اسلام آباد۔: (نمائندہ خصوصی ):سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کو بتایا گیا ہے کہ 24اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کر لیا گیا ہے، پی آئی اے، روزویلٹ ہوٹل، ہائوس بلڈنگ فنانس کمپنی لمیٹڈ، فرسٹ وویمن بینک لمیٹڈ کی نجکاری اسی سال مکمل ہو نے کی امید ہے، وفاقی حکومت سے منظور شدہ نجکاری پروگرام کو شفافیت کے ساتھ عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے، نجکاری کا عمل عوامی پیشکش کے تحت ہو رہاہے اور متعلقہ وزارتوں سے رائے بھی لی جاتی ہے ۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کا اجلاس جمعہ کو یہاں چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد طلال بدر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں وزارت نجکاری اور اس کے ماتحت اداروں کی مجموعی کارکردگی اور کام کے طریقہ کار کے علاوہ وزارت نجکاری سے آئندہ ایک سال کے نجکاری پروگرام کی تفصیلات کے امور کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد طلال بدر نے اراکین کمیٹی اور وزارت کے نمائندوں کو خوش آمدید کرتے ہوئے کہا کہ اراکین کمیٹی اور وزارت کے ساتھ مل کر ملک کی معیشت کی بحالی اور نجکاری کے عمل کو شفاف سے شفاف تر بنانے کے لئے لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا، یہ وزارت واحد امید ہے جو اگر احسن طریقے سے نجکاری کے عمل پر عملدرآمد کرے تو ملکی معیشت بھنور سے نکل سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومتیں بزنس نہیں کرتی بلکہ اداروں کو ریگولیٹ کرتی ہیں اور یہ حکومت کا اولین فرض ہوتا ہے کہ وہ ادارے جو قومی نقصان کا سبب بن رہے ہوں ان کو ترقی کی جانب گامزن کر سکے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو اس کے لئے موثر لائحہ عمل اختیار کرے اور ملک کو نقصان سے بچایا جا سکے ۔ اراکین کمیٹی نے چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد طلال بدر کو چیئرمین کمیٹی منتخب ہونے مبارکباد پیش کرتے ہوئے بھرپور تعاون کا یقین دلایا اور کہا کہ سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر ملکی ترقی و خوشحالی کیلئے مل کر کام کریں گے۔سیکرٹری وزارت نجکاری نے قائمہ کمیٹی کو تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ نجکاری کے امور میں شفافیت کا پہلو نہ صرف حکومت اورملک کے لئے اہم ہوتا ہے بلکہ اس سے عوام کی حالت زار بھی بہتر ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت سے منظور شدہ نجکاری پروگرام کو شفافیت کے ساتھ عملی جامہ پہنانا اس ادارے کا کام ہے۔ ادارے کاکام نجکاری کے حوالے سے پالیسیز بنانا ہے جو نجکاری بورڈ میں پیش کی جاتی ہے۔ نجکاری بورڈ سفارشات وفاقی کیبنٹ میں پیش کرتا ہے اور وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد اس پر عمل شروع کر دیا جاتا ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ نجکاری ڈویژن میں 82 آسامیاں ہیں جن میں سے 17 خالی ہیں۔ گریڈ17 اور اس سے اوپر کی کل12 آسامیاں ہیں۔ گریڈ ایک سے16 تک 70 آسامیاں ہیں۔نجکاری کمیشن میں 143 پوسٹیں ہیں جن میں سے 20 خالی ہیں۔24 گریڈ 17 اور اس سے اوپر کی اسامیاں ہیں اور 119 گریڈ ایک سے16 کی آسامیاں ہیں۔ قائمہ کمیٹی کو نجکاری ڈویژن اور نجکاری کمیشن کے بجٹ کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا گیا۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ نجکاری کمیشن کو بجٹ حکومت کی جانب سے دیا جاتا ہے۔ نجکاری کمیشن کو فنڈز بجٹ کی گرانٹس اور نجکاری فنڈ کے ذریعے فراہم کی جاتی ہے۔ قائمہ کمیٹی کو نجکاری کمیشن کے قیام ، پالیسی فریم ورک اور افعال بارے بھی آگاہ کیا گیا۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ نجکاری کمیشن کا ایک بورڈ ہے جس کا ایک چیئرمین اور 8 ممبران ہوتے ہیں۔نجکاری پر ایک کیبنٹ کمیٹی بھی بنائی گئی ہے جس کے چیئرمین وزیر خارجہ امور ہوتے ہیں اور اس کے ممبران میں وزیر خزانہ، وزیر تجارت، وزیر توانائی، وزیر صنعت وپیداوار اور وزیر نجکاری شامل ہوتے ہیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ حکومت نے نجکاری کمیشن رولز بنانے کے اختیارات بھی دئیے ہیں۔ قائمہ کمیٹی کو بنائے گئے مختلف رولز کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا گیا۔سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ نجکاری کمیشن کا بجٹ 8 ارب کا ہے جبکہ وزارت کا بجٹ کم ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ نجکاری کا عمل عوامی پیشکش کے تحت ہو رہا ہے اور نجکاری کیے جانے والے اداروں میں متعلقہ وزارتوں سے رائے بھی لی جاتی ہے اور بورڈ میں ان منصوبوں کی نمائندگی کے لئے وزارت کے لوگ بھی ہوتے ہیں۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیاکہ فنانشنل ایڈوائز ہائیر کرنے پر بہت خرچ ہوتاہے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ قائمہ کمیٹی کو گزشتہ پانچ برسوں کا بجٹ، اخراجات سے متعلقہ تفصیلات فراہم کی جائیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ گزشتہ 15 برسوں میں کوئی بڑی ٹرانزکشن نہیں کی گئی۔یہ بھی آگاہ کیا گیا کہ پاکستان سٹیل ملز کو نجکاری سے نکال دیا گیا ہے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ فنانشنل ایڈوائرز پر آج تک جتنا خرچہ ہوا ہے اور وہ کام پورا کئے بغیر چلے گئے ہیں ان کی تفصیلات بھی فراہم کی جائیں۔ چیئرمین کمیٹی نے نجکاری کے لئے کوششوں اورگزشتہ 15 سالوں میں فنانشنل ایڈوائز ز پر آنیوالے اخراجات کی تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کی ۔ سینیٹر فیصل سلیم رحمان نے کہا کہ جب فنانشل ایڈوائز نے کام ٹھیک نہیں کیا تو کیا ان سے ریکوری کر سکتے ہیں۔ قائمہ کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ کل 84 اداروں کی مختلف وزارتوں میں نجکاری کے لئے کی نشاندہی کی گئی تھی جن میں 24 اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور 41 کیبنٹ کے پاس ہیں۔24 اداروں میں سے 4 ادارے جن میں پی آئی اے کمپنی لمیٹڈ، روزویل ہوٹل، ہاؤس بلڈنگ فنانس کمپنی لمیٹڈ، فرسٹ وویمن بینک لمیٹڈ کی نجکاری امید ہے اسی سال مکمل ہو جائے گی۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ نجکاری کا عمل ایک سے 5 سال کے دوران تین مراحل میں مکمل ہو گا۔نجکاری کا عمل قانونی تقاضوں کے تحت عمل میں لایا جا رہا ہے۔ قائمہ کمیٹی نے خسارہ میں جانے والے سرکاری اداروں کی تفصیلی رپورٹ بھی طلب کر لی۔اراکین کمیٹی نے کہا کہ کچھ ادارے منافع میں ہیں ان کی نجکاری کیوں کی جا رہی ہے جس پر کمیٹی کو بتایا گیا کہ ابھی منافع کم ہورہا ہے نجکاری کے بعد منافع بڑھ جائے گا۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ فرسٹ ویمن بینک، ہاؤس بلڈنگ فنانس، پی آر سی ایل اور سٹیٹ لائف منافع بخش ادارے ہیں۔ بجلی کی نو تقسیم کار کمپنیوں کی پانچ سال میں نجکاری کی جائے گی۔ تین تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کیلئے فنانشل ایڈوائزر کی تعیناتی اسی سال ہو جائے گی۔سیکرٹری نجکاری ڈویژن نے کہا کہ پی آئی اے کارپوریشن لمیٹڈ، روزویلٹ ہوٹل، ہاؤس بلڈنگ، فرسٹ ویمن بینک کی نجکاری اسی سال ہوگی۔انہوں نے کہا کہ پی آئی اے نے 800 ارب روپے کے واجبات ادا کرنے ہیں۔ پی آئی اے کو حکومت ہر سال 100 سے 125 ارب دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بینک آف پنجاب، سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک، حبیب بینک، نیشنل بینک سمیت 9 بینکوں کے 260 ارب روپے پی آئی اے کے ذمہ واجب الادا ہیں ۔پی ایس او کے 20 ارب روپے اور سول ایوی ایشن 120 کے ارب روپے کے بقایاجات ہیں، سیکرٹری نجکاری کمیشن نے کمیٹی کو بتایا کہ ہمارا یہ ہدف ہے پی آئی اے کیلئے 6 بڈرز میں سے زیادہ سے زیادہ بڈنگ آئیں۔پی آئی اے کے کل اثاثے 160 ارب روپے کے ہیں۔ پی آئی اے کی نجکاری میں اتنے بڑے واجبات کی وجہ سے کمپنیاں دلچسپی نہیں لے رہی تھیں۔ دنیا بھر میں یہی ہوتا ہے کہ کسی بھی سرکاری کمپنی کے واجبات حکومت اپنے ذمہ لے لیتی ہے تاکہ اس کی نجکاری ہو سکے۔حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ 600 ارب کی ادائیگی پی آئی اے کمپنی لمیٹڈ سے نکال دی گئی ہے اور اس کو کور اور نان کور میں تقسیم کرکے ود ہولڈنگ کمپنی میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔600 ارب و د ہولڈنگ کمپنی میں جائیں گے اور 200 ارب کور کمپنی میں رہ جائیں گے۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2015 سے اب تک پی آئی اے نے 500 ارب کا خسارہ کیا۔ پی آئی اے نے 25 فیصد سالانہ شرح سود سے قرض حاصل کیا تھا بینکوں سے بات کر کے اسے 12 فیصد پر لایا گیا ہے۔ ورز ویلٹ ہوٹل کے حوالے سے قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس کی رپورٹ تیار کر لی گئی ہے۔ بورڈ اس کی تجاویز تیار کر کے وفاقی کابینہ میں پیش کرے گا۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ متحدہ عرب امارات نے فرسٹ ویمن بینک میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔وفاقی کابینہ نے فروری 2024 میں بین الحکومتی ماڈل پر ٹرانزیکشن کی منظوری دی ہے۔نجکاری کمیشن نے نجکاری کے عمل کو جی ٹو جی بنیاد پر آگے بڑھانے کا آغاز کردیا ہے۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کیلئے تکنیکی کنسلٹنٹ ہائرکرلیا گیا ہے اور ٹیکنیکل کنسلٹنٹ ستمبر 2024 تک منصوبہ پیش کرے گا۔ قائمہ کمیٹی نے وزارت نجکاری سے نجکاری کی لسٹ میں شامل اداروں کی تفصیلات کا ڈیٹا بھی طلب کر لیا۔ اجلاس میں سینیٹرز بلال احمد خان، خالدہ طیب، فیصل سلیم رحمان، خلیل طاہر، محسن عزیز، محمد قاسم، ندیم احمد بھٹو کے علاوہ سیکرٹری وزارت نجکاری، سیکرٹری نجکاری کمیشن اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔