لاہور(رپورٹ ,نازش فیض,بی بی سی اردوڈاٹ کام )منھ میں پان، ہاتھ میں گڑوی اور ہونٹوں پہ مسکراہٹ۔ یہ لاہور کے علاقے گڑوی محلے کے رہنے والوں کی پہچان ہے جہاں پہنچ ک آپ کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ کسی موسیقی بنانے والی فیکٹری میں آ گئے ہوں۔یہاں ہر دوسرے شخص کے پاس سریلی آواز کا تحفہ ہے جو سننے کے بعد آپ خود کو ان کی تعریف کرنے سے نہیں روک پاتے۔دراصل گڑوی محلے کا ذکر آج کل اس لیے بڑھ گیا ہے کیونکہ کوک سٹوڈیو کے گانے ’بلاک بسٹر‘ نے یوٹیوب پر دھوم مچا رکھی ہے۔ ریلیز کے دو ماہ بعد بھی انسٹاگرام پر اس گانے پر ریلز بنائی جا رہی ہیں۔گانے میں گڑوی بجانے اور اپنی آوازوں سے اس گانے کو چار چاند لگانے والی خواتین عابدہ، ساجدہ، روحا حسن اور صبا نامی بچی کا تعلق اسی گڑوی محلے سے ہے۔کوک اسٹوڈیو سیزن 15 کے پروڈیوسر زلفی اس گانے کی تیاری پر مبنی ویڈیو میں بتاتے ہیں کہ ’تھوڑی دیر کے لیے سوچو! پاکستان میں ایک جگہ ہے جس کا نام علامتی طور پر ایک موسیقی کے آلے کے نام پر رکھا گیا ہے۔۔۔ ان کی شناخت ہی یہی ہے۔ ان سے بڑا بلاک بسٹر کیا ہے؟‘کوک اسٹوڈیو کے گانے بلاک بسٹر کو اب تک یوٹیوب پر قریب تین کروڑ مرتبہ دیکھا جاچکا ہےچند سال قبل ’گڑوی گروپ‘ کی خواتین کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں وہ پانی کے برتن یعنی گڑوی کو موسیقی کی آلے کے طور پر بجا رہی تھیں۔ زلفی کے بقول انھیں یہ منظر ’جادوئی‘ لگا۔پاکستان کے ماضی کے کئی بڑے گلوکار جیسے ریشمہ، نصیبو لال اور حال ہی میں مشہور ہونے والی جسٹن بیبیز کا تعلق اسی گڑوی محلے میں بسنے والی برادری سے ہے۔میں نے سوچا کیوں نہ اس محلے میں جا کر دیکھا جائے کہ کیا ایسے شاندار موسیقار واقعی یہاں ہر گھر میں پائے جاتے ہیں۔ اور یہ کہ گڑوی بجانے کا ہنر لوگوں نے نسل در نسل کیوں سیکھا ہے؟سات ہزار سے زیادہ کی آبادی والے اس علاقے کا روزگار گانے بجانے سے جڑا ہے۔ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، کچے مکان، پانی کی نکاسی کا عدم بندوبست اور شدید گرمی میں بجلی کی بے جا بندش بھی اس محلے میں رہنے والے لوگوں کی مسکراہٹیں نہیں چھین سکی ہے۔محلے کا ماحول دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا کہ یہاں رہنے والے لوگ ایک دوسرے کے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ ایک طرف پان کی دکان پر جما رش، دوسری جانب چائے کی دکان پر خواتین اور مردوں کے درمیان جاری گانوں کا مقابلہ۔ کسی اجنبی کو یہ مناظر کسی میوزیکل فلم کے شوٹ جیسا لگ سکتا ہے۔روحا حسن، جنھوں نے اپنی بیٹی صبا کے ہمراہ ’بلاک بسٹر‘ گایا، کہتی ہیں کہ ’اس محلے میں رہنے والے بچے، بچے کو گانا آتا ہے۔ ہمیں کسی نے نہیں سکھایا۔ یہاں بڑے سے لے کر چھوٹا بچہ گانا گاتا ہے۔ میرے تین بچے ہیں اور تینوں گانا گاتے ہیں۔‘یعنی پانی کے برتن کو موسیقی کے آلے کے طور پر بجانے والی خواتین نے اس محلے کو اپنا نام دیاروحا بتاتی ہیں کہ یہاں پر زیادہ تر لوگ جو شادیوں، میلوں اور ٹھیلوں سمیت چوراہوں اور سٹیشنز پر گاتے ہیں ان کا تعلق گانا بجانے والے خاندانوں سے ہے۔ گڑوی محلے کے کئی گروپس کی قوالی سے لاہور کے مختلف کیفیز، ریستوانوں اور دیگر تفریحی محفلوں میں محظوظ ہوا جا سکتا ہے۔راول حسن میاںداد مختلف نجی ٹی وی چینلز پر آنے والے مختلف شوز میں قوالی گاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس علاقے کو گڑوی محلے کا نام اس لیے ملا کیونکہ ’یہاں پر گڑوی (پانی کے برتن) کی تھاپ پر خواتین گانا گاتی ہیں۔‘ان کا خیال ہے کہ ماضی میں بھی یہاں سے کئی بڑے موسیقار آئے لیکن حال ہی میں جسٹن بیبیز اور گڑوی گروپ کی ویڈیوز انٹرنیٹ پر وائرل ہونے کے بعد اور لوگوں کو اس علاقے کے بارے میں پتا چلنا شروع ہوا ہے۔راول بتاتے ہیں کہ تقسیم ہند کے بعد کئی خاندان راجستھان میں اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر محض اس ہنر کے ساتھ پاکستان آ کر بس گئے تھے۔ہم جس گلی میں بھی گئے یا جس گھر میں بھی پہنچے وہاں یہ سوال ذہن میں آیا کہ یہ لوگ نجانے کب سے گائیکی سیکھ رہے ہیں۔ یہ بھی تعجب کی بات ہے کہ انھیں سکھانے والا کوئی اور نہیں بلکہ یہ خود ہیں۔راول نے بتایا کہ ’ہمیں کوئی نہیں سکھاتا ہے مگر لوگ ہم سے سیکھ کر جاتے ہیں۔‘یہ لوگ اس محلے کو اپنی پہچان سمجھتے ہیں۔ عابدہ کا کہنا ہے کہ ’یہ محلہ ہمارا شاختی کارڈ ہے اور یہی ہمارا پاسپورٹ بھی ہے۔ ہمیں اس کام کے علاوہ کوئی کام نہیں آتا اور نہ ہی ہم کرنا چاہتے ہیں۔‘کئی لوگوں سے گانا سننے کے بعد یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا تھا کہ کون سب سے بہتر گا رہا ہے۔ جب شام ڈھلی تو کچھ والدین اپنے بچوں کو لے کر گلیوں میں نکل آئے اور ریاض شروع کر دیا۔ یہ خوبصورت منظر نسل در نسل ہنر کی منتقلی کی عکاسی کر رہا تھاایک دن گزار کر ایسا لگتا ہے جیسے ہر کوئی گانا گانے میں مہارت رکھتا ہےمختلف لوگوں سے بات کرتے کرتے ہمیں معروف پنجابی گلوکارہ نصیبو لال کی بہن سنوبر لال ملی گئیں۔ اُنھوں نے اپنے محلے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’یہاں پر رہنے والے لوگ ایک ہیں۔ جب کسی گھر میں کوئی مسئلہ ہو تو سب اُس کو حل کرنے کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔’اگر کسی ایک گھر میں خوشی کا موقع ہو تو سات ہزار افراد پر مشتمل یہ برادری ان کی خوشی میں شامل ہو جاتی ہے۔‘اس محلے کے لوگوں کی آپس میں محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نصیبو لال کی بے پناہ شہرت کے باوجود اُنھوں نے آج بھی اس محلے کو نہیں چھوڑا ہے۔لاہور کے پوش علاقے میں گھر لینے کے باوجود وہ آج بھی یہاں اپنے پرانے مکان میں رہتی ہیں۔ ان کی بہن سنوبر لال کا کہنا ہے کہ نصیبو ’آج بھی اس محلے میں لوگوں سے ملتی جلتی ہیں اور ان کے ساتھ رہتی ہیں۔ جب بھی کوئی مشکل پیش آئے تو وہ لوگوں کی مدد کرتی ہیں۔‘ان لوگوں کے پاس کوئی فیکڑی ہے نہ دوسرا کاروبار تو گزر بسر کے لیے صرف موسیقی پر انحصار ناکافی ہے۔ اس مشکل کے باوجود لوگوں کو گانا بجانے کا جو بھی روزگار ملتا ہے وہ اُس پر خوش ہے۔راول کی خواہش ہے کہ جو شہرت گڑوی محلے کے محض چند لوگوں کو ملی ہے وہ یہاں بسنے والے ہر شخص کو ملنی چاہیے۔’بلاک بسٹر‘ کے بعد اب لگتا ہے کہ ہمیں لاہور کے اس محلے کی جھلک کسی نہ کسی صورت میں نظر آتی رہے گی۔