اسلام آباد۔:: (نمائندہ خصوصی )ملک کے بڑھتے ہوئے معاشی بحران اور گرتی ہوئی صنعتی ترقی کا تقاضا ہے کہ حکومت ایک ٹھوس قومی صنعتی پالیسی وضع کرے جس میں حقیقت پسندانہ ریگولیشن کو فروغ دیا جائے ، پائیدار ترقی کے حصول کےلئے حکومت، تعلیمی اداروں اور صنعتوں کے ٹرائیکا کو لازمی قرار دیا جائے۔ ان خیالات کا اظہارپالیسی ادارہ برائے پائیدارترقی (ایس ڈی پی آئی) کی جانب سے راولپنڈی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (آر سی سی آئی) کے ساتھ منعقدہ مشاورتی اجلاس میں کیا گیا۔اجلاس میں قومی صنعتی پالیسی کے مسودے پر اہم گفتگو کی گئی۔ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین اور آر سی سی آئی کے صدر ثاقب رفیق نے کہا کہ درآمدات کو منظم کرنے اور بڑھتی ہوئی درآمدات کو کنٹرول کرنے کیلئے ہر ملک کے پاس اس کا متبادل موجود ہوتا ہے لیکن ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے۔ انہوں نے پالیسی سازوں سے مطالبہ کیا کہ وہ آمدنی میں اضافے کیلئے پہلے سے بوجھ تلے دبے شعبوں کو دبانے کی بجائے اس کامقامی حل تلاش کرنے پر توجہ دیں۔انہوں نے کہا کہ بہترین نتائج کیلئے مستقل مذاجی اور پالیسی فریم ورک پر موثر عملدرآمد ضروری ہے۔آر سی سی آئی کے سینئر نائب صدر حمزہ سروش نے کہا کہ مشاورتی اجلاس کا مقصد ریمٹ اور ایس ڈی پی آئی کو پالیسی سفارشات فراہم کرنا ہے جو انڈسٹری پالیسی کے لئے پالیسی مسودہ تیار کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ٹیکس سلیب میں اضافے اور اوور ریگولیٹڈ نظام کی وجہ سے ملک اپنے سٹریٹجک مقامات سے فائدہ نہیں اٹھا سکے گا ۔ ایس ڈی پی آئی کے اویس عمر بھٹی نے قومی صنعتی پالیسی پر تفصیلی پریزنٹیشن پیش کی۔انہوں نے کہا کہ مالی سال 2021-23 سے ملک کے جی ڈی پی کے تناسب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی برآمدات 2001 سے کم ہو رہی ہیں اور کووڈ کے بعد جو معاشی بحالی ہوئی تھی 2022 سے اس میں مسلسل کمی واقع ہوگئی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ملک کے برآمدی شعبے کو برآمدی تنوع، مصنوعات کی ویلیو ایڈیشن، جدید ٹیکنالوجی، جدید ٹیکنالوجی، جدید ٹیکنالوجی پر مبنی مشینوں پر انتہائی ہنر مند افرادی قوت اور بڑھتی ہوئی علاقائی اور بین الاقوامی تجارتی رقابت کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹارگٹڈ پالیسیوں کو اپنانے کی ضرورت ہے ۔سینیٹر میاں عتیق شیخ نے کہا کہ قومی پالیسی سازی کا عمل ایک مقدس فریضہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو غیر ملکی سرمایہ کاروں اور معاشی اداروں کا اعتماد حاصل کرنا ہوگا جو معاہدوں کی خلاف ورزی کی وجہ سے ملک میں سرمایہ کاری کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جدید دنیا میں بڑھتے ہوئے خطرات اور چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے صنعتی شعبے کی پالیسی اور گورننس کو جدید بنانے کی ضرورت ہے۔آر سی سی آئی کے سابق صدر کاشف شبیر نے کہا کہ میکرو اکنامک پالیسیوں میں بہتری کے بغیر مائیکرو اکنامک ڈومین میں بہتری کی توقع نہیں انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ریگولیٹری کردار کو کم کرے اور صنعتی ترقی کے لئے معاشی طور پر قابل عمل کاروباری ماحول کو فروغ دے۔مختلف صنعتی پس منظر سے تعلق رکھنے والے دیگر شرکاءنے نشاندہی کی کہ قرضوں کی تنظیم نو اور فنانس تک رسائی صنعت کے لئے ایک بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ 25 فیصد مارک اپ لاگت نے صنعت کے لئے ترقی کرنا ناممکن بنا دیا ہے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت برآمدات اور صنعت کو بیک وقت فروغ دینے کے لئے ون ونڈو پالیسی اپنائے۔انہوں نے ہنر مند تکنیکی افرادی قوت تیار کی ضرورت پر بھی زور دیا۔