لاہور ۔(نمائندہ خصوصی ):وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات، قومی ورثہ و ثقافت عطاءاللہ تارڑ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے دو معزز جج صاحبان نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے اپنے اختلافی نوٹ میں اہم نکات اٹھائے، مخصوص نشستوں کے معاملے پر اس جماعت کو ریلیف دیا گیا جو درخواست گذار ہی نہیں تھی۔اتوار کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ سپریم کورٹ کے دو معزز جج صاحبان جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے تفصیلی اختلافی نوٹ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کیس کا تفصیلی فیصلہ 15 دن گذرنے کے باوجود نہیں آ سکا۔ انہوں نے کہا کہ عموماً فیصلہ سنائے جانے کے 15 دن کے اندر تفصیلی فیصلہ جاری ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے کچھ آرٹیکلز مخصوص نشستوں سے متعلق ہیں، مخصوص نشستوں کے حوالے سے فیصلے میں ان آرٹیکلز سے ہٹ کر فیصلہ دیا گیا ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے دو معزز جج صاحبان کے اختلافی نوٹ میں یہ بات بھی درج ہے کہ تحریک انصاف اس کیس میں فریق نہیں تھی، اسے ریلیف دینے کے لئے آئین کے آرٹیکل 175 اور 185 میں تفویض دائرہ اختیار سے باہر جانا ہوگا اور آرٹیکل 51، 63 اور 106 کو معطل کرنا ہوگا۔وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ تحریک انصاف عدلیہ کے سامنے درخواست گذار کی حیثیت سے موجود ہی نہیں تھی لیکن ان ک 81 ممبران کو ریلیف دیا گیا اور وہ لوگ جو مخصوص نشستوں پر منتخب ہو کر آئے اور حلف اٹھا چکے تھے، ان کی رکنیت ختم کر دی گئی۔ ان کی رکنیت ختم کرنے سے پہلے جو مراحل طے ہوئے، وہ قانونی طور پر اپنی جگہ موجود ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ سنی اتحاد کونسل کے ممبران اگر ایوان میں سنی اتحاد کونسل سے اٹھ کر تحریک انصاف کی صفوں میں بیٹھیں گے تو یہ آرٹیکل 62(1)F کی خلاف ورزی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے دو معزز جج صاحبان نے اپنے اختلافی نوٹ میں یہ بھی کہا کہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے بطور سیاسی جماعت عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا حتیٰ کہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے بھی آزاد حیثیت میں انتخاب لڑا۔انہوں نے کہا کہ اس پر آئین اور قانون واضح ہیں، آئین کے تحت ان سیاسی جماعتوں جو پارلیمان میں موجود ہیں، کو متناسب نمائندگی کے فارمولے کے تحت مخصوص نشستیں دی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کا پارلیمان میں وجود ہی نہیں تھا، ان کے چیئرمین نے بھی آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا اور تحریک انصاف کے سابقہ ممبران نے اس جماعت میں شمولیت اختیار کرنا مناسب سمجھا جس کا پارلیمان میں وجود ہی نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ جب ایک سیاسی جماعت کا پارلیمان میں وجود ہی نہیں تو انہیں مخصوص نشستیں کیسے مل سکتی ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کے اپنے آئین میں لکھا ہے کہ کوئی اقلیتی رکن ان کی پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کر سکتا، اس طرح انہیں اقلیتی نشستیں بھی نہیں مل سکتیں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے دو معزز جج صاحبان کے اختلافی نوٹ سے یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ اس فیصلے پر عمل درآمد کے لئے آئین کے مخصوص نشستوں سے متعلق آرٹیکلز کو معطل کرنا پڑے گا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ تحریک انصاف کو اس کیس میں بن مانگے ریلیف دیا گیا، ان لوگوں کو ریلیف دیا گیا جو ریلیف مانگنے ہی نہیں آئے۔ انہوں نے کہا کہ مخصوص نشستوں پر جو لوگ منتخب ہوئے، ان کی بھی حق تلفی ہوئی ہے، انہیں بھی سنا جانا چاہئے تھا۔مخصوص نشستوں پر ممبران کے انتخاب کے پورے طریقہ کار پر عمل ہوا، شیڈول کے تحت فہرستیں الیکشن کمیشن گئیں، انہی فہرستوں کی بنیاد پر ارکان کو شارٹ لسٹ کیا گیا، سکروٹنی ہوئی اور اس کے بعد ان کا نوٹیفیکیشن جاری ہوا اور ان ارکان نے اسمبلی میں حلف اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان کی رکنیت تو ختم کر دی گئی مگر ان باقی مرحلوں پر غور نہیں کیا گیا۔وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ عدلیہ کے فیصلے کے خلاف مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے نظرثانی کی درخواست دی ہے لیکن تاحال اسے سماعت کے لئے مقرر نہیں کیا گیا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے دو معزز جج صاحبان نے اپنے اختلافی نوٹ میں آئینی اور قانونی نکات اٹھائے ہیں، یہ نکات لیگل فریم ورک پر بڑا سوالیہ نشان ہیں، ان کا جواب آنا ضروری ہے۔