اسلام آباد۔(کورٹ رپورٹر ):سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے حوالہ سے کیس کی سماعت (آج) منگل تک کیلئے ملتوی کر دی گئی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ نے پیر کو یہاں کیس پر سماعت کی۔اس موقع پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ثابت کریں کہ الیکشن کمیشن نے غیر آئینی اقدام کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کا معاملہ تو کئی سال قبل سے چلا آ رہا تھا۔ پی ٹی آئی بار بار انٹرا پارٹی انتخابات کیلئے وقت مانگ رہی تھی۔ انہوں نے کہا تسلیم شدہ بات ہے کہ تحریک انصاف سال کا وقت لینے کے باوجود انٹراپارٹی انتخابات نہیں کرا سکی۔ بطور وزیراعظم درخواست دی گئی کہ انٹراپارٹی انتخابات کیلئے ایک سال کا وقت دیا جائے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے اپنے دلائل میں کہا کہ میری چار قانونی معروضات ہیں۔ پی ٹی آئی نے قانون کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کرائے جبکہ پی ٹی آئی کے پارٹی ٹکٹس پر بیرسٹر گوہر نے بطور چیئرمین دستخط کئے۔انہوں نے کہا کہ ٹکٹس کے اجراء کے وقت پی ٹی آئی کی کوئی قانونی تنظیم موجود نہیں تھی۔ پارٹی تنظیم انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے کی وجہ سے وجود نہیں رکھتی تھی۔ انہوں نے موقف اپنایا کہ صاحبزادہ حامد رضا سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین تھے اور ہیں، وہ خود کو پارٹی ٹکٹ جاری کر سکتے تھے لیکن انہوں نے خود کو بھی پارٹی ٹکٹ جاری نہیں کیا۔ حامد رضا نے کاغذات نامزدگی میں لکھا کہ ان کا تعلق سنی اتحاد کونسل سے ہے جس کا پی ٹی آئی سے اتحاد ہے اور انہوں نے پی ٹی آئی کا پارٹی ٹکٹ جمع کرایا تھا۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ حامد رضا نے بیان حلفی میں ڈیکلریشن پی ٹی آئی نظریاتی کا جمع کرایا تھا۔ حامد رضا خود کو سنی اتحاد کونسل کا امیدوار قرار نہیں دینا چاہتے تھے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی انتخابات کا معاملہ کئی سال سے الیکشن کمیشن میں زیر التواء تھا۔ الیکشن کمیشن 13 جنوری کا حوالہ دے کر معاملہ سپریم کورٹ پر کیوں ڈال رہا ہے؟۔الیکشن کمیشن کے وکیل نے اپنے دلائل میں موقف اپنایا کہ کنول شوزب کا موجودہ کیس میں کوئی حق دعویٰ نہیں اور کنول شوزب کی درخواست ناقابل سماعت ہے کیونکہ وہ متاثرہ فریق نہیں۔ وکیل الیکشن کمشین نے عدالت سے استدعا کی کہ کنول شوزب کی درخواست خارج کی جائے۔ وکیل الیکشن کمیشن کے دلائل کے بعد عدالت کے طلب کرنے پر بیرسٹر گوہر نے دلائل اور عدالت کے سوالات کے جواب دیئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک کے معاون وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ فاروق نائیک عدالت نہیں پہنچ سکے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل اور شہزاد شوکت نے مخدوم علی خان کے دلائل اپنا لئے۔ سماعت کے موقع پر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ جے یو آئی (ف) الیکشن کمیشن کے دلائل اپنا رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے وکیل بیرسٹر حارث عظمت نے اپنے تحریری دلائل عدالت میں جمع کرائے ۔ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے اپنے دلائل میں کہا کہ عدالت کے نوٹس پر بطور ایڈووکیٹ جنرل دلائل دوں گا۔ انہوں نے کہا کہ متفرق درخواست میں تحریری دلائل جمع کرا چکا ہوں۔ الیکشن کمیشن کے کنڈکٹ سے مطمئن نہیں ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کے کے پی میں انتخابات درست یا نہ درست ہونے کے سوال پر ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے نے کہا کہ میں فیصل صدیقی کے دلائل سے اتفاق کرتا ہوں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی کے 2018ء میں بھی پارٹی انتخابات نہیں ہوئے تھے۔ تب انتخابی نشان کیسے ملا تھا؟ ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پنجاب اور بلوچستان کی حکومت نے اٹارنی جنرل کے دلائل اپنا لئے جبکہ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بھی اٹارنی جنرل کے دلائل اپنا لئے۔ معطل شدہ ارکان اسمبلی کے وکیل شاہ خاور ایڈووکیٹ نے تحریری دلائل عدالت میں جمع کرا دیئے۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اپنے دلائل میں کہا کہ خواتین کی سیاسی عمل میں شرکت یقینی بنانے کے لیے مخصوص نشستیں رکھی گئیں۔ مخصوص نشستیں صرف سیاسی جماعتوں کو متناسب نمائندگی سے ہی مل سکتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ 2002 میں خواتین کو پہلی مرتبہ قومی و صوبائی اسمبلوں کے ساتھ سینیٹ میں بھی بڑی تعداد میں نمائندگی ملی۔ سال 1990 سے 1997 تک خواتین کی مخصوص نشستیں ختم کر دی گئی تھیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ 17 ویں ترمیم کے ذریعہ خواتین کی مخصوص نشستیں شامل کی گئیں اور متناسب نمائندگی کے اصول کا مقصد ہی نشستیں خالی نہ چھوڑنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مخصوص نشستوں کے لئے آزاد امیدواروں کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔ اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ سیاسی جماعتوں میں شامل ہوئے بغیر آزاد امیدوار مخصوص نشستیں نہیں مانگ سکتے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے دوران سماعت اس موقع پر ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 51 کی تشریح کرتے ہوئے ہم مفروضوں پر کیوں چل رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اپنی سوچ اور نظریہ آئین پر مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن ایک خودمختار آئینی ادارہ ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کی تقرری حکومت اور اپوزیشن مل کر کرتے ہیں۔ ابھی تک کسی فریق نے اس نکتہ پر بات ہی نہیں کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر الیکشن کمیشن نے غیر آئینی اقدام کیا تو ثابت کریں۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ اصل سوال یہ ہے کہ حق کس بنیاد پر ملے گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے یہ نہیں دیکھنا حق کس کا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آئین کیا کہتا ہے۔ سپریم کورٹ نے 2018 کے انتخابات میں الاٹ کی گئی نشستوں کی تقسیم جبکہ آزاد امیدواروں کی سیاسی جماعتوں میں شمولیت سے پہلے اور بعد کی نشستوں کی تقسیم کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کے مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت (آج) منگل تک کیلئے ملتوی کر دی۔