اسلام آباد۔(نمائندہ خصوصی ):سابق وفاقی وزیر اور پاکستان پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی عبدالقادرپٹیل نے کہا ہے کہ ملک کی معیشت اسی صورت میں درست ہو سکتی ہے کہ تمام جماعتیں ایک نکاتی ایجنڈے کے تحت صرف پاکستان کے نام پر اکٹھی ہوں گی، پی ٹی آئی دور کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے خود اعتراف کیا تھا کہ ان کے دور میں 76 فیصد قرضہ بڑھا ہے۔ہفتہ کو قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 25-2024 کے وفاقی بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے عبدالقادر پٹیل نے کہاکہ پی ٹی آئی کے چار برسوں میں تو انہوں نے آئی ایم ایف کے منہ پر قرضہ مارنے کی بات نہیں کی حالانکہ ان کے اپنے وزیر خزانہ شوکت ترین نے 76 فیصد قرضہ بڑھنے کا اعتراف کیا تھا، انہیں وہ دور بھی یاد کرنا چاہیے جب نیب کی لانڈری میں دھو کر صاف کیا جاتا تھا160 ملین پائونڈز کا غبن ان کا سب سے بڑا المیہ ہے، گزشتہ چالیس برسوں سے پاکستان کی معشیت جنگوں پر چلتی رہی، ہم نے اپنے محسنوں کا قتل کر کے ملک کا نقصان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 80 کی دہائی میں 80 بچوں کیلئے ایک سکول تھا، آج 1500 بچوں کیلئے ایک سکول ہے، اس وقت ایک لاکھ لوگوں کیلئے ایک ہسپتال تھا آج دولاکھ لوگوں کیلئے ایک ہسپتال ہے،اس سے صحت اور تعلیم کیلئے ہماری ترجیحات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ عبدالقادرپٹیل نے کہاکہ پی ٹی آئی کے ورمیں تاریخ میں پہلی بار ایک وزیر سرکاری طور پر فطرانہ کیلئے سعودی عرب گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن لیڈرنے چارگھنٹے تک بجٹ تقریرکی جو ہم نے خاموشی سے سنی، اس تقریر سے ہمیں مایوسی ہوئی، اس میں معیشت کی بہتری اوراصلاح کیلئے ایک بھی تجویز نہیں تھی۔اپوزیشن لیڈرنے خود کہا ہے کہ وہ 2002 سے بجٹ بنارہے ہیں اورساتھ ہی ہٹلر کے مشیروں کاحوالہ بھی دے رہے تھے، کم سے کم پاکستانیوں کوتومعلوم ہوگیا کہ ملکی معیشت کی زبوں حالی کا ذمہ دارکون ہے۔اسدعمرکو اگرآئی ایم ایف کے پاس جانابھی تھا تواپنی شرائط پرجانا چاہئیے تھا اس کی وجہ سے ملک کانقصان ہوا، جب کسی کو انہوں نے باپ کا درجہ دیا تھا تو اسے برداشت بھی کرنا چاہیے۔ عبد القادر پٹیل نے کہاکہ یہ لوگ کس مہذب معاشرے کی بات کرتے ہیں، عمران خان خود پی ٹی وی سے چپک گئے تھے اب کہتے ہیں کہ پی ٹی وی کون دیکھتا ہے، سائیکل پر آنے والے نے ہیلی کاپٹر لے لیا۔ انہوں نے کہاکہ انکم ٹیکس کی بجائے ویلتھ ٹیکس ہوناچاہئیے، لوگوں نے ایک کروڑ کا گھر رکھا ہوتا ہے اور کاغذات میں اپنے آپ کو بے روزگار قرار دیا جاتا ہے۔ اپوزیشن لیڈرنے قانون کی حکمرانی کی بات بھی کی ہےقانون کی حکمرانی وہ ہے جہاں غریب سے غریب شخص بھی اپنے آپ کو محفوظ تصورکریں۔ شاہراہ فیصل پر ہمارے 176 کارکن شہید ہوئے، ہمارے دوعظیم لیڈروں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دیں، ہمارے لیڈرنے 14 سال جیل میں گزارے مگرہمیشہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا۔ انہوں نے کہاکہ جب وہ وزیرصحت تھے تو خیبرپختونخوا کے سیکرٹری صحت ڈاکٹر فخر عالم نے خود انہیں بتایاکہ وزیراعظم صحت کارڈ کی ادائیگی وفاق کی جانب سے کرنا چاہتے ہیں مگرصوبہ کا مطالبہ ہے کہ ضم اضلاع کی وجہ سے ہم کارڈکی ادائیگی صوبہ سے کرنا چاہتے ہیں۔ یہ فیصلہ عمران خان نے خود کیا تھا کہ صحت کارڈ کے اثاثہ جات اورواجبات صوبہ کے ذمہ ہوں گے، میں نے 15 ماہ تک یہ کارڈ بند نہیں کیا تھا، آج یہ پروپیگنڈہ کرنے کی ضرورت نہیں کہ وفاق صحت کارڈ کیلئے فنڈز نہیں دے رہا۔انہوں نے کہاکہ اس ایوان نے قادیانیوں کو کافر قرار دیا تھا، اس لئے انہیں مسلمانوں کا فرقہ قرار نہیں دیا جا سکتا، لاہور ہائی کورٹ کے جج کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ کرکٹ ٹیم کے معاملات کا جائزہ بھی لینا چاہئیے، بابر اعظم کو بھی ایک جلسہ کر کے کاغذ لہرا کر کہنا چاہئیے کہ میرے خلاف سازش ہوئی ہے، اور اگر کوئی اس سے پوچھے کہ وہ کاغذ دکھائو تو آگے سے وہ کہے کہ کاغذگم ہو گیا ہے۔