اسلام آباد۔: (نمائندہ خصوصی )وزیراعظم محمد شہبازشریف نےمحرم الحرام میں امن و امان کے لئے صوبوں کے ساتھ مربوط رابطہ برقراررکھنے کی ہدایت کرتےہوئے کہا ہے کہ سکیورٹی معاملات میں تعاون سے قومی اتحاد اور یکجہتی کو تقویت ملے گی، معاشی اہداف کے حصول کے لئے شفافیت اور خود احتسابی کی ضرورت ہے، معیشت کی سمت درست کرنے کے لئے کڑوے فیصلے اور اصلاحات کرنا ہوں گی،ڈائون سائزنگ اور رائٹ سائزنگ کے کام میں سستی اور تاخیری حربے برداشت نہیں کیے جائیں گے، پی ڈبلیو ڈی کوختم کرنے سے انکار کسی صورت قابل قبول نہیں ،چین کےساتھ تعاون کو فروغ پر تیزی سے پیشرفت یقینی بنانا ہو گی، روس کے صدر کے ساتھ ملاقات میں تجارتی اور سرمایہ کاری روابط کے فروغ پر جامع گفتگو ہوئی، ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی سےقیمتی زرمبادلہ کی بچت ہوگی،ملک بھر میں تیل سے چلنے والے 10 لاکھ ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کیاجائےگا، تمام وزارتوں کو کارکردگی بہتر بنانا ہو گی۔ان خیالات کا اظہارانہوں نے بدھ کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں گفتگوکرتےہوئے کیا۔وزیراعظم نے کہاکہ کل خیبرپختونخوا میں وزیرستان میں شہادتیں ہوئی ہیں۔کراچی میں سی ٹی ڈی کے ڈی ایس پی کو بھی شہید کردیاگیا ۔ان کی بلندی درجات کے لئے دعاگو ہیں اور شہدا کے اہل خانہ سے تعزیت کرتےہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ محرم الحرام کے دوران وزارت داخلہ اور صوبوں اور دیگر متعلقہ اداروں کے درمیان مربوط رابطہ ہونا چاہیے۔ صوبوں کو وفاق کی طرف سے جو بھی تعاون درکار ہو انہیں فوری فراہم کیا جا نا چاہیے۔ اسی طرح آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتوں کے ساتھ بھی قریبی رابطہ رکھا جائے۔ سکیورٹی معاملات میں تعاون سے قومی یکجہتی اور اتحاد کو تقویت ملے گی۔وزیراعظم نے کہاکہ انہوں نے تاجکستان کا دورہ کیا اور پھر شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس میں شرکت کی۔ مختلف ممالک کے سربراہان کے ساتھ مفیدملاقاتیں رہیں۔ روسی صدر پیوٹن کے ساتھ تجارتی اور سرمایہ کاری روابط کے فروغ کے لئے جامع گفتگوہوئی اور اس حوالےسے عملدرآمد کے لئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔ دورہ چین کے بعد اہم شعبوں میں مزید تعاون کے لئے بریفنگ لی ہے۔ تمام وزارتوں کو چین کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون کے لئے بھرپور تیار ی اور اقدامات کرنے چاہئیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یہ ملک اور پاکستان کے وسائل کا معاملہ ہے۔ ہم نے ملک کو آگے لے کر جانا ہے۔ چین کےساتھ تعاون کو فروغ پر تیزی سے پیشرفت یقینی بنانا ہو گی۔وزیراعظم نے کہاکہ بلوچستان میں 28ہزار ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزارت خزانہ ، وزار ت پاور ڈویژن اور وزارت قانون کے حکام اور وزیراعلیٰ بلوچستان نے اس کے لئے بہت کام کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان کا مسائل کے حل کے لئے سنجیدگی کامظاہرہ قابل تعریف ہے۔ٹیوب ویلوں کے لئے وفاق کی جانب سے دیئے جانے والے 80 ارب روپے ضائع ہو رہے تھے،ہم نے ایک بہت بڑا مرحلہ طے کیا۔ اس کے لئے وزارت خزانہ ،وزارت پاور ڈویژن اوربلوچستان کی حکومت اوربالخصوص وزیراعلیٰ بلوچستان کو خراج تحسین پیش کرتاہوں۔ انہوں نے بہت اچھے طریقے سے اس معاملے کو آگے بڑھانے کے لئے کا م کیا۔وزیراعظم نے کہاکہ ملک میں 10لاکھ ٹیوب ویل تیل پر چل رہے ہیں اور ہم سالانہ ساڑھے تین ارب ڈالر کا تیل درآمد کرتےہیں،ملک بھر میں تیل سے چلنے والے 10 لاکھ ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کیاجائےگا، اس کےلئے ایک بزنس ماڈل بنانے اور صوبوں کے ساتھ قریبی رابطے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان میں 28 ہزار ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی ایک اہم اقدام ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان اور وفاق کے متعلقہ افسران نے محنت سے کام کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی سےقیمتی زرمبادلہ کی بچت ہو گی اور کسانوں کو سستی بجلی ملےگی۔بجلی کی ٹرانسمیشن لائنزکو بہتر بنانا اور بجلی چوری پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ شمسی توانائی سے پیداہونے والی سستی بجلی کافائدہ زراعت اور کاشتکار ہو گا اور زرعی شعبہ تیزی سے ترقی کرے گا۔وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان میں معدنیات کے بے پناہ ذخائر موجود ہیں جن سے استفادہ کرناہوگا۔ وقت تیزی کےساتھ گزر رہا ہے ،معاشی بہتری کے لئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے کہاکہ ڈائون سائزنگ اور رائٹ سائزنگ پر کام ہو رہا ہے ، کسی وزارت نے بھی اس میں اگر سستی کامظاہرہ کیا اور تاخیری حربے استعمال کئے تواسے برداشت نہیں کیاجائےگا،کسی وزارت کے ذیلی ادارے کی اگر کوئی افادیت کے حوالےسے کہ کوئی جائز عذر ہے تو وہ الگ بات ہے لیکن اپنےفائدے کے لئے کسی محکم کے دفاع کو قبول نہیں کیاجائےگا۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہاکہ پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن کے پاس 10 سے 12 بحری جہاز ہیں لیکن تنخواہیں 500 ارب روپے ہیں اور 5 ارب ڈالر ملک سالانہ بحری جہازوں کے کرائے کی مد میں اداکرتاہے۔ کراچی بندر گاہ پر ہونے والے کرپشن کو روکنے کے اقدامات کرنا ہوں گے، کراچی بندر گاہ میں 1200 ارب روپے کی چوری ہو رہی ہے، یہ پیسہ تو ترقیاتی منصوبوں داسو اور دیامر بھاشا ڈیم منصوبوں پر خرچ ہو سکتی ہے۔ کرپشن کا سد باب کرکے وسائل عوام کی بہبود پر خرچ کریں گے۔ بنگلہ دیش اور ہندوستان کے پاس ہم سے کئی گنا زیادہ بحری جہاز ہیں۔ معاشی اہداف کے حصول کے لئے شفافیت اور خود احتسابی کی ضرورت ہے وزیراعظم نے کہا کہ ریئل سٹیٹ کے شعبے پر ٹیکسز سے 100 ارب روپے کے حصول کی توقع ہے۔انہو ں نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ صرف تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس لگا دیاجائےاور دیگر ایسے شعبوں کو چھوڑ دیں جو ٹیکس دینے کی استعداد رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کڑوے فیصلے کرنا پڑیں گے اور ڈھانچہ جاتی اصلاحات کرنا ہوں گی، توقع ہے کہ آئی ایم ایف کا ممکنہ پروگرام پاکستان کا آخری پروگرام ہوگا،آئی ایم ایف سے نجات کا ہدف میں صرف باتوں سے حاصل نہیں ہوگا، آئی ایم ایف سے نجات کے ہدف کا حصول قربانی اور ایثارسے ممکن ہے، معیشت کی سمت درست کرنے کے لیے کڑوے فیصلے اور اصلاحات لانا ہوں گی ،کرپشن کے خاتمہ اور دیگر موثر انتظامی اقدامات کے ذریعے ملکی وسائل میں اضافہ کیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ غریب اور نادار طبقے کی مشکلات کا بخوبی ادراک ہے، کرپشن کے خاتمے اور دیگر موثر انتظامی اقدامات کےذریعے ملکی وسائل میں اضافہ کیا جائے گا،غریب طبقے کو ریلیف کی فراہمی کے لیے وفاق نے ترقیاتی بجٹ سے 50 ارب روپے کا انتظام کیا ہے،تین ماہ کے لئے بجلی صارفین کو ریلیف دیاجائے گا لیکن اس عرصہ میں اضافی مالی وسائل کا انتظام کرنا ہو گا،ہمیں دن رات ایک کر کے معاشی اقدامات کو نتیجہ خیز بنانا ہے ۔وزیراعظم نے کہاکہ ملک میں بجلی فاضل ہے لیکن لوڈ شیڈنگ ان علاقوں میں ہو رہی ہے جہاں پر بجلی چوری ہوتی ہے،اخراجات میں کمی کے لئے ڈائون سائزنگ اور رائٹ سائزنگ کی خود نگرانی کررہا ہوں، پی ڈبلیو ڈی کی بندش کے فیصلے پر عمل درآمد میں تاخیر کو برداشت نہیں کیاجائےگا،اس کےلئے 2 ہفتے دیئے گئے تھے وہ مکمل ہو چکے ہیں، ہم نے اس کو مکمل بند کرنا ہے اور اس حوالے سے متبادل سسٹم کا بھی انتظام کر لیا ہے،پنجاب کے ماڈل پر عمل کیا جائےگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں کفایت شعاری کو اپنانا ہوگا، قوم نتائج چاہتی ہے ، وزیر تجارت برآمدات کو 60 ارب ڈالر تک لے جانے کے لئے پلان تیار کرے،پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے ہمیں معاشی چیلنجزپر قابو پاتے ہوئے آگے بڑھنا ہے، تمام وزارتوں کو اپنی کارکردگی مزید بہتر بنانا ہو گی۔