کراچی (آغاخالد)کلمہ پڑھو۔۔ کلمہ پڑھوایک بار تو کلمہ پڑھ لو خدا کا واسطہ ہے تمہیں ایک بار کلمہ پڑھ لو تکلیف کم ہوجائے گی، یہ الفاظ ناہید بھابی اپنے شوہر کے کان میں دھرا رہی تھیں وہ ایک مثالی وفاشعار بیوی تھیں وہ بار بار سردار قریشی مرحوم سے التجا کررہی تھیں جو حالت نزع میں تھے یہ سکھر کا ریلوے اسپتال ہے اور 80 کی دہائی میں ملک کی دوسری بڑی نیوز ایجنسی پی پی آئی کے سکھر سے بیورو چیف سردارقریشی یہاں داخل ہیں وہ گلے کے کینسر میں مبتلا ہیں ہنوز یہ لاعلاج مرض ہے ملک بھر کے ڈاکٹرز نے جواب دیدیا جس کے بعد وہ زندگی کی آخری سانسیں لے رہے ہیں ان کی ٹیچر اہلیہ ان کے سرہانے کھڑی ہیں اور ان کی پائنتی، میں کھڑا ہوں ناہید بھابی ان سے کلمہ پڑھنے کو بار بار کہ رہی ہیں مگر درد کی شدت اور بار بار کھانسی کے دورے سے وہ نڈھال ہوکر بے سدھ پڑے ہیں جب تیز کھانسی کا دورہ پڑتاہے تو سردار کا چہرہ کرب سے سرخ ہوجاتاہے اور وہ سر اٹھاکر اپنی چھوٹی چھوٹی ادھ کھلی آنکھوں سے ہمیں یوں دیکھنے لگتاہے گویا پہچاننے کی کوشش کرہاہو ناہید بھابی سے یہ سب دیکھا نہیں جارہا ان کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے سردار کھانسی سے بے حال اور سانس گھٹنے کی تکلیف سے تڑپنے لگتاہے مگر پھر اپنی قوت ارادی کے بل پر مصنوعی سکون کا ڈرامہ کرتاہے تو ناہید بھابی تڑپ کر اپنے مجازی خدا کا چہرہ اپنے ہاتھوں کی بکل میں لے لیتی ہیں، اللہ اکبر موت کا بھی اپنا ذائقہ ہے جو ہر ذی روح کو چکھناہے، ڈاکٹرز کے بقول سردار کے گلے کا کینسر پھیل چکاتھا اور زندگی تمام کرنے کو گلے کے غدود پھول کر سانس کی نالی کو دبارہے تھے جس سے اسے سانس لینے میں کافی دقت ہورہی تھی آسان لفظوں میں اس کی تشریح یوں کی جاسکتی ہے کہ کسی انسان کا گلا آہستہ آہستہ دباکر اسے اذیتیں دےکر مارا جائے یہ بلکل اسی طرح کی درد ناک موت تھی، ریلوے اسپتال سکھر ریلوے اسٹیشن کے سامنے ایوب گیٹ سے ملحق تھا اور اس کے سربراہ صحافی دوست اور سب سے بڑھ کر انسان دوست ڈاکٹر سرفراز تھے ، اجمیر سے حیدرآباد سندھ تک کے عظیم شاعر قابل اجمیری مرحوم کی اہلیہ نرگس جو سکھر ریلوے سے وابستہ تھیں کی سفارش پر سردار قریشی کو اپنے اسپتال میں نہ صرف بار بار داخلہ کی اجازت دیتے بلکہ ان کا بہت خیال بھی رکھتے تھے کیونکہ سردار کو لگنے والا موذی مرض ویسے ہی لاعلاج تھا پھر خاص طور پر اس کی تشخیص بھی تب ہوئی جب وہ آخری مرحلہ میں داخل ہوچکا تھا کینسر کی تشخیص ہوتے ہی سردار سی ایم ایچ پنڈی اور کراچی میں آغا خان، لیاقت نیشنل اور جناح سمیت تقریبا ہر جگہ دکھا چکے تھے مگر ہر جگہ زندگی بانٹنے والے فرشتوں نے اس بد نصیب کے ہاتھ میں موت کا پروانہ دے کر واپس بھیج دیا سردار قریشی کامریڈ قسم کا بندا تھا میرا وہ بہت قریبی دوست اور ہمدرد تھا مگر مذاہب کا باغی اور تقدیر سے زیادہ تدبیر پر یقین رکھنے والا مرد قلندر، خاص طور پر بیماری کے آخری ایام میں ہم دونوں بہت قریب آگئے اور اس نے زندگی کی ساری ستم ظریفیاں ایک ایک کرکے چاک سینہ مجھے دکھادیں تب مجھے اس پر بہت پیار آیا ،کاتب تقدیر سے نالاں اس کا بچپن جوانی اور اب مائل بہ بڑھاپا محرومیوں سے بھراتھا اسے لے کر میں اسلام آباد ،کراچی اور سکھر کے مختلف اسپتالوں میں پھرا اس امید کے ساتھ کہ شاید کہیں سے درد دوا مل جائے مگر قدرت نے اس کی موت پر مہر ثبت کردی تھی اس لیے اسے مرناہی تھا سکھر کا وہ بہادر صحافی آخری سانس تک بڑی جرئت سے موت سے پنجہ آزمائی کرتا رہا اس کی مالی مدد کے لیے مینے اور نذیر متین جو ان دنوں میئر سکھر اسلام الدین شیخ کے پی آر او تھے نے ایک محفل غزل کے انعقاد کا فیصلہ کیا جس کے لیے متین نے محمود احمد خان سے رابطہ کیا جو آج کل آرٹس کونسل کراچی کے روح رواں ہیں وہ ان دنوں غالبا الائیڈ بینک کے وائس پریذیڈنٹ تھے اور انہیں سکھر اور لاڑکانہ ڈویزن کا زونل چیف بناکر کراچی سے بھیجا گیا تھا وہ شروع سے ہی ادب پرور، ادب نواز تھے جس کی وجہ سے وہ سکھر کی ادب وثقافت کی محفلوں کی جاں بن گئے اور ہر سو ان کی نکتہ بینی، نکتہ جوئی، لطیف پیرائے میں عمدہ گفتگو کرنے والے ادب نواز کی شہرت پھیلی ہوئی تھی یہ دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ انہوں نے سردار کے لئے ترتیب دیے گئے پروگرام کو مشن سمجھ کر قیادت خود سنبھالی جبکہ ان کی معاونت کے لیےجنگ کے نمائندے اختر جعفری، ڈان کے شمیم شمسی دہ نیوز کے وسیم شمسی، معززین شہر میں شمار ملک شفیع، جنگ کے فوٹو گرافر افتخار احمد عرف بھیا،خان پان ہائوس کے کلیم للہ، سہیل ملک، مقامی صحافی سمیع پیرزادہ ،اختر پرویز چھالیہ والے، صحافی ریاض شاہد، یونس تیل والےاور کئی دیگر بھی تیار ہوگئے یوں طے ہوا کہ اس وقت کی مقبول غزل کی گائک منی بیگم کو سکھر بلایاجائے اور اس کے لیے مجھے اور متین کو کچھ رقم دے کر جو محمود اے خان نے اپنی جیب سے دی تھی کراچی بھیجا، اور اس طرح منی بیگم متعینہ تاریخ پر سکھر پہنچیں تو انہوں نے اپنے مخصوص انداز سے محفل لوٹ لی رات 8 بجے شروع ہونے والی محفل غزل صبح 4 بجے اختتام پذیر ہوئی ٹکٹوں کی فروخت سے جو رقم جمع ہوئی اس میں سے منی بیگم کے رعائتی پیکج کے علاوہ ہزاروں روپئے بچے جو دوسری صبح محمود اے خان، علی اختر جعفری اور شمیم شمسی کی قیادت میں سردار قریشی مرحوم کے حوالے کردی گئی جو اس وقت اسپتال میں زیر علاج تھے انہوں نے اگلے روز اس رقم سے 3/4 وی سی آر اور ایک ٹی وی خریدکر اپنی اہلیہ کے حوالے کردیا کہ میرے مرنے کے بعد انہیں کرائے پر دے کر گھر کے روز مرہ کے اخراجات پورے کرتی رہیں، یوں تو سردار قریشی 2 سال سے کینسر کے خلاف جنگ لڑرہا تھا مگر اس بندو بست کے بعد وہ تیزی سے موت کی طرف بڑھا، ڈاکٹرز نے بیماری کی تشخیص ہوتے ہی کہ دیاتھا کہ مکمل شفاء ممکن نہیں علاج کو طول دے کر زندگی سے کچھ دن یا مہنے ادھار لے سکتے ہیں اس نے کچھ ماہ کی مہلت کے لئے شدید تکلیف برداشت کی جب اس کے گلے کی کیمیو تھراپی ہوتی تو اسے جان کنی کی اذیت سے گزرنا پڑتا لیکن اس سب کے باوجود بھی وہ دن بھی تمام ہوے تاہم وہ ذہنی طور پر مرنے کے لئے تیار تھا وہ بہت دلیر اور اپنے عہد پر قائم رہنے والا بلا کا مستقل مزاج میری زندگی میں آنے والا منفرد مزاج کا صحافی دوست تھا اس نے میرے سامنے دم توڑا مگر مجھے بدل کر رکھ دیا وہ آخری وقت تک موت کے سفر کو مزاح میں بدلتا رہا جان لیوا درد سے چند منٹ بھی اسے اچانک آرام ملتا تو وہ لطیفہ گوئی اور ہنسی مذاق میں اسے گزارتا ڈاکٹر سرفراز نے مرنے سے چند گنٹے پہلے اس کا معائینہ کیا اور ہمیں بتادیا کہ اب وہ صرف چند گھنٹے کا مہمان ہے تو ناہید بھابی نے رونا شروع کردیا ان کی نہ رکنے والی ہچکیوں سے اسے بھی اندزہ ہوگیا مگر پھر بھی ماحول کو بدلنے کی خاطر سر اٹھا کر بھابی کو مخاطب کرکے بولا یار فکر نہ کر میرے بعد آغا ہے نا تمھارا خیال رکھنے کو پھر اس نے لاڈ سے ناہید بھابی کا ہاتھ تھام کر اپنی طرف کھینچا اور پھڑاک سے بولا میرے بعد اس سے شادی کرلینا تمھارا بہت خیال رکھے گا بظاہر اس کے مزاحیہ جملے پر کمرے میں موجود سردار کے عزیز تو ہنس پڑے جو اس کے مزاج سے واقف تھے مگر مجھے اور بھابی کو اس کا مذاق بہت برا لگا کیونکہ ہم ایک دوسرے کو بہن بھائی سمجھتے تھے اور بھابی مجھ سے 10 سال بڑی بھی تھیں، ساڑھے 6 فٹ کے قد کے ساتھ مضبوط ڈیل ڈول کا مالک سردار قریشی مزاجا شریف الطبع اور لڑائی جھگڑے سے دور رہنے والا اندر سے معصوم انسان تھا سر کا بیشتر حصہ بالوں سے محروم اور چپٹے نقوش کے ساتھ وہ ہمدرد مزاج کا شخص تھا اس لیے مجھے اس سے بہت ہمدردی تھی اور ایک ایسا نیک دل صحافی میرے سامنے بستر مرگ پر تھا اسے پھر درد کا دورہ پڑا جو آخری ثابت ہوا آخری ہچکی سے قبل اس کے گلے سے ایسی آوازیں نکلنے لگیں جیسے نرخرا کٹنے پر قربانی کے بکرے کی نکلتی ہیں اور سانس رک رک کر آنے لگا اس کی اذیت کا احساس تھا مگر ہم سب بے بسی سے اس کی آخری ہچکی کا انتظار کرہے تھے بھابی بھاگ کر گئیں اور ڈیوٹی ڈاکٹر کو بلا لائیں اس نے بھی ان کی حالت دیکھ کر مایوسی سے گردن ہلائی اور پھر سردار قریشی کی گردن ایک طرف ڈھلک گئی اسے ہر دنیاوی تکلیف سے نجات مل گئی بھابی کی دل چیردینے والی چیخوں کو نظر اندز کرتے ہوے ڈاکٹر نے آگے بڑھ کر سردار کے دونوں پیروں کو ملاکر نرس کی لائی ہوئی ڈور سے انگوٹھے باندھ دیے پھر سر کو دائیں طرف کرکے اسپتال کی سفید چادراس طرح ڈالی کہ چہرہ بھی اس میں چھپ گیا، اس کے ساتھ ہی سکھر کی صحافت کا ایک باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا-اناللہ واناالیہ راجعون