اسلام آباد۔(نمائندہ خصوصی ):انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی ) نے ”جموں و کشمیر میں بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدام کے پانچ سال“ کے عنوان سے پیر کو ایک سیمینار کا انعقاد کیا۔ مقررین میں ڈائریکٹر جنرل آئی ایس ایس آئی سفیر سہیل محمود، چیئرمین آئی ایس ایس آئی سفیر خالد محمود، ترجمان و ایڈیشنل سیکرٹری خارجہ پاکستان سفیر ممتاز زہرہ بلوچ، ایران میں سابق پاکستانی سفیر رفعت مسعود، ایگزیکٹو ڈائریکٹر سی آئی ایس ایس آزاد جموں کشمیر ڈاکٹر عاصمہ شاکر خواجہ، چیئرمین کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز الطاف حسین وانی اور آل پارٹیز حریت کانفرنس کے مرکزی رہنما محمود احمد ساغر شامل تھے۔انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز کے انڈیا سٹڈی سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خرم عباس نے نے اپنے تعارفی کلمات میں کہا کہ بھارت نے 5 سال قبل نہ صرف یکطرفہ طور پر جموں و کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کیا بلکہ اب وہ مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کرکے ریاست کی آبادی کا ڈھانچہ بھی تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام کی قربانیوں اور پاکستان کی سفارتی کوششوں نے مسئلہ کشمیر کو پوری طرح زندہ رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایس ایس آئی کا انڈیا سٹڈی سینٹر مسئلہ کشمیر کی مختلف جہتوں پر کام کرنے والے طلبائ، محققین اور اہل علم کی سہولت کے لیے کشمیر ریسورس سینٹر قائم کرے گا۔ڈائریکٹر جنرل آئی ایس ایس آئی سفیر سہیل محمود نے کہا کہ آج کا دن 5 اگست 2019 کے بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کے بعد سے بھارت، پاکستان، کشمیریوں اور عالمی برادری کے کردار کا جائزہ لینے کا مناسب ترین موقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت جموں و کشمیر میں قابض افواج کی موجودگی دنیا کے دیگر کسی بھی خطے سے زیادہ ہے، بی جے پی حکومت نے دنیا کو یہ فریب دیا ہے کہ وادی کشمیر میں زندگی اور ترقی کا سفر معمول کی جانب لوٹ رہا ہے۔ سفیر سہیل محمود نے کہا کہ بھارت کی ریاستی دہشت گردی مقبوضہ جموں و کشمیر سے آگے بڑھ چکی ہے۔بھارت کے ریاستی ایجنٹ پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر میں ماورائے عدالت قتل میں ملوث پائے گئے ہیں۔ سہیل محمود نے اس امر پر اہلِ کشمیر کو خراج تحسین پیش کیا کہ انہوں نے بھارت کے وحشیانہ اور غیر انسانی قبضے کے خلاف حق خودارادیت کے لیے اپنی عظیم جدوجہد کا ایک اور ناقابل فراموش باب رقم کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ طویل کرفیو، معلومات اور خبروں تک عدم رسائی، گرفتاریوں، طاقت کے اندھا دھند استعمال، حراستی قتل و تشدد، بھاری معاشی نقصانات، نفسیاتی صدمے اور تعلیمی سرگرمیوں پر پابندی کے باوجود بھارت کشمیری عوام کے عزم کو توڑنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کشمیریوں کو انصاف فراہم کیے بغیر جنوبی ایشیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا،اس کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر ایمانداری سے عمل درآمد ناگزیر ہے۔ ڈاکٹر عاصمہ شاکر خواجہ نے جموں و کشمیر میں بھارت کے غیر قانونی اقدامات اور ان کے وادی میں انسانی حقوق کی مسلسل بگڑتی صورت حال پر اثرات پر ایک فلسفیانہ نکتہ نظر پیش کیا۔ الطاف حسین وانی نے اپنی گفتگو میں کشمیر کی آزادی کی جدوجہد میں نوجوانوں کے کردار کے ماضی و حال پر روشنی ڈالی۔انہوں نے آزاد کشمیر اور پاکستان کے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ مقبوضہ وادی کے نوجوانوں کی بہادرانہ کوششوں کو اجاگر کرنے کے لیے مسلسل کام کریں۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنما محمود ساغر نے پاکستان کے ساتھ الحاق کے لیے کشمیری قیادت اور عوام کے اٹوٹ جذبے اور عزم کا اعادہ کیا۔انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ کشمیری تنازعہ کے حل کے طور پر ایل او سی کو مستقل سرحد میں تبدیل کرنے کی کسی تجویز کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔سفیر رفعت مسعود نے سفارتی محاذ پر پاکستان کی کوششوں پر روشنی ڈالی اور اس بات پر زور دیا کہ ایک مستحکم اور خوشحال پاکستان مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے لیے زیادہ موثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کے ناقابل تنسیخ حقوق کے حصول کے لیے نوجوان نسل سمیت تمام طبقات کو سنجیدہ کام کرنا چاہیے۔مہمان خصوصی سفیر ممتاز زہرہ بلوچ نے اپنے خطاب میں کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ 5 اگست 2019 کے بھارتی اقدامات کا مقصد مقبوضہ علاقے پر بھارتی گرفت کو مزید مستحکم کرنا تھا جسے کشمیریوں نے اپنی بے مثال مزاحمت سے عملی طور پر بے اثر کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ متنازعہ علاقے میں آبادیاتی حقائق کو تبدیل کرنے کے لیے بھارت کی مہم نئی دہلی کی ہٹ دھرمی اور بین الاقوامی قانون اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کو نظر انداز کرنے کا ایک اور مظہر ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مطالبہ ہے کہ نتیجہ خیز مذاکرات اور کسی بھی تعمیری امن عمل کے لیے ضروری ہے کہ بھارت5 اگست 2019 سے پہلے اور اس سے پہلے اٹھائے گئے تمام غیر قانونی اقدامات واپس لے، علاقے میں آبادیاتی حقائق میں تبدیلی فوری طور پر بند کی جائے؛ فوجی دستوں کا انخلاء کیا جائے، سیاسی قیدی رہا کیے جائیں، مواصلاتی راستے بحال کیے جائیں، جنسی تشدد روکا جائے اور اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے انسانی حقوق، او آئی سی اور انسانی حقوق کی تمام تنظیموں کو مقبوضہ جموں و کشمیر تک فوری رسائی فراہم کی جائے۔سیمینار کا اختتام پر سفیر خالد محمود نے مسئلہ کشمیر کے تاریخی تناظر پر روشنی ڈالی اور بین الاقوامی قانون، اقوام متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کی روشنی میں اس کے قانونی پہلوئوں کا تذکرہ کیا۔