کراچی۔(نمائندہ خصوصی )وفاقی وزیر خزانہ و محصولات محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ پائیدار ترقی کے لیے میکرو اکنامک استحکام کے حصول کی کوششیں جاری ہیں کیونکہ اگر حکومت میکرو اکنامک استحکام حاصل کیے بغیر ترقی پر مبنی اقدامات کرتی ہے تو اس سے ادائیگیوں کے توازن کے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا لہٰذا میکرو اکنامک استحکام کے لیے مشکل فیصلے کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے جس کے حاصل ہونے پر تاجر برادری کے ساتھ ساتھ تنخواہ دار طبقے پر بوجھ کم ہوگا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے دورے کے موقع پر ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر وفاقی وزیر پورٹس اینڈ شپنگ قیصر احمد شیخ، وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو ملک امجد زبیر ٹوانہ، چیئرمین بزنس مین گروپ زبیر موتی والا، وائس چیئرمین بی ایم جی ہارون فاروقی، انجم نثار اور جاوید بلوانی، صدرکے سی سی آئی افتخار احمد شیخ، سینئر نائب صدر الطاف اے غفار، نائب صدر تنویر احمد باری، کے سی سی آئی کی منیجنگ کمیٹی کے اراکین،سابق صدور و دیگر بھی موجود تھے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ معیشت کو اسٹرکچرل مسائل کا سامنا ہے کیونکہ جب بھی ترقی کو تیز کرنے کی کوشش کی گئی تو اس سے ادائیگیوں کے توازن میں مسئلہ پیدا ہوا جو ایک بنیادی مسئلہ ہے اور ہمیں اس سے نکلنا ہوگا۔ہم ترقی کی جانب تب ہی گامزن ہو سکتے ہیں جب ہمارے پاس کافی فسکل اسپیس ہو جسے برآمدات کی صورت میں ہونا چاہیے۔اس ضمن میں تاجر برادری، برآمدکنندگان اور ویلیو ایڈڈ سیکٹر کو کردار ادا کرنا ہوگا انہوں نے مزید کہا کہ خاص طور پر تنخواہ دار طبقے کے لیے بڑھایا گیا ٹیکس ایک قلیل مدتی اقدام ہے لیکن یقینی طور پر یہ آسان نہیں تھا۔ہم نے اس سال تاجر برادری اور تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس بڑھایا لیکن ہم ایسا بار بار نہیں کر سکتے کیونکہ ان سب پر بہت زیادہ بوجھ ہے لہٰذا دیگر تمام غیر ٹیکس والے شعبوں بشمول ریٹیلرز، زراعت، ریئل اسٹیٹ سیکٹر وغیرہ کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا تاکہ موجودہ ٹیکس دہندگان پر بوجھ کم کیا جاسکے۔انہوں نے زرعی شعبے پر ٹیکس لگانے کے لیے قانون سازی کرنے پر اتفاق کرنے پر تمام وزرائے اعلیٰ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس وقت صوبائی موضوع ہے کیونکہ ہم تاجر برادری اور تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس میں اضافہ جاری نہیں رکھ سکتے۔ اس لیے ہمیں غیر ٹیکس والے شعبوں کو معیشت میں لانا ہوگا اور ٹیکس کے قوانین کے موثر نفاذ کو یقینی بنانا ہوگا۔انہوں نے اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں ایک فیصد کمی کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ درست سمت میں ایک قدم ہے اور افراط زر کو مدنظر رکھتے ہوئے خواہ یہ کسی حد تک بڑھ بھی جائے، اسٹیٹ بینک کے پاس اب بھی اتنی گنجائش ہوگی کہ وہ شرح سود کو بتدریج مزید نیچے لے آئے۔زائد شرح سود کے علاوہ ٹیکسوں اور توانائی کے نرخوں کی وجہ سے تاجر برادری کو مسائل کا سامنا ہے تاہم حکومت ان تمام مسائل سے باخبر ہے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اگر پاکستان 8 ارب ڈالر کی زرعی برآمدات اور 3.2 ارب ڈالر کی آئی ٹی برآمدات کا ہدف حاصل کرنا چاہتا ہے تو متعلقہ تاجر 10 ارب ڈالر کی زرعی برآمدات اور 5 ارب ڈالر کی آئی ٹی برآمدات حاصل کرنے کا ارادہ کریں۔وزیر خزانہ نے بینکوں کے ساتھ اپنی بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بینکوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ نجی شعبے خصوصاً کسانوں اور ایس ایم ایز کو زیادہ سے زیادہ قرضہ دیں جنہوں نے ملک کو آگے لے کر چلنا ہے،نجی شعبے کو کیش فلو کی بنیاد پر کریڈٹ فراہم کرنا ضروری ہے ۔انہوں نے بتایا کہ 30 جون 2024 تک کے تمام طے شدہ ٹیکس ریفنڈز یکم جولائی 2024 کو صنعتوں کو مجموعی طور پر 51 ارب روپے تک جاری کیے گئے ہیں اور اگر ڈیوٹی ڈرابیک کو بھی شامل کیا گیا تو مجموعی ریفنڈز 70 ارب تک پہنچ جائیں گے۔اگر ہم ان ریفنڈز کو روکتے ہیں تو اس سے صنعتوں کے لیے سرمائے کی لاگت بڑھ جاتی ہے کیونکہ وہ تقریباً 20 فیصد کی شرح سے ورکنگ کیپیٹل حاصل کرتی ہیں جو کہ کاروباری لاگت میں اضافہ ہے۔انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ وزیر اعظم کی واضح رہنمائی کے تحت حکومت 8 سے 10 ماہ تک ریفنڈز نہیں روکے گی ، انہیں فوری طور پر تعین کے بعد جاری کر دیا جائے گا۔انہوں نے وزرا کو مفت فراہم کی جانے والی متعدد سہولیات کے بارے میں غلط فہمی پر تبصرہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ وہ تنخواہ نہیں لیتے اور وہ کے سی سی آئی میں موجود تمام وزراء کے ساتھ یوٹیلٹی بل اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں البتہ کم از کم وفاقی سطح پر ہمیں اپنے اخراجات کم کرنے ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں ڈاکٹر عشرت حسین نے حکومت کو رائٹ سائز کرنے کے حوالے سے رپورٹ پیش کی لیکن بدقسمتی سے وہ رپورٹ جو ایک بہت اچھی کاوش تھی کبھی اس پر توجہ نہیں دی گئی۔وزیراعظم کی زیر نگرانی رائٹ سائزنگ کمیٹی تمام وزارتوں اور اداروں کے اخراجات کا جائزہ لے رہی ہے جنہیں وزیر اعظم کی طرف سے اعلان کیے جانے والے ایک موثر نفاذ کے منصوبے کے تحت بتدریج تبدیل یا ضم کر دیا جائے گا۔وفاقی وزیر برائے بحری امور قیصر احمد شیخ نے کہا کہ وزیر خزانہ کے سی سی آئی کے ساتھ بہتر رابطہ اور تعلق برقرار رکھیں جو یقیناً معیشت کے لیے سازگار ثابت ہو گا کیونکہ یہ چیمبر ملک کے سب سے بڑے شہر کی نمائندگی کرتا ہے جو معیشت میں بے مثال حصہ ڈالتا ہے۔کراچی کی تاجر برادری حکومت کی توقعات پر پورا اترنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک نے کہا کہ حکومت نے میکرو اکنامک استحکام کے حصول کے لیے ایک نیا راستہ اختیار کیا ہے جس نے اگرچہ تاجر برادری اور عام آدمی سمیت ہر ایک کے لیے چیلنجز پیدا کیے ہیں لیکن اس نقطہ نظر سے کئی مسائل حل ہو گئے ہیں۔ بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیوں کی طرف سے پاکستان کی بہتر ریٹنگ کے علاوہ کرنسی کے استحکام، ایل سی کے اجراء کے لیے زرمبادلہ کی دستیابی اور اسٹاک مارکیٹ کی بہتر کارکردگی سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔چیئرمین ایف بی آر ملک امجد زبیر ٹوانہ نے ایس آر او 350 کی وجہ سے تاجر برادری کو درپیش مشکلات کے جواب میں بتایا کہ ایف بی آر نے بائیو میٹرک تصدیق کی شرائط پر عمل درآمد 31 اگست 2024 تک ملتوی کر دیا ہے۔چیئرمین بی ایم جی زبیر موتی والا نے ایس آر او 350 کے متعلق مسائل کو اجاگر کیا۔انہوں نے تجویز دی کہ ٹیکس کے نظام میں نئے اقدامات متعارف کرانے سے قبل تاجر برادری اور ٹیکس ماہرین سے مشاورت کی جائے۔ زبیر موتی والا نے برآمدکنندگان کو فائنل ٹیکس ریجیم سے نارمل ٹیکس ریجیم میں منتقل کرنے کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے برآمدکنندگان کے لیے ایف ٹی آر کو برقرار رکھنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ ایک شفاف اور فائدہ مند ٹیکسیشن سسٹم کو یقینی بنایا جا سکے جس سے پاکستان کے برآمدی سیکٹر کی مسابقت کو برقرار رکھنے میں مدد ملے گی۔قبل ازیں کے سی سی آئی کے صدر افتخار احمد شیخ نے وزراء اور چیئرمین ایف بی آر کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے سب سے بڑے چیمبر کی حیثیت سے اجاگر کیے گئے بنیادی مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، ملک کے وسیع تر مفاد میں خالصتاً ان مسائل کو حل کیا جائے۔انہوں نے وزیر خزانہ کے بے پناہ تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے امید ظاہر کی کہ وہ ملک کو جاری معاشی بحران سے نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔کاروبار کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے کی جانے والی تمام کوششوں اور اقدامات کو کارگر بنانے کے لیے کے سی سی آئی کی جانب سے مکمل تعاون فراہم کیا جائے گا۔