لاہور۔(کورٹ رپورٹر ):لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت لاہور کی طرف سے گذشتہ سال نو مئی کے بارہ مقدمات میں جسمانی ریمانڈ کے فیصلے کے خلاف سابق وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر جاری تحریری فیصلہ میں نے قرار دیا ہے کہ پراسکیوشن جنرل پنجاب جسمانی ریمانڈ سے متعلق عدالت کو مطمئن نہیں کرسکے۔لہذا عدالت اے ٹی سی جج کا بارہ مقدموں جسمانی ریمانڈ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ اور جسٹس انوار الحق پنوں پر مشتمل دو رکنی بینچ نے ہفتہ کو پانچ صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا ۔جس میں کہا گیا ہے کہ جسمانی ریمانڈ دیتے ہوئے قانون کی خلاف ورزی کی گئی دو رکنی بینچ نے باور کرایا کہ جسمانی ریمانڈ سے متعلق اعلی عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں۔ دو رکنی بینچ نے کہا کہ جسمانی ریمانڈ کے دوران جوڈیشل مجسٹریٹ نے الزامات کا جائزہ لینا ہوتا ہے اگرمقدمہ نہیں بنتا توجج مقدمہ سے ڈسچارج کرسکتا ہے۔عدالت نے فیصلے میں قرار دیا کہ آئین ہر شہری کو حقوق فراہم کرتا ہے جبکہ پراسکیوٹر جنرل عدالت کو قانونی طور پر مطمئن نہیں کرسکے ۔ایک سال تک ان بارہ مقدمات میں درخواست گزار کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ پراسکیوٹر جنرل سرکاری افسر کے بیان کے علاوہ درخواست گزار کے خلاف کوئی مواد نہیں دکھا سکے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کے اعانت کے الزام کو ثابت کرنے کے لیے بظاہر کوئی آڈیو یا ویڈیو ریکارڈ پر موجود نہیں۔جسمانی ریمانڈ دیتے وقت ججز کو آئین کا آرٹیکل دس بھی دیکھنا چاہیے ۔دو رکنی بینچ نے تحریری فیصلہ میں نشاندھی کی ہے کہ ریمانڈ کے وقت ملزم کا حق ہے ملزم جج کے سامنے اپنا موقف پیش کر سکے۔ عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ درخواست گزار کا دیا گیا جسمانی ریمانڈ سپریم کورٹ کی ریمانڈ سے متعلق جاری کردہ گائیڈ لائنز کے مطابق نہیں ہے۔درخواست گزار کا بارہ مقدمات میں دیا گیا جسمانی ریمانڈ کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔