اقوام متحدہ۔(مانیٹرنگ ڈیسک ) :اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کہا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی )سے پاکستان کی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہیں، سرحد پار سے دہشت گرد حملوں میں ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کے درمیان بالخصوص پاکستان کے خلاف تعاون بڑھ رہا ہے۔کونسل کی داعش ، القاعدہ اور اس کے ساتھی گروپوں کے بارے میں کونسل کی تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کی رضامندی اور بعض اوقات حمایت کے ساتھ ٹی ٹی پی نے پاکستان کے اندر حملے تیز کر دیے ہیں جن میں بنیادی طور پر فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا جاتا ہے، پاکستان کو حالیہ مہینوں میں 800 سے زائد حملوں کا سامنا کرنا پڑا،ٹی ٹی پی کے کیمپ القاعدہ اور طالبان کی شمولیت کے ساتھ مقامی افغان جنگجوؤں اور ٹی ٹی پی کے کارندوں کو تربیت د یتے ہیں، ٹی ٹی پی کے پاس 6,000 سے 6,500 جنگجو ہیں جو افغانستان میں حاصل کیے گئے نیٹو ہتھیاروں کو استعمال کرتے ہیں جن میں نائٹ ویژن آلات بھی شامل ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ ٹی ٹی پی کے لیے ہتھیاروں اور خودکش جیکٹوں کی خریداری کے لیے فنڈنگ کر رہی ہے،افغانستان سے دہشت گردی کا خطرہ اقوام متحدہ کے بہت سے رکن ممالک میں تشویش کا باعث بن رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان نے مسلسل بین الاقوامی برادری کی توجہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں سے درپیش سلامتی کے خطرے کی طرف مبذول کرائی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسے بیرونی حمایت بھی حاصل ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ کے کچھ اہلکاروں کے افغانستان کے نئے اندرونی سفر ، تربیت، بھرتی اور تنظیم نو کی سرگرمیاں سامنے آئی ہیں۔رپورٹ میں اقوام متحدہ کے متعدد رکن ممالک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ القاعدہ کے رہنما ابو اخلاص المصری صوبہ کنڑ میں ٹی ٹی پی کو خودکش بمباروں کی تربیت فراہم کرنے میں جماعت الاحرار کے ساتھ تعاون کر رہے تھے، دو ریاستوں نے ٹی ٹی پی کو 26 مارچ کے حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا میں بشام کے قریب ہائیڈرو پاور ڈیم پراجیکٹ پر کام کرنے والے چینی شہریوں کے خلاف ٹی ٹی پی اور طالبان کے درمیان تعاون میں اضافہ ہوا ہے، افغانستان میں افرادی قوت اور تربیتی کیمپوں کا اشتراک اور تحریک جہاد پاکستان (ٹی جے پی) کے بینر تلے مزید مہلک حملے کر رہے ہیں اس لیے ٹی ٹی پی دوسرے دہشت گردوں کے لیے ایک بڑی تنظیم میں تبدیل ہو سکتی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کچھ رکن ممالک کا اندازہ ہے کہ زیر اثر علاقے میں کمی اور قیادت کے اندرونی اختلافات کے باوجود داعش کے جنگجوؤں کی تعداد 4,000 سے بڑھ کر 6,000 ہو گئی ہے جبکہ دیگر کا اندازہ ہے کہ ان کی تعداد 2,000 سے 3,500 جنگجوؤں کے درمیان رہ گئی ہے۔جہاں تک القاعدہ کا تعلق ہے افغانستان میں اس کی حیثیت، مقام اور طاقت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔