اسلام آباد(نمائندہ خصوصی ):وزیراعظم شہباز شریف نے نو تشکیل شدہ نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر (این ای او سی) کو سراہتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے خلاف پاکستان کے لیے حفاظتی دیوار ثابت ہوگی، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان ریڈ زون اور 10شدید متاثرہ ممالک کی فہرست میں شامل ہے ، ہمیں حوصلہ نہیں ہارنابلکہ سخت محنت کرنی ہے۔ ان خیالات کااظہارانہوں نے جمعرات کو وفاقی وزراء اور وفاقی سیکرٹریز کے ہمراہ این ای او سی کے دورے کے دوران کیا۔ گزشتہ سال اکتوبر میں نو تشکیل شدہ این ای او سی کے افتتاح کے بعد یہ وزیر اعظم کا پہلا دورہ تھا۔انہوں نے چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پہلے کے مجوزہ منصوبے آفس ٹاور کی تعمیر کےبجائے اتھارٹی کی استعداد کار میں اضافے اور انسانی وسائل کی ترقی پر توجہ مرکوز کرنے کا خواب پورا کیا۔2022 کے سیلاب کے بعد اپنی سابقہ میٹنگزکا حوالہ دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ انہوں نے این ڈی ایم اے کے سربراہ کو تجویز دی تھی کہ وہ ادارے کو جدید ترین ٹیکنالوجی، صوبوں سے تجاویز اور مستقل انسانی وسائل سے لیس کرکے اس کی استعداد کار بڑھانے کو ترجیح دیں۔انہوں نے کہا کہ آج جس طرح اس خواب کو پورا کیا گیا ہے وہ تعریف کا مستحق ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ کسی صوبے نے عالمی معیار کے نظام کے ساتھ ایسی صلاحیت حاصل
کی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ نے بلند عمارت کے بجائے اس ڈیجیٹل ہب میں سرمایہ کاری کی۔وزیراعظم نے کہا کہ 2022 کے سیلاب نے ملک کو 30 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے جس پر قابو پانے میں کئی سال لگیں گے کیونکہ صرف وفاقی حکومت نے متاثرہ آبادی کی بحالی کے لئے 100 ارب روپے خرچ کیے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس وقت کی وزیر موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان، وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور دیگر وفاقی و صوبائی اداروں کی کوششوں کے نتیجے میں ملک لاکھوں لوگوں کی بحالی میں کامیاب ہوا۔وزیر اعظم شہباز شریف نے میرٹ کی بنیاد پر معیاری انسانی وسائل کی شمولیت اور این ایم ڈی اے میں تھرڈ پارٹی ویلیڈیشن میکانزم کے قیام کو سراہتے ہوئے عملے کی تربیت اور سازوسامان کی خریداری کے لئے حکومت کی حمایت اور فنڈنگ کی یقین دہانی کرائی۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی معمولی کام نہیں بلکہ اس سے بالا کام ہے۔انہوں نے وفاقی وزراء اور سیکرٹریز سے کہا کہ وہ پاکستان کو ایک عظیم قوم بنانے کے لیے رول ماڈل کا کردار اداکریں ۔انہوں نے این ڈی ایم اے کو ہدایت کی کہ وہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سمیت صوبوں کے ساتھ قریبی تعاون کو یقینی بنائے اور ڈوپلیکیشن سے بچنے کے لئے کوآرڈینیشن کے ذریعے آلات کی خریداری کا مشورہ دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہاکہ یہ کوئی اخراجات نہیں ہیں بلکہ یہ ہمارے مستقبل کی ایک سرمایہ کاری ہے۔انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے 80 ارب روپے مختص کیے ہیں جبکہ ہواوے کے ساتھ سالانہ تین لاکھ پاکستانی نوجوانوں کو آئی ٹی کی تربیت دینے کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔وزیراعظم نے پاکستان اور خطے میں اپنی نوعیت کے پہلے مرکز کو عملی جامہ پہنانے پر جدید ٹیکنالوجی اور ٹیم این ڈی ایم اے کے ساتھ این ای او سی کے قیام کو سراہا جو قدرتی آفات کی تیاری اور تخفیف کے لیے پاکستان کے عزم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اس موقع پر چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک نے وزیراعظم کو نیشنل کامن آپریٹنگ پکچر (این سی او پی) بنانے، ڈیجیٹل رسک اسسمنٹ کو مضبوط بنانے، قبل از وقت وارننگ سسٹم اور پاکستان کے لیے تیاری کی حکمت عملی کے بارے میں آگاہ کیا۔بریفنگ میں نہ صرف قومی بلکہ علاقائی سطح پر 6 سے 10 ماہ قبل موسم کی پیشگوئی کرنے کی این ای او سی کی صلاحیت پر بھی روشنی ڈالی گئی۔چیئرمین نے این ڈی ایم اے کے طریقہ کار پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ کس طرح این ای او سی نے پی ڈی ایم اے، ڈی ڈی ایم اے، متعلقہ وزارتوں / محکموں اور دیگر متعلقہ اسٹیک ہولڈرز بشمول مقامی بین الاقوامی انسانی شراکت داروں کے درمیان ہنگامی ردعمل اور کوآرڈینیشن کے مرکز کے طور پر کام کیا ہے جو آفات کے تمام مراحل کے دوران خاص طور پر آفات سے پہلے کے مرحلے میں فوری اور موثر ردعمل کو یقینی بناتا ہے۔بریفنگ کے دوران این ڈی ایم اے کی نئی تیار کردہ موبائل ایپلی کیشن بھی پیش کی گئی جس کا مقصد افراد اور کمیونٹیز کو اہم معلومات کے ساتھ بااختیار بنانا ہے تاکہ ممکنہ آفات سے نمٹنے اور موثر طریقے سے تیاری کی جاسکے۔ اس مو قع پر وزیراعظم کے ہمراہ وفاقی وزیر خارجہ اسحاق ڈار، وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ، وزیر صنعت رانا تنویر حسین، وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک، وزیراعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ، وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر رومینہ خورشید عالم اور ڈاکٹر مختار احمد موجود تھےجبکہ صوبوں کے چیف سیکرٹریز، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے چیف سیکرٹریز نے ویڈیو لنک کے ذریعے شریک تھے۔