اقوام متحدہ۔(مانیٹرنگ ڈیسک ) پاکستان نے کہا ہے کہ اس نے خوراک، ایندھن اور مالیات کے بحرانوں سےنمٹنے کے باوجود پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جیز ) پر عمل درآمد میں پیش رفت کی ہے جن کا مقصد غربت کا خاتمہ، کرہ ارض کی حفاظت اور ہر جگہ ہر کسی کی زندگی کو بہتر بنانا ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے قائم مقام مستقل نمائندہ عثمان جدون نے اقوام متحدہ کی اقتصادی اور سماجی کونسل (ای سی او ایس او سی) کے زیراہتمام منعقدہ اعلیٰ سطحی سیاسی فورم (ایچ ایل پی ایف ) کے عمومی مباحثے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کے لئے اقوام متحدہ کے 2030 کے ایجنڈے کو اپنی قومی ترقی کی پالیسیوں اور منصوبوں میں شامل کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے پاکستان کے لیے ایس ڈی جیز کے نفاذ میں پیش رفت کی ہے تاہم، دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح، پاکستان کو بھی 2030 تک ایس ڈی جیز کو حاصل کرنے میں بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستانی نمائندہ نے ترقی پذیر ممالک کو پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول میں مدد کے لیے زیادہ سے زیادہ مالی مددپر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کی ہماری کوششوں میں خوراک، ایندھن اور مالیات کے بحرانوں کی وجہ سے رکاوٹ پیدا ہوئی اور 2022 کے تباہ کن سیلاب کے باعث ان مشکلات میں مزید اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں 33 ملین افراد متاثر ہوئے اور 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا۔انہوں نے کہا کہ اس کے باوجودپاکستان ایس ڈی جیز کے حصول کے لیے اپنی قومی کوششوں کو تیز کرنے کے لیے پرعزم ہے اور اس سلسلے میں ہم پاکستان کے 20 غریب ترین اضلاع کی ترقی کے لیے ایک خصوصی ترقیاتی سکیم نافذ کر رہے ہیں۔ انہوں نے ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں کہا کہ پاکستان لوینگ انڈس انیشی ائیٹو پر عمل درآمد کر رہا ہے، جو 25 منصوبوں کا ایک مینو ہے جس کا مقصد دریائے سندھ کے پانی (انڈس ریور بیسن)کی ماحولیاتی صحت کو بحال کرنا ہے۔ہم نے 2030 تک اپنی توانائی کا 60 فیصد قابل تجدید ذرائع سے پیدا کرنے کا عہد کیا ہے۔ ہم نے اپنی ابتدائی وارننگ کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے بھی اہم اقدامات کیے ہیں، جس میں سیلاب سے بچاؤ کے قومی منصوبے کو اپ ڈیٹ کرنا بھی شامل ہے لیکن ترقی پذیر ممالک کو پائیدار ترقیاتی اہداف کو حاصل کرنے میں درپیش چیلنجزسے صرف عمل درآمد کے مطلوبہ ذرائع کی فراہمی سے ہی نمٹا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ اس وقت ایس ڈی جی فنانسنگ گیپ 4 ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہے جبکہ 2030 تک سالانہ 215 سے387 بلین ڈالر کے درمیان ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ سرکاری ترقیاتی امداد ( او ڈی اے ) کے وعدوں کو بڑھانا اور پورا کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی مالیاتی ڈھانچے میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں ترقی پذیر ممالک کو نئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز تک مساوی رسائی حاصل کرنے کے لیے شمال اور جنوب کی ڈیجیٹل فرق کو ختم کرنا چاہیے تاکہ اسے ترقی پذیر ممالک کی ضروریات کے مطابق زیادہ مساوی اور جوابدہ بنایا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ ایس ڈی جیز ایک خوشحال، پرامن اور پائیدار مستقبل کا خاکہ ہیں اور دنیا ستمبر میں نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں ہونے والے سربراہی اجلاس ’’سمٹ آف فیوچر ‘‘ کی طرف دیکھ رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری توجہ 2030 تک ایس ڈی جیز کو حاصل کرنے کے لیے درکار ٹھوس اقدامات پر متفق ہونے پر مرکوز ہونی چاہیے۔