ناران(رپورٹ محمد زبیر خان بی بی سی اردو ڈاٹ کام)’ہم سکردو سے واپسی پر ناران میں رکے تو پتا چلا کہ سیلاب کی وجہ سے پل بہہ گیا ہے اور ہم اسلام آباد واپس نہیں جا سکتے ہیں۔ یہ اطلاع ہمارے لیے تشویشناک تھی۔ ایسے میں ہوٹل مالک ہمارے پاس آئے اور کہا کہ جو مہمان واپس جا رہے تھے وہ اب مفت میں قیام کر سکتے ہیں اوران کو کھانا وغیرہ بھی آدھی قیمت پر فراہم کیا جائے گا۔‘یہ کہنا تھا کراچی کی رہائشی ریما شعیب کا جو اپنے تین بچوں اور خاوند کے ہمراہ اس وقت صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کے سیاحتی مقام ناران میں جھیل روڈ پر واقع ایک ہوٹل میں پھنسی ہوئی ہیں۔یہ ساری صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب بارشوں اور سیلابی ریلے کے باعث مہانڈری بازار کے مقام پر رابطہ پل بہہ گیا جس سے ناران اور کاغان کا رابطہ منقطع ہو گیا۔خیبر پختونخوا میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے پی ڈی ایم اے کے مطابق صوبے میں گذشتہ 48 گھنٹوں کے دوران تیز بارشوں اور سیلابی ریلوں کی وجہ سے 11 بچوں سمیت 19 افراد ہلاک جبکہ 15 زخمی ہوئے ہیں۔ادارے کے مطابق یہ ہلاکتیں صوبے کے مختلف اضلاع میں ہوئیں جہاں ضلعی انتظامیہ اور امدادی ٹیمیں امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور بند شاہراہوں کو کھولنے کے لیے مشینری کی مدد لی جا رہی ہے۔نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے مطابق قومی شاہراہ این 15 مانسہرہ، ناران-جھلکڈ شاہراہ پر رابطہ پل بہہ جانے کے بعد ناران اور بالاکوٹ دونوں اطراف سے زمینی رابطہ بحال کرنے کے لیے مطلوبہ مشینری پہنچا دی گئی ہے۔تاہم حکام کا کہنا ہے کہ اس وقت سیلابی ریلے کی سطح بلند ترین مقام پر ہے اور مرمتی کام پانی کی سطح کم ہونے پر ہی شروع کیا جا سکے گا۔اس صورتحال کے بعد کاغان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ شاہراہ کاغان کی بندش کے باعث پھنسنے والے سیاحوں سے رہائش اور کھانے پینے کے لیے کوئی زائد پیسے وصول نہیں کیے جائیں گے۔ اور پھنسے ہوئے سیاحوں کا بجٹ ختم ہونے کی صورت میں سیاحوں کو مفت رہائش وکھانا فراہم کیا جائے گا۔اس صورتحال کے بعد ناران ہوٹل ایوسی ایشن کی جانب سے بھی اعلان کیا گیا کہ ناران اور آس پاس کے علاقوں میں پھنسے سیاحوں کو مفت قیام فراہم کیا جائے جب کہ ان سے کھانے پینے کی اشیا کی بھی آدھی قیمت ہی وصول کی جائے گی۔کراچی کی رہائشی ریما شعیب کا جو اپنے تین بچوں اور خاوند کے ہمراہ اس وقت صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع مانسہرہ کے سیاحتی مقام ناران میں جھیل روڈ پر واقع ایک ہوٹل میں پھنسی ہوئی ہیںہم نے حکومتی اداروں کی جانب سے پھنسے ہوئے سیاحوں کو مدد فراہم کرنے کے اعلانات کے بعد وہاں پھنسے ہوئے سیاحوں سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کیا واقعی ان اعلانات میں پر عمل ہو رہا ہے یا یہ صرف لفظی جمع خرچ ہے۔ریما شعیب جو کہ سکردو اور گلگت بلتستان کی سیر کے بعد واپسی کے راستے میں تھیں کہتی ہیں کہ عملاً تو ہم ناران میں پھنسے ہوئے ہیں مگر ہمیں یہاں کوئی تکلیف نہیں ہے۔’یہاں کے ہوٹل والے، مقامی لوگ، انتظامیہ، پولیس، سب ہمارا بہت خیال رکھ رہے ہیں۔ ہم نے کل کے مقابلے میں آج کھانے پینے کے پیسے آدھے ادا کیے ہیں۔‘ریما شعیب کہتی ہیں کہ یقین نہیں آتا کہ ایسے موقع پر جب لوگوں کے پاس پیسے بنانے کا موقع ہے مگر یہاں لوگ ایسا نہیں کر رہے۔وہ کہتی ہیں کہ یہاں صرف مقامی لوگ مفت کمرے اور کھانے پینے کے کم پیسے ہی نہیں لے رہے بلکہ ساتھ میں تسلی بھی دے رہے ہیں کہ ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہمارا کوئی بھی مسئلہ ہوگا تو وہ حل کریں گے۔کوئٹہ سے اپنے دوستوں کے ہمراہ ناران گھومنے آئے محمد رضا نے بتایا کہ جب وہ ناران سے واپسی کے لیے نکلنے لگے تو انھیں بتایا گیا کہ راستے بند ہیں۔’اس موقع پر ہم ہوٹل والے کا منھ دیکھ رہے تھے تو انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ پھنسے ہوئے مہمانوں کے لیے ہوٹل کمرے مفت ہیں جبکہ کھانا آدھی قیمت پر دستیاب ہوگا وہ بھی اگر ادا کرسکیں اور اگر کوئی ادا نہ کرسکے تو کوئی بات نہیں ہے۔‘محمد رضا کہتے ہیں کہ ’ہمیں ایسے لگا کہ ہم کوئٹہ میں اپنے کسی بھائی یا رشتے دار کے ساتھ ہیں جو ہمیں کہہ رہا ہے کہ پریشانی کی کیا بات ہے میں ہوں نا۔‘تاہم بابو سر ٹاپ پر صورتحال قدرے مختلف دکھائی دیتی ہے۔بابو سر ٹاپ پر ایک ہوٹل میں مقیم سیاح کا کہنا تھا کہ یہاں مسافروں سے ابھی بھی کمروں کے آدھے کرائے وصول کیے جا ہے ہیں جبکہ کھانے پینے پر محض پندرہ سے تیس فیصد رعایت دی جا رہی ہے۔ملتان سے آئے بلال قریشی کہتے ہیں کہ وہ بابو سر ٹاپ کے وہ جس ہوٹل میں موجود ہیں انھوں نے تو ان سے کمرے کے پیسے نہیں مانگے ہیں تاہم انھیں بہت سے سیاحوں نے بتایا ہے کہ ان سے کمروں کے پورے آدھے پیسے لیے گئے ہیں۔بلال کا کہنا تھا کہ انھیں ایک خاندان نے بتایا کہ گذشتہ رات انھوں نے 10 ہزار روپے کے حساب سے کرایہ ادا کیا تھا مگر آج ان سے پانچ ہزار لیا گیا۔ ہوٹل والوں کا کہنا تھا کہ ان کے لیے کمرے مفت دینا ممکن نہیں۔بلال قریشی کا کہنا تھا کہ بابو سر ٹاپ پر کھانے کی قیمت 50 فیصد کی رعایت نہیں دی جا رہی ہے۔’بابو سر ٹاپ کے ایک مشہور ہوٹل نے مجھ سمیت دیگر لوگوں کو 35 فیصد رعایت دی ہے جبکہ دیگر ہوٹلوں پر یہ رعایت صرف پندرہ سے بیس فیصد ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے بابو سرٹاپ پر رکنا اس لیے بہتر سمجھا کہ پل بننے میں تو تاخیر ہوگی اس لیے اگر بابو سر ٹاپ سے موقع ملا تو وہ وہاں سے نکل جائیں گے۔بلال کہتے ہیں کہ اکثر دکانداروں نے اشیا مہنگی کردی ہیں اور انھیں موبائل فون کی سم بھی مہنگی ملی ہے۔ناران میں موجود ایک اور سیاح راشد زاہد کا کہنا تھا کہ ہوٹل والے تو مفت کمرے اور کھانے میں رعایت دے رہے ہیں مگر دکانوں پر چیزیں بہت مہنگی مل رہی ہیں۔ناران کے ایک ہوٹل کے مالک محمد ذیشان کا کہنا تھا کہ ان کے ہوٹل میں بیس کمرے ہیں۔ ’سب کمروں میں مہمان موجود ہیں۔ ان میں صرف پانچ کمرے ایسے ہیں جن کی پہلی سے بکنگ ہوئی ہے باقی کمروں میں وہاں پھنسے مہمانوں کو مفت ٹھہرایا گیا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ہمارا رزق اور کاروبار ان سیاحوں جڑا ہے۔ ’راستے ویسے بھی بند ہیں، نئے سیاح نہیں آ سکتے ہیں اور اگر ہم ان مہمانوں کے ساتھ زیادتی کریں تو یہ بداخلاقی اور بد دیانتی ہو گی۔‘ناران ہوٹل ایوسی ایشن کے نائب صدر محمد انور کا کہنا تھا کہ ایسوسی ایشن نے شکایات کے ازالے کے لیے اپنے نمبروں کی تشہیر کی ہے جس کے بعد انھیں چند ہوٹلوں کے خلاف شکایات موصول ہوئی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے ان ہوٹل مالکان سے درخواست کی ہے کہ ایسا نہ کریں تاہم اس کے باوجود اگر کوئی ایسے کرے گا تو نہ صرف ہم خود ان کے خلاف کارروائی کریں گے بلکہ انتظامیہ سے بھی ان کے خلاف کارروائی کی درخواست کی جائے گی۔ناران ہوٹل ایسوسی ایشن کے مطابق ناران میں کم از کم پانچ سو ہوٹل ہیں اور ایک اندازے کے مطابق ان ہوٹلوں میں اس وقت 12 سے 15 ہزار لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔’ناتجربہ کار ٹوور آپریٹر اور ڈرائیور سے بچیں‘: سیاحتی مقامات کی طرف جانے سے پہلے اِن چیزوں کا خیال رکھیں!.
برفباری، سیلابی ریلوں اور لینڈ سلائیڈنگ کے بعد سیاحتی مقامات ناقابل رسائی: ’ڈر لگ رہا ہے کہ عید شاہراہ قراقرم پر گزرے گی‘20 اپريل 2023’رابطہ پل کی بحالی میں وقت لگ سکتا ہے‘دریائے کنہار میں آنے والا سیلابی ریلا ناران کو کاغان سے ملانے والا مہانڈری کا پل بہا کر لے گیااسسٹنٹ کمشنر بالاکوٹ بشارت شاہ کا کہنا ہے کہ شدید بارشوں کے سبب دریائے کنہار میں آنے والا سیلابی ریلا مہانڈری کا پل بہا کر لے گیا جو ناران کو بالاکوٹ سے ملاتا ہے۔ اس کے علاوہ مہانڈری کے مقام پر کچھ دکانیں بھی دریا کی طغیانی کی نذر ہو گئی ہیں۔ان کے مطابق سیلاب اور بارشوں کے نتیجے میں ایک خاتون اور ایک کم عمر بچہ بھی ہلاک ہوئے ہیں۔بشارت شاہ کا کہنا تھا کہ بالاکوٹ سے شوگران اور کاغان تک جانے کے راستے کھلے ہیں۔ ’صرف ناران کا راستہ مہانڈری کے مقام سے بند ہے۔‘موسمِ گرما میں گلگت بلتستان سے آنے والی بیشتر ٹریفک بابو سر ٹاپ کا راستہ استعمال کرتی ہے۔ مہندری پل کے دریا برد ہونے کے بعد گلگت بلتستان سے آنے والی ٹریفک کو فوری طور پر شاہراہ قراقرم کی طرف موڑ دیا گیا تھا۔اسسٹنٹ کمشنر بالاکوٹ کا کہنا تھا کہ مانسہرہ سے ناران کی طرف جانے والے سیاحوں کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ وہ ناران نہیں جا سکتے ہیں لیکن اگر انھیں شوگران جانا ہے تو راستے کھلے ہیں تاہم بارشوں کے باعث وہاں لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ ہے۔بشارت شاہ کا کہنا تھا کہ ناران اور بالاکوٹ کے درمیان زمینی رابطے کا واحد ذریعہ یہ پل ہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دریا کی صورتحال معمول پر آنے کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ پل کے ساتھ کیا کرنا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ حکام کی پوری کوشش ہوگی کہ جو بھی کرنا ہے جلد از جلد کیا جائے۔ تاہم اسسٹنٹ کمشنر بالاکوٹ نے واضح کیا کہ اس کام میں کچھ دن لگ سکتے ہیں۔’اس دوران ناران اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں جو سیاح پھنسے ہیں انھیں انتظامیہ تمام سہولیات فراہم کررہی ہے۔‘بشارت شاہ کا کہنا ہے کہ علاقے کی ہوٹل ایسوسی ایشن کے ساتھ بات چیت میں طے پا گیا ہے کہ وہاں پھنسے سیاحوں کو کمرے مفت فراہم کیے جائیں گے جبکہ کھانے پینے کی اشیا کی قیتمیں بھی کم جائیں گی۔تاہم انھوں نے خبردار کیا ہے کہ راستے نہ کھلے تو اشیاء خووردونوش کی قلت پیدا ہوسکتی ہے۔’پہلے سے رکے سیاحوں سے تو پیسے لے رہے ہیں لیکن پھنس جانے والوں کو مفت کمرے دے رہے ہیں‘محمد انور ناران ہوٹل ایسوسی ایشن کے نائب صدر ہیں اور ان کے ناران میں اپنے بھی تین ہوٹل ہیں۔محمد انور کا کہنا تھا کہ ناران میں پھنسے سیاحوں کو مفت کمرے اور سستا کھانا پینا فراہم کرنے کے فیصلے پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔’جن سیاحوں کی پہلے ہی سے بکنگ ہے اور وہ وہاں رکے ہوئے ہیں، ان سے تو پیسے لیے جا رہے ہیں مگر جو واپس جا رہے تھے اور پل ٹوٹ جانے کے باعث پھنس چکے ہیں ان کو کمرے مفت دے رہے ہیں۔‘محمد انور کہتے ہیں کہ ان کے اندازے کے مطابق اس وقت ناران میں بارہ سے پندرہ ہزار افراد ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دو، تین روز کا تو مسئلہ نہیں کیونکہ ضرورت کی اشیا کا اتنا ذخیرہ تو ہوٹلوں میں ہوتا ہے۔ مگر انھوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر راستہ کھلنے میں زیادہ وقت لگ گیا تو اس سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔’اشیا خوردونوش کے علاوہ پیڑول وڈیزل، گیس کے سلنڈر کی قلت پیدا ہوسکتی ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ اگر موسم ٹھیک ہو اور لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ نہ ہو تو کم ا زکم بابو سر ٹاپ والا راستہ کھول دیا جائے تاکہ مہانڈری والا راستہ کھلنے تک ناران پر بوجھ کم ہو اور کسی کو تکلیف نہ ہو۔بالاکوٹ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر محمد ثاقب ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ وہ سیاحت کی غرض سے فیملی کے ساتھ ناران آئے تھے اور انھیں منگل کے روز واپس جاتا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ جب اطلاع ملی کہ پل دریا برد ہونے کے باعث راستے بند ہوگئے ہیں تو ان سمیت وہاں موجود دیگر مسافروں میں شدید خوف و ہراس پیدا ہو گیا تھا۔’کئی افراد آپس میں یہ بات کر رہے تھے کہ انھیں وہاں اب کتنے دن رکنا پڑے گا اور کھانے پینے رہائش کے اخراجات کیسے برداشت کریں گے۔‘ڈاکٹر ثاقب کا کہنا تھا کہ کچھ سیاح بابو سرٹاپ کے راستے واپس جانا چاہتے تھے مگر بارشوں کی وجہ سے وہاں لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ تھا۔ان کا کہنا تھا جہاں اس صورتحال میں کئی ہوٹل والوں نے سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے مفت کمرے دینے کے اعلان کیے وہیں کئی مقامی افراد بھی سیاحوں کی مدد کے لیے سامنے آئے۔’مساجد سے اعلانات کیے گئے کہ کوئی بھی مہمان اگر کسی بھی مقام پر پھنسا ہے تو مطلع کرے، ہم اسے خود لینے آئیں گے۔‘اس کے علاوہ مقامیوں نے سیاحوں کو اپنے گھروں میں ٹھہرانے کی بھی پیشکش کی ہے۔ڈاکٹر ثاقب کہتے ہیں کہ ان اعلانات کے بعد کئی مقامی افراد بازارمیں گھومنے لگے کہ اگر کسی مہمان کو کوئی ضرورت ہوتو اس کو پورا کیا جا سکے جس کے بعد مہمانوں میں خوف و ہراس کافی کم ہوا۔