اسلام آباد: (نمائندہ خصوصی )وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات، قومی ورثہ و ثقافت عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی چینل کے اشتہارات بند نہیں کئے گئے، غیر ملکی فلموں سے مقامی فلم انڈسٹری متاثر نہیں ہونی چاہئے، ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی کے معاملہ پر مشاورت جاری ہے، سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ”ایکس“ پر پابندی نگران دور میں عائد ہوئی، ہم نے صحافیوں کیلئے ہیلتھ انشورنس سکیم بحال کی۔ یہ بات انہوں نے بدھ کو یہاں پارلیمنٹ ہائوس میں سینیٹر سید علی ظفر کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے کہی۔اجلاس میں سینیٹر خالدہ عطیب اور سینیٹر کامران مرتضیٰ کے ناموں کی نیشنل پالیسی بورڈ میں بطور ممبران منظوری دی گئی جبکہ وزارت اطلاعات و نشریات اور اس کے ماتحت اداروں کے کام کے طریقہ کار، ذمہ داریوں سے متعلقہ امور اور فائر وال کے حوالے سے متعلقہ امور پر بریفنگ حاصل کی گئی۔ اجلاس کے آغاز میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے سینیٹر سید علی ظفر کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کا چیئرمین بننے پر مبارکباد دی۔ انہوں نے کہا کہ ہم جمہوری روایات کے امین ہیں، وزارت اطلاعات قائمہ کمیٹی کو ہر ممکن تعاون فراہم کرے گی، ہم کمیٹی کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ہمارے قائدین نے ہمیں سکھایا ہے کہ سیاسی مخالف زخمی ہو تو اس کے گھر جا کر اس کی تیمار داری کی جائے، سیاسی مخالف کی خاطر اپنی الیکشن مہم کو معطل تک کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی مخالفت سیاسی دشمنی نہیں ہوتی، سیاسی مخالفین سے پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لئے بات چیت کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاست کے اندر ایک دوسرے کی خوشی غمی میں شریک ہونے کو فروغ ملنا چاہئے، ماضی میں ہم اس پر عمل پیرا ہوئے۔ ہمارے قائد نواز شریف نے ہمیشہ پارلیمان کی بالادستی کو ترجیح دی، ان کے دور حکومت میں خارجہ پالیسی کے اہم اور سنجیدہ معاملات پر پہلی مرتبہ ایوان میں ووٹنگ سے فیصلہ ہوا۔وفاقی وزیر نے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے 2017 میں اطلاعات تک رسائی کے قانون کا سہرا بھی تمام پارلیمنٹیرین کو جاتا ہے، یہ اقدام اس وقت کی حکومت نے نواز شریف صاحب کی قیادت میں اٹھایا تھا۔ عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ ہم نے ماضی سے سیکھا ہے، یہ وقت کا دھارا ہے کہ کل ہم اپوزیشن بینچوں پر تھے اور آج حکومت میں ہیں، کل کون اقتدار میں ہوگا یہ کوئی نہیں جانتا، ہم اپنے عمل سے پہچانے جائیں گے اور تاریخ بھی ہمیں اسی پیرائے میں جانچے گی۔ انہوں نے کہا کہ ملکی مفادات کے لئے اقدامات سے متعلق آپ ہمیں اپنے آپ سے ہمیشہ ایک قدم آگے پائیں گے۔میڈیا ورکرز اور صحافیوں کے واجبات کی ادائیگی کے حوالے سے کمیٹی کو آگاہ کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ہم نے نیوز انڈسٹری کے 1.6 ارب روپے کے واجبات ادا کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں نیوز پرنٹ پر کوئی ٹیکس نہیں لگنے دیا، وزارت نے اس بات پر زور دیا ہے کہ رپورٹرز اور عملے کو تنخواہوں میں اضافہ دیا جائے، ان تمام اقدامات کے فوائد میڈیا ہائوسز اور اخبارات کے ملازمین کو ملنے چاہئیں اور ان کے واجبات ادا ہونے چاہئیں۔ صحافیوں اور میڈیا ورکرز کا استحصال نہیں ہونا چاہئے۔اس موقع پر سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ آئندہ اجلاس میں صحافی تنظیموں کے نمائندوں کو بلاکر پوچھا جائے کہ یہ فوائد ورکرز کو مل رہے ہیں یا نہیں جس پر وزیر اطلاعات نے کہا کہ پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے) نے تحریری پریس ریلیز میں اس کو انشور کیا ہے، ہمارے پاس آئی ٹی این ای کا فورم موجود ہے، اس فورم پر جو بھی جاتا ہے اس کی بات سنی جاتی ہے، اس فورم کے ذریعے متاثرہ صحافیوں اور میڈیا ورکرز میں واجبات کے متعدد چیک تقسیم کئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ معاملات آئی ٹی این ای کے فورم پر جانے کی بجائے میڈیا ہائوسز کو اپنے طور پر طے کرنے چاہئیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ اس وقت کسی بھی پرائیویٹ ٹی وی چینل کے اشتہارات بند نہیں کئے گئے، سب کو ان کی رینکنگ کے مطابق اشتہارات مل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں دوہزار اخبارات ہیں، ان دو ہزار میں سے دو سو اخبارات اے پی این ایس کے رکن ہیں، ڈمی اخبارات کے حوالے سے اے پی این ایس کو کہا ہے بیٹھ کر لائحہ عمل بنائے۔ قائمہ کمیٹی نے ان اخبارات کی تفصیلات آئندہ اجلاس میں طلب کر لیں۔ سینیٹر عرفان الحق صدیقی نے کہا کہ اے بی سی کے نظام میں شفافیت لانی چاہئے اور اصلاح کی بہت ضرورت ہے۔وزیر اطلاعات نے کہا کہ حکومت پاکستان کا اپنا ڈیجیٹل پلیٹ فارم ہونا چاہئے جس کے لئے پاک چائنہ فرینڈشپ سنٹر میں کام کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سنٹر فار ڈیجیٹل کمیونیکیشن کے نام سے ادارہ بنا رہے ہیں۔ سینیٹر پرویز رشید نے عوام کے لئے انٹرٹینمنٹ ضروریات کو پورا کرنے اور فلموں پر پابندی سے متعلق استفسار کیا جس پر وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ہمیں بھی اپنے بچوں کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں فلموں کو جانچنے کا معیار انتہائی سخت ہے، ملک میں انٹرٹینمنٹ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے اس مقصد کے لئے فلم انڈسٹری کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ غیر ملکی فلموں سے ہماری مقامی فلم انڈسٹری متاثر نہیں ہونی چاہئے، اس میں توازن قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔وفاقی وزیر نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان میں فلم فنانس فنڈ قائم کیا گیا تھا، ہم نے پاکستان کے ممتاز فلم سازوں سے درخواست کی کہ وہ اپنے آئیڈیاز لے کر آئیں، جہاں نیوز، سپورٹس پر فوکس کیا جا رہا ہے وہاں فلم سازی کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلم انڈسٹری کے فروغ کے لئے ہر ممکن کوششیں کی جائیں گی۔ چیئرمین کمیٹی نے صحافیوں کی ہیلتھ انشورنس کے لئے بجٹ سے متعلق استفسار کیا جس پر وفاقی وزیر اطلاعات نے کمیٹی کو بتایا کہ صحافیوں کے لئے ہیلتھ انشورنس سکیم پچھلے دور حکومت میں شروع ہوئی تھی، ہم نے اس اسکیم کو بحال کیا ہے، اسلام آباد کے صحافیوں کی ہیلتھ انشورنس ہم مکمل طور پر کور کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ہیلتھ انشورنس سکیم کے پہلے مرحلے میں پانچ ہزار صحافی و میڈیا ورکرز مستفید ہوں گے، مجموعی طور پر ملک بھر کے 30 ہزار صحافی و میڈیا ورکرز اس سکیم سے مستفید ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر کے تقریباً ایک ہزار ہسپتالوں میں میڈیا ورکرز کو معیاری علاج کی سہولیات میسر ہوں گی۔ قائمہ کمیٹی نے تحریری طور پر تمام تفصیلات طلب کر لیں۔ ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی کے حوالے سے وفاقی وزیر اطلاعات نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ڈیجیٹل ڈومین کے اندر ہونے والے جرائم کا تدارک ضروری ہے، اس وقت ڈیپ فیک ویڈیو جیسے معاملات سے نمٹنے کے لئے کوئی میکنزم موجود نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی کی تجویز آئی تھی، کابینہ میں جب یہ معاملہ آیا تو وزیراعظم کا خیال تھا اس پر کابینہ کمیٹی تشکیل دی جائے، اس کمیٹی کا مینڈیٹ ہے کہ وہ تمام صحافتی تنظیموں، پارلیمنٹیرینز، سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کرے۔ انہوں نے کہا کہ کمیٹی رانا ثناء اللہ کی سربراہی میں قائم ہے جس میں وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی سمیت وہ خود بھی اس کمیٹی کے رکن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اتھارٹی کے قیام کے حوالے سے وسیع بنیادوں پر مشاورت جاری ہے۔ چیئرمین کمیٹی بیرسٹر علی ظفر کی جانب سے سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ”ایکس“ پر پابندی کے حوالے سے استفسار پر وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ”ایکس“ پر پابندی نگران دور میں عائد ہوئی تھی کیونکہ اس پلیٹ فارم پر ”کمپلائنس“ کے ایشوز تھے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں فیس بک، ٹک ٹاک، سنیپ چیٹ، لنکڈن سمیت تمام پلیٹ فارمز فعال ہیں، ٹک ٹاک پر کوئی پابندی نہیں، ہر طرح کا کانٹینٹ وہاں پوسٹ ہوتا ہے، عام آدمی اسے دیکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایکس پر پابندی نگران دور میں لگی، اسلام آباد ہائی کورٹ میں وزارت داخلہ نے اس حوالے سے اپنا جواب داخل کیا ہے، یہ معاملہ عدالت میں ہے، عدالت ہی اس پر مناسب فیصلہ کرے گی۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کوشش کی جائے گی کہ پاکستان کے آئین کے تحت تمام شہریوں کو ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی یقینی بنائی جائے، آزادی اظہار رائے ہر شہری کا بنیادی حق ہے، وزارت کے ساتھ مل کر ایسا لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا جس کے تحت عوام کو نہ صرف حقائق پر مبنی معلومات کی رسائی میسر ہو بلکہ ان اداروں سے متعلقہ لوگوں کے مسائل احسن طریقے سے حل ہوںقائمہ کمیٹی اجلاس میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی کو متوازن کرنا ہوگا، سوشل میڈیا پر جھوٹی اور من گھڑت خبریں پھیلائی جاتی ہیں، دوسروں کی عزت کی دھجیاں نہیں اڑانی چاہیئں، لوگوں کو چاہئے کہ آزادی اظہار رائے کو ذمہ داری سے استعمال کریں۔ رکن کمیٹی جام محمد نے کہا کہ آزادی اظہار رائے کا خیال رکھا جائے، ہمیں جعلی اور من گھڑت خبروں کے تدارک کے لئے حکمت عملی اختیار کرنی چاہئے ہم سب ایک معاشرے کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنا کردار مزید موثر بنانا ہوگا اور اس فورم کو ملک و قوم کے مفاد میں استعمال کرنا ہوگا۔ رکن کمیٹی سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ سوشل میڈیا پر صرف جھوٹ ہی نہیں بولاجاتا جو زبان استعمال کی جاتی ہے وہ ہماری اسلامی اور معاشرتی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتی۔ ارشد شریف کیس کے حوالے سے چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کینیا نے رپورٹ جاری کر دی ہے، قائمہ کمیٹی اس معاملے کو بھی دیکھے گی، اس کیس کی موجودہ صورتحال بارے آگاہ کیا جائے جس پر وزیر اطلاعات نے کہا کہ متعلقہ وزارت کو یہ معاملہ ریفر کر کے کمیٹی کو بریف کرایا جائے گا۔وزارت اطلاعات و نشریات نے قائمہ کمیٹی کو وزارت اور اس کے ماتحت اداروں کے فرائض، ذمہ داریوں اور امور کار کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی۔ اس حوالے سے وفاقی سیکرٹری اطلاعات نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ قومی معاملات پر پالیسی بنانا وزارت اطلاعات و نشریات کا کام ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا سے متعلق حکومتی پالیسیوں اور اقدامات کے معاملات بھی ڈیل کئے جاتے ہیں۔ پرنٹ میڈیا انڈسٹری کی ترقی کے لئے سہولیات کی فراہمی، حکومتی اشتہارات، نیوز پیپر کی آڈٹ سرکولیشن، ڈیجیٹل میڈیا پر حکومتی معاملات کی پروجیکشن اور پروموشن سمیت بیرونی پبلسٹی، براڈ کاسٹنگ وغیرہ کو ڈیل کیا جاتا ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ادارے کی انتظامی، انٹرنل، ایکسٹرنل ونگ، سینٹر آف ڈیجیٹل کمیونیکیشن کے ساتھ ڈیجیٹل میڈیا ونگ بھی ہے۔وزارت اطلاعات کے ماتحت اداروں میں پی آئی ڈی، پیمرا، اے ڈی سی اور سینٹرل بورڈ آف فلمز سینسر شامل ہیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ انفارمیشن سروس اکیڈمی، پیمرا،آئی ٹی این ای، پی سی پی، پی آئی سی، این ٹی پی، پی ٹی وی سی، پی بی سی، اے پی پی سی اور ایس آر بی سی جیسے ادارے بھی وزارت کے ماتحت کام کرتے ہیں۔ ایکسٹرنل پبلسٹی کے حوالے سے قائمہ کمیٹی کوبتایا کہ ایکسٹرنل پبلسٹی کے لئے 21 ممالک میں 23 پوسٹیں ہیں۔ ایکسٹرنل پبلسٹی ونگ وہاں کے کلچر، ثقافت اور روایات کو دیکھتا ہے اور پاکستان کے باہر پاکستان کی پبلسٹی کرتا ہے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر سید علی ظفر نے ایکسٹرنل پبلسٹی ونگ کی گزشتہ دوسال کی کارکردگی اور طریقہ کار کے متعلقہ رپورٹ طلب کر لی۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پی ٹی وی ایک قومی اثاثہ ہے اس کی بہتری اور بحالی کے لئے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔اس موقع پر وفاقی وزیر اطلاعات نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ پی ٹی وی سپورٹس پر کرکٹ کے رائٹس حاصل نہیں کئے گئے تھے اس دفعہ آئی سی سی سے رائٹس بھی لئے ہیں جس سے ادارے کی آمدن میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کی طرف جا کر اس ادارے کے لئے بہتری لائی جائے گی۔ قائمہ کمیٹی اس ادارے کی بہتری کے لئے سفارشات فراہم کرے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پی ٹی وی ایک اہم ادارہ ہے اس کی بہتری کے لئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر عبدالشکور نے کہا کہ ہمیں اپنے مذہبی اور معاشرتی روایات کے اندر رہ کر پروگرام دکھانے چاہیں۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پیمرا ترمیمی بل کے تحت کچھ رول بنانے تھے، پیمرا حکام قائمہ کمیٹی کو تفصیلی آگاہ کریں جس پر چیئرمین پیمرا نے کہا کہ رول بنا کر وزارت قانون کو بھیج دیئے گئے ہیں۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر سید علی ظفر نے کہا کہ صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے ایک قانون بنایا گیا تھا اس کی موجودہ صورتحال بارے آئندہ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں تفصیلی آگاہ کیا جائے۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ صحافیوں کے تحفظ کا قانونی مسودہ وزارت انسانی حقوق کو دیا گیا تھا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں فائر وال کے حوالے سے متعلقہ امور کے حوالے سے وزارت اطلاعات ونشریات نے کہا کہ یہ معاملہ ان سے متعلق نہیں ہے۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز سرمد علی، عرفان الحق صدیقی، محمد طلال بدر، پرویز رشید، جام محمد اورعبدالشکور خان کے علاوہ وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ، سیکرٹری وزارت اطلاعات، چیئرمین پیمرا اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔