لاہور۔(نمائندہ خصوصی ):وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی پروفیسر احسن اقبال نے کہا ہے کہ ملکی برآمدات کو فروغ دے کر پاکستان کی قرضوں سے جان چھڑائی جا سکتی ہے ،اپوزیشن دھرنوں کی بجائے ملکی مسائل کے حل کیلئے تجاویز دے،ملکی ترقی اور خوشحالی کیلئے ہم سب کو اختلافات کو ختم کرنا ہو گا ،چند عناصر ملک کو ترقی کرتا دیکھنا نہیں چاہتے ۔انہوں نے ان خیالات کا اظہار ہفتہ کو یہاں ایکسپو سنٹر میں پاکستان ریڈی میڈ گارمنٹس مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام 28ویں ٹیکسٹائل ایشیا انٹرنیشنل ٹریڈ فیئر سے بطور مہمان خصوصی خطاب و میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان اس وقت شدید معاشی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے اور آئی ایم ایف کا پروگرام ان مسائل کا مستقل حل نہیں ہے۔ انہوں نے آئی ایم ایف پروگرام کو تین سال کی کڑوی گولی قرار دیا جس سے ہر صورت نکلنا ہے۔انہوں نے کہا کہ برآمدات کا فروغ حکومت کی اولین ترجیح ہے کیونکہ معیشت کی ترقی کے لیے برآمدات انتہائی ضروری ہیں، برآمدات کے فروغ سے نہ صرف پاکستانی روپیہ مضبوط ہوگا بلکہ ملک خوشحال بھی ہوگا۔ احسن اقبال نے کہا کہ ایکسپو کسی بھی ملک کی برآمدات میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ میڈ ان پاکستان مصنوعات کو دنیا بھر میں پہنچانا ہماری اولین ترجیح ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ہمیں اپنے اختلافات کو ختم کرنا ہوگا، سیاسی عدم استحکام اور پالیسیوں میں عدم تسلسل نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے، اگر پاکستان کی معیشت ڈوبے گی تو پوری قوم ڈوب جائے گی،ملکی ترقی کے لیے اتفاق و اتحاد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ کچھ عناصر ملک کو ترقی کرتا دیکھنا نہیں چاہتے، لیکن ہمیں ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اپنے اختلافات کو ختم کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ برآمد کنندگان کے ساتھ مل کر روڈ میپ تیار کر لیا گیا ہے اور میڈ ان پاکستان مصنوعات کو دنیا بھر میں پہنچانا اولین ترجیح ہے ، ان کا ہدف برآمدات کو 100 ارب ڈالر سے زیادہ کرنا ہے اور 2047تک پاکستان کو بھارت سے بہتر ثابت کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زر مبادلہ کے ذخائر بڑھیں گے تو روپیہ مستحکم ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب کو مل کر ملکی ترقی و خوشحالی کے لیے کام کرنا ہوگا اور تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر قومی معیشت کو مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔بجلی بحران کے حوالے سے ایک سوال پر وفاقی وزیر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس وقت جو بجلی کا مسئلہ درپیش ہے اسے سمجھنا ضروری ہے کہ یہ ہمیں کیوں درپیش ہے، عوام کو بیس بیس گھنٹے لوڈ شیڈنگ کا سامنا تھا اور جب ہماری حکومت آئی تو ہمارے سامنے یہ سوال تھا کہ ہم اس لوڈ شیڈنگ کو کیسے ختم کریں اس کے لیے چین نے اس مشکل گھڑی میں ہماری مدد کی جب پاکستان میں پیسہ لگانے کے لیے کوئی بھی تیار نہ تھا اور آٹھ ہزار میگا واٹ بجلی کے منصوبے چین کے اشتراک سے لگے ،تین ہزار میگا واٹ ہم نے اپنے وسائل سے لگائے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت جو بجلی کے منصوبوں کی پلاننگ تھی وہ اس بنیاد پر کی گئی تھی کہ ہم اگلے دس سالوں میں اس شعبہ میں چھ فیصد کی اوسط سے آگے بڑھیں گے ، اسی لحاظ سے ہم نے بجلی کی پلاننگ کی اور نئے منصوبے لگائے لیکن2018 میں جب حکومت تبدیل ہوئی تو ایک دم سے معیشت کریش کر گئی اور ہم چھ فیصد سے ایک فیصد پرآ گئے۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم روزانہ کی بنیاد پر اس حوالے سے اجلاس کر رہے ہیں کہ ہم کس طرح لوگوں کو بالخصوص غریب اور نچلے طبقے کو کیسے ریلیف دے سکتے ہیں۔ ایک اور سوال پر احسن اقبال نے کہا کہ یہ وقت دھرنے دینے کا نہیں ہے، اگر ان کے پاس ماہرین ہیں اور اس صورتحال کا کوئی علاج ہے تو آئیں مل بیٹھ کر مسئلے کا حل تلاش کرتے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ اس وقت ہم اگر دھرنے دیں گے، سیاسی مظاہرے کریں گے تو اس سے جو انویسٹر پاکستان کی طرف آنا چاہتا ہے وہ بھی بھاگ جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ برائے مہربانی دھرنوں کی سیاست کی بجائے آپ سلوشنز کی بات کریں ،آئیے ہم دعوت دیتے ہیں کہ اپنے ماہرین کو بھیجیں ہمارے ماہرین کے ساتھ بیٹھیں اور ان مسائل کو حل کرنے کے لیے تجاویز دیں۔