کوئٹہ (رپورٹ /محمد کاظم)
بلوچستان میں تین روز کے دوران طوفانی بارش اور سیلاب کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 27 ہو چکی ہے اور حکام کے مطابق مرنے والوں میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں۔بلوچستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر و ترجمان فیصل نسیم پانیزئی نے بی بی سی کو بتایا کہ تین روز کے دوران یہ ہلاکتیں کوئٹہ، قلعہ سیف اللہ، ژوب، کیچ، مستونگ اور دیگر علاقوں میں ہوئیں ہیں۔پی ڈی ایم اے کے کنٹرول روم میں موجود اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ ہمیں جانی نقصان کے علاوہ مالی نقصان کی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں۔بلوچستان میں چار جولائی سے شروع ہونے والی بارش نے سیلابی صورتحال پیدا کر دی ہے۔پی ڈی ایم اے کے مطابق صرف کوئٹہ شہر میں بارشوں اور طغیانی کے باعث ہونے والی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد نو ہو گئی ہے۔قلعہ سیف اللہ میں سیلابی ریلوں میں نو افراد لاپتہ ہوئے جن میں سے چار بچوں کی لاشیں نکال لی گئی ہیں جبکہ سیلابی ریلے میں لاپتہ ہونے والی چار خواتین اور ایک بچے کی تلاش جاری ہے۔ضلع کیچ میں تین بچے سیلابی ریلے میں ڈوب کر ہلاک ہوئے جبکہ دو افراد ضلع کچھی میں مارے گئے۔ کوئٹہ سے متصل ضلع مستونگ کے علاقے دشت میں دو خواتین کی ہلاکت ہوئی۔پی ڈی ایم اے کے مطابق کوہلو میں تین افراد جبکہ ژوب اور خضدار میں ایک، ایک ہلاکت ہوئی۔بلوچستان میں پری مون سون بارشوں کا سلسلہ 13 جون سے شروع ہوا تھا۔پی ڈی ایم اے کے کنٹرول روم کے مطابق 13 جون سے لے کر اب تک بارشوں میں مجموعی پر 39 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 10 مرد، 16 خواتین اور 13 بچے شامل ہیں۔اُدھر کوئٹہ کے قریب دشت کے علاقے میں سیلابی ریلا آیا جس کے باعث وہ اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے مزدوروں کے گھروں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔کوئٹہ میں نکاسی آب کے ناقص نظام کی وجہ سے تیز یا موسلادھار بارشوں کے بعد گلیوں اور شاہراہوں کا ندی نالوں کا منظر پیش کرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہوتی لیکن گذشتہ پیر کے روز سہ پہر کو کوئٹہ شہر میں طوفانی بارشوں کے بعد شہر کے سریاب، مشرقی اور مغربی بائی پاس کے علاقے میں جو صورتحال پیدا ہوئی شہر کے کئی باسیوں کے مطابق ’ماضی قریب میں اس کا مشاہدہ کوئٹہ والوں نے نہیں کیا۔‘سریاب کے کسٹمز کے علاقے میں پانی کے ریلے اس قدر تیز تھے کہ اس میں کئی لوگ بہتے ہوئے دکھائی دیے۔ وہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے بجلی کے کھمبوں اور دیگر اشیا کا سہارا لیتے رہے۔
اسی طرح مشرقی بائی پاس کے قریب مویشی منڈی کے علاقے میں پانی کے تیز ریلے میں درجنوں بھیڑ بکریاں بہہ گئیں۔ لوگ بھیڑ بکریوں کو اپنی مدد آپ کے تحت بچانے کی کوشش کرتے رہے۔طوفانی بارشوں کے بعد متعدد علاقوں میں نہ صرف بارش کا پانی گھروں میں داخل ہوا بلکہ بعض علاقوں میں کچے مکانات منہدم بھی ہوئے۔سریاب کے کلی سردہ میں کچے گھروں میں بارش کا پانی داخل ہوا اور بعض گھروں میں پانی اس قدر زیادہ تھا کہ ان میں قیام کرنا ممکن نہیں تھا۔
ڈپٹی کمشنر کوئٹہ شہک بلوچ اور انتظامیہ کے دیگر اہلکار اس سکول میں ان کی مشکلات کو سُننے کے لیے پہنچے۔ ڈپٹی کمشنر نے اس موقع پر بتایا کہ ’صرف گوہر آباد کے علاقے میں تیس سے چالیس خاندان متاثر ہوئے ہیں۔‘بعض متاثرین نے انتظامیہ کو بتایا کہ بارش کے پانی کی وجہ سے نہ صرف ان کے گھر رہنے کے قابل نہیں رہے بلکہ گھر کا سامان بھی پانی میں بہہ گیا۔اُن کا کہنا تھا ان کے ساتھ دودھ پینے والے بچے بھی ہیں۔ ’سیلابی پانی گھروں میں داخل ہونے کے باعث دیگر اشیا کے ساتھ ساتھ بچوں کے دودھ اور دودھ پلانے والی بوتلیں بھی بہہ گئی ہیں جس کی وجہ سے وہ پریشان ہیں کہ اب وہ بچوں کو دودھ کیسے پلائیں۔‘اچانک بے گھر ہونے اور ایک سکول کی عمارت میں پناہ لینے والے ان افراد کے چہروں سے پریشانی نمایاں تھی اور وہ چاہتے تھے کہ ان کو جلد سے جلد ریلیف فراہم کیا جائے۔
اس موقع پر ڈپٹی کمشنر نے انھیں یقین دہانی کروائی کہ انھیں فوری طور پر ٹینٹ اور خوراک فراہم کی جائے گی۔کوئٹہ شہر کے بعض علاقوں میں طوفانی بارش اور سیلابی ریلے سے بعض علاقوں میں مکانات بھی گرے جن کی وجہ سے لوگ ہلاک اور زخمی بھی ہوئے۔میر ضیا اللہ نے کہا کہ ’طوفانی بارشوں سے متاثرہ دیگر علاقوں میں امدادی اشیا بھیج دی گئی ہیں اور ویاں ریلیف کی سرگرمیاں جاری ہیں۔‘
اُن کا کہنا تھا ان کے ساتھ دودھ پینے والے بچے بھی ہیں۔ ’سیلابی پانی گھروں میں داخل ہونے کے باعث دیگر اشیا کے ساتھ ساتھ بچوں کے دودھ اور دودھ پلانے والی بوتلیں بھی بہہ گئی ہیں جس کی وجہ سے وہ پریشان ہیں کہ اب وہ بچوں کو دودھ کیسے پلائیں۔‘اچانک بے گھر ہونے اور ایک سکول کی عمارت میں پناہ لینے والے ان افراد کے چہروں سے پریشانی نمایاں تھی اور وہ چاہتے تھے کہ ان کو جلد سے جلد ریلیف فراہم کیا جائے۔اس موقع پر ڈپٹی کمشنر نے انھیں یقین دہانی کروائی کہ انھیں فوری طور پر ٹینٹ اور خوراک فراہم کی جائے گی۔کوئٹہ شہر کے بعض علاقوں میں طوفانی بارش اور سیلابی ریلے سے بعض علاقوں میں مکانات بھی گرے جن کی وجہ سے لوگ ہلاک اور زخمی بھی ہوئے۔
میر ضیا اللہ نے کہا کہ ’طوفانی بارشوں سے متاثرہ دیگر علاقوں میں امدادی اشیا بھیج دی گئی ہیں اور ویاں ریلیف کی سرگرمیاں جاری ہیں۔‘