فیصل آباد(نمائندہ خصوصی )فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ کے نواحی قصبے روڈالا کے مین بازار میں سڑک کنارے بیٹھا منور شکیل پچھلی3 دہائیوں سے دیہاتیوں کے پھٹے پُرانے جوتے مرمت کرنے میں مصروف ہے۔لیکن حالیہ برسوں میں منور کی عارضی دکان پر جوتے مرمت کروانے والے گاہکوں سے زیادہ اُن کی تلخ اور شریں حقیقتوں پر مبنی شاعری سُننے والوں کا رش لگا رہتا ہے۔ منور پنجابی شاعری کی 5 کتابوں کے مصنف ہیں اور اپنی شاعری کی وجہ سے شہر کے مضافاتی علاقوں کی رہتل اور لوگوں کی زندگیوں کی حقیقتوں کا ترجمان مانے جاتے ہیں۔1969ء میں پیدا ہونے والے منور شکیل نے ہوش سے پہلے ہی اپنے باپ کو کھو دینے اور رسمی تعلیم سے یکسر محروم رہنے کے باوجود 13 سال کی کم عمری میں شاعری کا آغاز کیا اور اُن کی پہلی کتاب ‘سوچ سمندر’ 2004ء میں منظرِ عام پر آئی۔انھوں نے بتایا کہ وہ خاندانی موچی ہیں۔”میں سارا دن جوتوں کی مرمت اور صبح سویرے قصبے کی دکانوں پر اخبار فروشی کرکے اڑھائی سے 3 سو روپے کماتا ہوں جن میں سے روزانہ 10 روپے اپنی کتابیں شائع کروانے کے لیے جمع کرتا رہتا ہوں”۔منور کی دوسری کتاب ‘پردیس دی سنگت’ 2005ء، تیسری کتاب ‘صدیاں دے بھیت’ 2009ء، چوتھی ‘جھورا دُھپ گواچی دا’ 2011ء اور پانچویں ‘آکھاں مٹی ہو گیئاں’ 2013ء میں شائع ہوئی۔اُن کی اب تک شائع ہونے والی تمام کتابیں ایوارڈ یافتہ ہیں۔وہ رویل ادبی اکیڈمی جڑانوالہ اور پنجابی تنظیم نقیبی کاروان ادب کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ آشنائے ساندل بار، پاکستان رائٹرز گلڈ اور پنجابی سیوک جیسی ادبی تنظیموں سے اب تک کئی ایوارڈز اپنے نام کر چُکے ہیں۔
اپنی شاعری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ مختلف طبقات میں تقسیم ہمارے معاشرے میں نچلے طبقے کے لوگوں کو درمیانے اور اعلیٰ طبقے کے لوگوں کی طرف سے روزمرہ زندگی میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن کمزور لوگوں کے ساتھ کیے جانے والے اس سلوک کے خلاف آواز اُٹھانے والا کوئی نہیں۔”میں اپنی شاعری کے ذریعے نچلے طبقے کی آواز بننا چاہتا ہوں اور جو باتیں براہ راست نہیں کیں جا سکتیں اُنھیں اپنی شاعری کے ذریعے دوسروں تک پہنچانا چاہتا ہوں۔”اینوں کنے پانی دِتا، اینوں کنے بویا اےپتھر دے جو سینے اتے، بُوٹا اُگیا ہویا اےانھوں نے بتایا کہ "بچپن میں میری خواہش تھی کہ میں پڑھ لکھ کر نام کماؤں لیکن ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی والد کی وفات اور مالی وسائل کی کمی کے پیش نظر ایسا ممکن نہ ہو سکا تو میں نے خود کتابیں خرید کر مطالعہ شروع کیا اور اب کام سے واپس جا کر 3 سے 4 گھنٹے کتاب نہ پڑھوں تو نیند نہیں آتی۔”وہ کہتے ہیں کہ اپنی ماں بولی پنجابی اور اُن کا تعلق وہی ہے جو ایک بیٹے کا اپنی ماں کے ساتھ ہوتا ہے۔”پنجابی پنجاب میں رہنے والے لوگوں کی مادری زبان ہے اور یہ اُن کا بنیادی حق ہے کہ انھیں اس زبان میں تعلیم دی جائے اور حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ پنجابی سمیت تمام علاقائی زبانوں کے فروغ کے لیے اقدامات کرے”۔اُن کا ماننا ہے کہ ایک اچھے شاعر کے لیے لازمی ہے کہ اس کے دل میں انسانیت کے لیے درد ہو جسے محسوس کرتے ہوئے وہ اپنے الفاظ کو شاعری میں ترتیب دے سکے۔انھوں نے بتایا کہ اُن کی 112 غزلوں پر مشتمل چھٹی کتاب ‘تانگھاں’ رواں سال کے آخر تک شائع ہو جائے گی۔”محنت میں عظمت ہوتی ہے۔ مجھے جوتے مرمت کرنے میں کوئی شرمندگی نہیں لیکن میں چاہتا ہوں کہ لوگوں میں شعور پیدا ہو اور وہ کتابوں کا مطالعہ شروع کریں تاکہ ہم بھی ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑے ہو سکیں۔” منور شکیل کے ادبی استاد غلام مصطفیٰ آزاد نقیبی کہتے ہیں کہ منور نے اپنی شاعری کمزور لوگوں کی نبض پر ہاتھ رکھ کر کی ہے جو عشق، صحبت حُسن، زلف اور رخسار وغیرہ کے قصوں سے نہیں بلکہ عام لوگوں کی ضروریات، خواہشات اور مشکلات سے نتھی ہے۔اُن کا کہنا ہے کہ مضافات میں رہنے والے لوگوں میں صلاحیتوں کی کمی نہیں ہوتی لیکن مالی وسائل کی کمی کے باعث وہ دوسروں سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔