتہ چلا ۔۔۔
بس برف کا چھپکا اڑا ۔۔۔ برفانی ہوا تیز ہوئی ، موسم جو پہلے ہی خراب تھا ، اور خراب ہوا ۔ حسن سدپارہ نظروں سے پلک جھپکتے میں اوجھل ہوا ، برف باری اور تیز ہو گئی ۔ ہواؤں کی رفتار تیز تر ہو گئی ۔ صرف اور صرف شوں شوں ، شاں شاں کی آوازیں سنائی دیتی تھیں ۔ نا گرنے کا پتہ چلا اور نا ہی پیارے حسن سدپارہ کے رنگین لباس کی کوئی جھلک ملی ۔ برف کے تازہ طوفان نے سفید ماحول کو سیاہی مائل گہرا سُرمئی کر دیا ۔ کسی کو نہ کچھ دکھائی دیتا تھا اور نہ سُجھائی دیتا تھا ۔ ٹارچوں کی روشنی مدہم سے بھی مدہم ہو گئی ۔۔۔
حسن سدپارہ شگری کو کسی پری کی عاشقانہ نظر کھا چکی تھی ۔۔۔ !
حسن سدپارہ کی لاش ابھی جولائی 2024 ء کو اس کے گھر کے دو جوانوں علی سدپارہ اور موسیٰ سدپارہ نے تلاش کی اور مل گئی ۔
بتایا گیا ، وہ چِت ساکت پڑا تھا ۔۔۔ پتھر سا ۔۔۔ برف سے منجمد ڈلا سا ۔۔۔ چہرہ پہلے نظر آیا ۔۔۔ ایسا لگتا تھا ، گہری ، پُرسکون نیند سویا پڑا ہے ۔ چہرے پر کوئی کرب اور دکھ یا اذیت کے آثار دیکھنے کو نہیں ملے ۔۔ عجیب آدمی تھا وہ حسن سدپارہ ۔۔۔ خدا اپنے اور محمد و آل محمد کے جوار رحمت میں اسے اونچا مقام عطاء فرمائے ۔
چوبیس گھنٹے لگے ، حسن سدپارہ کے جسدِ خاکی سے کے ٹو کی جمی ہوئی برف ہٹانے میں ۔ دونوں نوجوانوں ، جن میں ایک حسن سدپارہ کا بھتیجا اور دوسرا حسن سدپارہ کا بھائی تھا ۔۔۔ دونوں کسی وقفے کے بغیر حسن سدپارہ کو برف سے نکالنے میں جُتے رہے ۔۔۔ چوبیس گھنٹے کی مشقت کے بعد وہ حسن سدپارہ کے جسدِ خاکی کو برف کی قبر اور مدفن گاہ سے نکالنے میں کامیاب ہوۓ ۔ رسوں سے باندھا ۔۔۔ اور آرام آرام سے اس کی ڈیڈ باڈی کو ، اپنی جانیں خطرے میں غیر معمولی خطرناک ناواقف راستے سے نیچے اتارتے لاۓ ۔۔۔ اتنے میں کے ٹو سر کر کے آنے والی ٹیم کے چند کوہ نورد موقع پر پہنچ گئے ۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ یہ ڈیڈ باڈی دنیا کے مشہور ترین کوہ نورد حسن سدپارہ کی ہے تو وہ دل پکڑ کر بیٹھ گئے ۔ جب ہوش بحال ہوۓ تو بیس کیمپ تک سگے بھائیوں کی طرح مدد کرتے آۓ ۔۔۔
شکر ہے حسن سدپارہ کا جسد خاکی مل گیا ۔۔۔ اللہ پاک اسے اپنے خاص جوارِ رحمت میں جگہ اور سکون عطاء فرمائے ۔۔۔۔ آمین ثم آمین