اسلام آباد۔(مانیٹرنگ ڈیسک ):وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اﷲ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کا تفصیلی فیصلہ آنے پر قانونی ماہرین سے مشاورت کے بعد نظرثانی کا فیصلہ کیا جائے گا، تحریک انصاف کو اس فیصلہ میں وہ ریلیف دیا گیا جس کی استدعا ہی نہیں کی گئی،سنی اتحاد کونسل میں بیان حلفی دے کر شمولیت اختیار کرنے والے ارکان کو کسی دوسری جماعت میں شامل ہونے پر الیکشن کمیشن ڈی سیٹ کر سکتا ہے۔موجودہ حکومت کا بنیادی ایجنڈا ملک کو معاشی بحران سے نکالنا ہے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔رانا ثناء اﷲ نے کہا کہ ہمیں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا احترام ہے، اس کے ججز بہترین اور لائق احترام ہیں، انہوں نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے اور یہ ان کی بنیادی ذمہ داری ہے، عدلیہ کے فیصلے نہ صرف انصاف پر مبنی بلکہ ان میں انصاف ہوتا بھی نظر آنا چاہئے، عدالتی فیصلے عام فہم ہونے چاہئیں، مبہم فیصلے کبھی ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہوتے۔رانا ثناء اﷲ نے کہا کہ سپریم کورٹ میں مقدمہ یہ تھا کہ کچھ لوگوں نے آزاد امیدوار کے طور پر عام انتخابات میں حصہ لیا اور کامیابی حاصل کرنے کے بعد آئین و قانون کے مطابق تین دن کے اندر باقاعدہ بیان حلفی دے کر وہ سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے جس کے بعد سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں میں حصہ مانگا تاہم الیکشن کمیشن نے مؤقف اختیار کیا کہ سنی اتحاد کونسل نے بطور جماعت الیکشن میں حصہ نہیں لیا اس لئے انہیں یہ نشستیں نہیں دی جا سکتیں، اس فیصلہ کے خلاف سنی اتحاد کونسل پشاور ہائی کورٹ گئی جہاں اس فیصلے کو برقرار رکھا گیا، پھر سنی اتحاد کونسل سپریم کورٹ میں گئی تاہم سپریم کورٹ کا فیصلہ سنی اتحاد کونسل کے حق میں نہیں آیا،سنی اتحاد کونسل کی استدعا تسلیم نہیں کی گئی بلکہ اب فیصلہ تحریک انصاف کے حق میں آیا، تحریک انصاف نے مخصوص نشستوں کا دعویٰ کیا ہی نہیں کیونکہ آزاد ارکان تحریک انصاف میں شامل ہی نہیں ہوئے تاہم کاغذات نامزدگی میں کہیں پی ٹی آئی سے پارٹی وابستگی کے جواز کی بنیاد پر فیصلے میں یہ قرار دیا گیا کہ 39 ارکان کا تعلق تحریک انصاف سے ہے جبکہ باقی 41 سے دوبارہ ان کی رائے پوچھنے کا حکم دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 51 اور 106 قطعی طور پر اس صورتحال کو قبول نہیں کرتے، یہ فیصلہ قانون کو دوبارہ لکھنے کے مترادف ہے، اسی طرح کا ایک فیصلہ آرٹیکل 63 اے سے متعلق کیس میں بھی آیا تھا جس کو تمام قانونی ماہرین نے آئین کو دوبارہ لکھنے کے مترادف قرار دیا تھا۔ رانا ثناء اﷲ نے کہا کہ اگر کوئی ممبر بیان حلفی دے کر ایک جماعت میں شامل ہوا ہے تو وہ پھر کسی دوسری جماعت میں شامل ہو گا تو اس سے نئی مقدمہ بازی شروع ہو گی۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد قانونی ٹیم حکومت کو جو رائے دے گی اس کی روشنی میں آگے بڑھا جائے گا، اس فیصلہ سے کچھ ارکان بھی متاثر ہوئے ہیں وہ بھی اس کے خلاف نظرثانی میں جا سکتے ہیں، حکومت کے پاس بھی نظرثانی کا آپشن موجود ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں کے حوالہ سے غلط تشریح کی تھی تو تحریک انصاف کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے آزاد جیتنے والے ممبران کو پی ٹی آئی میں شامل کرتی، اگر پی ٹی آئی نے غلطی کی تو اسے بھگتنی چاہئے، کیا اس غلطی کا ازالہ کرنا عدالت کی ذمہ داری ہے؟ عدالتوں کو سیاسی تنازعہ میں نہیں پڑنا چاہئے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس اکثریت موجود ہے، پنجاب، سندھ اور بلوچستان سمیت کہیں بھی اس فیصلے کے حکومت پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم سیاسی ڈائیلاگ پر پہلے بھی تیار تھے اور اب بھی تیار ہیں تاہم تحریک انصاف اس سے انکاری تھی، وزیراعظم نے بجٹ کے دوران فلور آف دی ہائوس پھر ڈائیلاگ کی پیشکش کی ہے تاہم یہ قانون و انصاف کے مطابق ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی حکومت کے ساتھ ہے، پیپلز پارٹی کے ارکان اور قیادت نے وفاقی بجٹ میں بھرپور حصہ لیا اور اس میں حکومت کی حمایت کی، نواز شریف پنجاب اور وفاق کی حکومتوں کو لیڈ کر رہے ہیں، موجودہ حکومت کا بنیادی ایجنڈا ملک کو معاشی بحران سے نکالنا ہے، 2017ء میں جب ہماری حکومت تھی تو اس وقت کوئی معاشی بحران نہیں تھا، تب آئی ایم ایف سے معاہدہ ہم نے نہیں کیا، یہ معاہدہ کس نے کیا سب کو معلوم ہے، امید ہے کہ آنے والا بجٹ مشکلات اور پریشانیوں کو دور کرنے والا بجٹ ہو گا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ الیکشن ٹربیونل کی جانب سے آنے والے فیصلوں پر نظرثانی کا اختیار ہے، اگر وہاں سے بھی کسی رکن کے خلاف فیصلہ آتا ہے تو اس حلقہ میں دوبارہ انتخابات ہوں گے، 2018ء میں ہم نے آر ٹی ایس کے بیٹھ جانے کا کہا تو اس وقت ہمیں کہا گیا تھا کہ اب حکومت بن چکی ہے اس لئے جوڈیشل کمیشن کی بجائے پارلیمانی کمیشن بناتے ہیں، اسلام آباد کی تین نشستوں پر عذر داریاں مقررہ میعاد کے بعد دائر کی گئی ہیں، ایسی عذر داریاں مسترد ہو جاتی ہیں۔