کراچی (رپورٹ : مرزا افتخار بیگ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے جانب سے جنید احمد کی تصنیف 1971 Ethnic Cleansing of Biharis in East Pakistanکی تقریب رونمائی آڈیٹوریم ۱ میں کی گئی ۔تقریب کی صدارت کے فرائض محمود شام نے انجام دیے جبکہ سیکریٹری آرٹس کونسل پروفیسر اعجاز فاروقی ، ابنِ الحسن رضوی ، پروفیسر برجیس ہارون ، حسن امام صدیقی اور جنید احمد نے اظہار خیال کیا۔ محمود شام نے صدارت کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر جنیداحمد اپنی تحقیقی تحریروں سے لشکر الٹنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔جب تک حقیقت کو منظر عام تک نہیں لاتے تو جنید کے قدم نہیں رکتے۔ پاکستان نے مشرقی پاکستان کو کھوکر بھی سبق نہیں سیکھا۔ کتابیں تو بہت چھپ رہی ہیں لیکن ایسی کتابیں بہت کم لکھی جاتی ہیں۔ ایسی کتابیں زندہ قوموں کا سرمایہ ہیں۔تقسیمِ ہند کے وقت جو بھی جا گیر دار تھے انہوں نے جہاز کے ذریعے ہجرت کی لیکن جو غریب تھے وہ بس اور ٹرین کے ذریعے لہو لہان ہوتے ہوئے پاکستان آئے۔ بہاری بر صغیر کے مسلمان ہیں انہیں پاکستان آنے سے کیسے روکا جا سکتا ہیں۔آپ لاکھوں افغانی کو پاکستان میں جگہ دیتے ہیں لیکن کچھ پاکستانی جب پاکستان آتے ہیں تو ان کے خلاف مقدمے چلنے شروع ہو جاتے ہیں۔ میں چار سوساٹھ صفحوں پر مشتمل اس کتاب کہ ہر کہانی سے گزرا ہوں۔ کتاب میں 1971 میں پاکستان کے لوٹنے میں ہندوستان کے کردار اور ملوث ہونے کی تفصیلات دی گئی ہیں جسے بہت سے ہندوستانی رہنماو¿ں نے کھلے عام قبول کیا ہے اور بنگلہ دیش کے حکام نے بھی تسلیم کیا ہے۔پروفیسر اعجاز فاروقی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مجھے خوشی ہے اس بات کی ہے کہ ان لوگوں کو آج یاد رکھا جا رہا ہے جن کے بارے میں ہمارے طالب علموں سے پوچھا جائے تو ان کو ایک فیصد بھی پتا نہیں ہوگا۔جب ایک ہسٹری ملک کی ہے تو اس کو ہماری نوجوان نسل تک پہنچنا چاہیے۔یہ ایک ایسی ہسٹری ہے جس کو ہمارے نوجوانوں سے چھپانا نہیں چاہیے۔جب پاکستان دو حصوں میں بٹ گیا ایک حصہ پاکستان اور دوسرا بنگلہ دیش بن گیا اور جس کو لوگوں نے بد دلی سے قبول کیا۔بہاریوں کا حق ہے پاکستان میں رہنا۔پاکستان سب کا ہے۔پاکستان میں بہاری پڑھے لکھے آ ئے تھے۔آج تک میں نے کسی بہاری کو بھیک مانگتے ہوئے نہیں دیکھا۔بہاری جو سفر کر کے آ ئے تھے انہوں نے محنت کر کے خود کو منوایا۔۔حسن امام صدیقی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جنید احمد کی یہ کتاب ریسرچ ورک ہے۔ جنید احمد نے اردو زبان اور بہاری زبان کا جائزہ لیا ہے۔بنگلہ دیش نے بہاریوں کو محدود جگہ دی۔بنگلہ دیش نے زبان اور کلچر کو بہت نقصان پہنچا یا۔اس کتاب میں مردم شماری کا بھی ذکر ہے۔جنید احمد نے کھلے لفظوں میں بتایا کہ بہاری محنت کش ،نرم دل اور محبت کرنے والی قوم ہے۔، ابنِ الحسن رضوی نے کہا کہ اس کتا ب میں سات باب ہیں۔ اس کتاب میں پہلی بار مشرقی پاکستان میں مارچ 1971 سے فروری 1972 کے دوران عوامی لیگیوں، بھارتی تربیت یافتہ اور مالی امداد یافتہ مکتی باہنی کے دہشت گردوں اور بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شروع میں تخریب کاروں، دراندازوں اور بعد میں قابض بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں بہاریوں اور غیر بنگالیوں کی نسل کشی کا انکشاف کیا گیا ہے۔برجیس ہارون نے کہا کہ زیادہ تر تاریخ دان اتنے حساس عنوان پر لکھنے سے کتراتے ہیں لیکن جنید نے اس عنوان پر بے خوف لکھا ہے۔ انھوں نے بہاریوں کی تعلیم اور ادب پر بھی روشنی ڈالی۔ یہ صرف کتاب نہیں بلکہ بہاریوں کی تاریخ ہے ۔جنید احمد نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس کتاب کو لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان اور بنگلہ دیش کے درمیان ایک سیمینار منعقد ہونے جا رہا ہے ۔ جس میں پاکستان کے خلاف بولاجائے گا ۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ یہ یک طرفہ سیمینار ہو جائے۔پاکستان کی طرف سے ایک جواب ضرور ہو نا چاہیے تھا۔اور میرا خیال یہ تھا کہ میں کچھ تیار کر کے ان کے سامنے رکھ دوں۔اور یہ کیس سپریم کورٹ پاکستان تک جائے۔اور سپریم کورٹ پاکستانی حکومت کو حکم دے کہ جتنے پاکستانی بنگلہ دیش میں ہے ان کو واپس پاکستان لے کر آئے۔ تقریب کی نظامت کے فرائض طاہر احمد نے انجام دئیے۔