آج جب میں حمید علی کے ہمراہ چار بجے سہ پہر آغا خان اسپتال میں ’’پرنسز زہرا پویلین‘‘ میں تیسرے فلور پر مرشد نذیر لغاری کو دیکھنے پہنچا تو ’’یاروں دل داروں‘‘ کی دعائوں کی قبولیت اور اثر پذیری کا نتیجہ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ الحمدللہ! وہ مکمل ہوش و حواس میں ہیں اور اللہ کے فضل و کرم سے تیزی کے ساتھ زندگی کی طرف لوٹ رہے ہیں، پرسوں میں جب سید احمد شاہ، مظہر عباس اور ڈاکٹر ایوب شیخ کے ہمراہ انہیں دیکھنے کے لیے پہنچا تھا تو ان پر غنودگی کا غلبہ تھا اور وہ کسی کو پہچان نہیں پا رہے تھے، یہ کیفیت قدرے کمی کے ساتھ کل تک بھی برقرار رہی۔ لیکن دو گھنٹے قبل جب شاہد جتوئی سے بات ہوئی تو وہ ان کی صحت یابی سے متعلق مطمئن دکھائی دیے تو جان میں جان آئی۔ آج میں رب غفور و رحیم کی شانِ کریمی کا معترف ہوں اور اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے دل بر نذیر لغاری کو متاعِ صحت دوباہ لوٹا رہا ہے اور آج میں نے بھابھی محترمہ کے چہرے پر بھی اطمنیان کی جھلک دیکھی جبکہ ان کی زبان پر شکرانہ خدا کا ورد بھی جاری تھا۔
میں نے یار دل دار نذیر لغاری کو سلام کیا، انہوں نے چند لمحوں کے لیے یادداشت پر زور دِیا اور دفعتاً ہلکی سی غمگین مسکراہٹ سے میرا خیر مقدم کیا اور اتھ کر بیٹھنے کی ناکام کوشش کی تو میں نے انہیں ہاتھ کے اشارے سے اٹھنے سے منع کیا۔ بھابھی نے مجھے کہا کہ آپ ان سے بات کریں۔ میں نے بہ آواز بلند کہا:
’’لغاری صاحب! کیا حال ہِن؟ انہوں نے ایک بار پھر افسردگی میں ڈوبی ہوئی ہلکی سی مسکان دہرائی اور آہستگی سے اپنا بایاں ہاتھ دل پر لے جانے کا جتن کیا جیسے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہو کہ ’’الحمدللہ ! میں اب ٹھیک ہوں۔‘‘ میرے لیے خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا۔ بھابھی قریب آئیں اور ان سے کہا:
’’لغاری صاحب! خاور آیا کھڑے،‘‘ انہوں نے آنکھوں میں اثبات کا اشارہ دیا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں بتایا، ’’مجھے علم ہے کہ خاور آیا ہوا ہے۔‘‘ میں نے انہیں بتایا کہ سارے دوست، سارا وسیب، سارا کراچی اور سارا جمل جہان آپ کی صحت یابی کے لیے دعائیں کر رہا ہے، ان شااللہ تعالیٰ آپ جلد دوبارہ ہمارے درمیان ہوں گے۔ ان کے چہرے پر اطمنیان کی واضح جھلک دیکھ کر لوٹا ہوں تو سوچا آپ کو بھی مرشد نذیر لغاری کی صحت سے متعلق تازہ ترین گزارشات آپ کی نذر کر دوں۔