کراچی(خصوصی رپورٹ )سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنولوجی میں کرپشن کا بازار گرم ہوگیا علی گڑھ یونیورسٹی کے پڑھے لکھے لوگوں کے نام کرپٹ اور مفاد پرست ٹولے نے جو اس وقت یونیورسٹی پر قابض ہے سر سید یونیورسٹی اف انجینرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کراچی میں "جعلی ڈگریوں "کا کاروبار عروج پر پہنچا دیا ہے۔واضح رہے سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنولوجی کے موجودہ وائس چانسلر پر ہمدرد یونیورسٹی میں بھی 500سے 1000جعلی ڈگریاں فروخت کرنے پر نوکری سےبرخواست کیا گیا تھا جو ہمدرد یونیورسٹی کے ریکارڈ سے واضح ہے تفصیلات کے مطابق سر سید یونیورسٹی اف انجینرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کراچی جو کے انجینرنگ و ٹکنالوجی کی اعلی تعلیم کے شعبے میں ایک معتبر نام مانا جاتا تھا چند مفاد و کرپٹ قابض ٹولے کی وجہ سے تعلیم کے شبے میں مسلسل تنزلی تباہی کی شکار ہے. تعلیم کی تنزلی کے ساتھ ساتھ ادارے کی ڈگریوں و اسناد کی تصدیق و ترویج کا کام انتہائی زبوحالی کا شکار ہو چکا ہے. جس سے ادارے کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے. کسی بھی ادارے کی سند اس ادارے کی پہچان و مان ہوتا ہے. جس کے لیے ہر تعلیمی ادارہ ہر ممکن کوشش و انتظام کرتا ہے. پچھلے پانچ سے چھے سالوں سر سید یونیورسٹی میں ہزاروں کی تعداد میں جعلی ڈگریاں بیچی گئی ہے. جعلی ڈگریوں کی یہ خرید و فروخت کا دہندہ سرسید یونیورسٹی میں اپنے پورے عروج پر پر موجودہ قابض انتظامیہ کی سرپرستی میں جاری و ساری ہے. اس کام میں یہ لوگ اتنے ماہر و نڈر ہو چکے ہے کے یہ لوگ ہائر ایجوکیشن کمیشن (اچ ای سی) اسکے ماتحت اداروں اور پاکستان انجینرنگ کونسل کو غلط بیانی و جعلی ڈیٹا دینے میں بھی نہیں چوکتے اور دھڑلے سے فیل طالبعلموں کو پاس ظاہر کرتے ہے کبھی اپنی مرضی و سہولت سے طالبعلموں کی پرسنٹیج و گریڈ / جی پی اے میں ردوبدل کرتے ہے. یہ تمام کام یونیورسٹی کی اعلی انتظامیہ اور ایگزامینیشن ڈیپارمنٹ کے سربراہ و اسٹاف کی ملی بھگت سے ہو رہا ہے. جو یقینن محنتی و قابل طالبعلموں و اساتذہ کے ساتھ تذلیل و دھوکھا کے برابر ہے. موجودہ انتظامیہ نے پاکستان انجینرنگ کونسل کے قوانین کی خلافورزی کرتے ہووے قانون کو جوتے کی نوک پر رکھ کر ہوا میں اڑا رہی ہے اور1010 – 2011کے انرولمنٹ والے فیل طالبعلم کو 2022 2023 میں سول انجینرنگ کی اعلی ڈگری سے نوازا جب کے اس کی ینرومنٹ کی معیاد ختم ہو چکی تھی پر جاوید انور (سابقہ چانسلر) و ارشاد خان (سابقہ جنرل سیکٹری) کے منظور نظر ہونے کی وجہ سے یہ غیر قانونی کام کیا گیا. ایگزامینیشن ڈیپارمنٹ کے ہیڈ و کنٹرولر ایگزامینیشن روشن ضمیر جو اپنے نام کی طرح کافی روشن خیال و روشن دماغ ہے موصوف دھڑلے سے جعلی ڈگری و ویریفیکیشن / تصدیق میں ملوث ہے اوپر سے موصوف کو انتظامیہ (جاوید انور، ارشاد خان) و رجسٹرار سرفراز علی کی بھرپور معاونت حاصل ہے. موصوف کی خصوصیت یہ ہے کے وہ اپنے ڈیپارمنٹ میں ہونے والے تمام کالے دھندوں و کاموں کی کوئی ذمےداری قبول نہیں کرتے پکڑے جانے کی صورت میں تمام الزام و ذمداری اپنے نچلے اسٹاف پر ڈال کر بری ذمہ ہو جاتے ہے. مصوف کو جاب سے نکلوا کر کسی دوسرے کی تلاش میں نکل جاتے ہے. انکوئری کمیٹی سے لے کر انتظامیہ کے تمام ارکان اپنے ہم خیال رکھے جاتے ہے جو انکوئری رپورٹ میں اصل مجرم کو بچا کر نچلے اسٹاف کو قربانی کا بکرا بنا کر جاب سے فارغ کروا دیتے ہے. پچھلے سالوں میں چار سے پانچ لوگ ان کی حرامکاریوں و مجرمانہ فعل کی بھینٹ چڑھ چکے ہے. روشن ضمیر کے اپنا خاص ماتحت شہروز جو جعلی ڈگری کے کام میں ملوث پایا گیا جس نے تمام جعلی ڈگری کا کام روشن ضمیر کے کہنے پر کیا جس میں روشن ضمیر نے کافی مال بھی بنایا جعلی ڈگری پکڑی جانے کی صورت میں روشن ضمیر بچ گئے شہروز کو جاب سے فارغ کر دیا گیا. رضوان ایگزامینیشن ڈیپارمنٹ میں تھا جو کے چھٹیوں پر تھا اس کی ای ڈی استعمال کر کے جعلی ڈگری روشن ضمیر نے ویریفائی کروائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کو غلط و جعلی ڈیٹا بیچا گیا معاملات کھلنے پر روشن ضمیر پاک صاف قرار پاے گئے اور رضوان کو بغیر انکوئری کے جاب سے فارغ کروا دیا گیا. رسمن انکوئری کروائی بھی گئی تو ووہ بھی اپنے ہمخیال پروفیسر محبوب (سول انجینرنگ) جن کا کام ہی مینجمنٹ کی جی حضوری و تلوے چاٹنا اور معصوم لوگووں کو چن چن غلط انکوئری رپورٹ لکھ کر جاب سے نکلوانا اور بڑے گدھ و مگرمچھوں کو بچانا ہے. کبھی راشد صاحب کو قربانی کا بکرا بنا کر فارغ کروایا تو کبھی رضوان کو تو کبھی شہروز کو. اور جو ثبوت انتظامیہ کے کسی بڑے آدمی کے خلاف ا بھی جاتے تو اس کو دبا کر غائب کروا دیا جاتے. محبوب اس کام کے ماہر ہے اور موصوف جعلی انکوئری کرنے اور رپورٹ لکھنے کے چار لکھ سے زیادہ پیسے لیتے ہے. ان بے ضمیر لوگوں کی وجہ سےلاتعداد جعلی ڈگریاں مارکیٹ میں گھوم رہی کوئی پوچھ اے والا نہیں. کیا ان لوگوں کو الله کو موں نہیں دکھانا انشاءاللہ ان پر الله کی لعنت و قہر نازل ہو گا اور یہ بھی نشان عبرت بنے گے. جعلی ڈگری کیس کے اصل مجرم تو جاوید انور، ارشاد خان، رجسٹرار سرفراز احمد، روشن ضمیر(کنٹرولر ایگزامینیشن) اور ان کے سہولت کار ڈاکٹر محبوب ہے. اصل انکوئری و رپورٹ تو ان کے خلاف ہونی چاہیے. انشاءاللہ وقت دور نہیں انصاف ہو گا.