اسلام آباد۔(نمائندہ خصوصی ):وزیر اعظم کی کوآرڈینیٹر برائے ماحولیاتی تبدیلی رومینہ خورشید عالم نے کہا ہے کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں بالخصوص ہیٹ ویوز اور سیلاب کے بڑھتے ہوئے اثرات سے نمٹنے کے لیے نبرد آزما ہے، ماحولیاتی تبدیلی پہلے ہی اربوں روپے کے ناقابل تلافی معاشی نقصانات کا باعث بن چکی ہے، ان اثرات پر قابو پانے کے لیے حکومت ہر طرح کے پالیسی اقدامات کر رہی ہے اور پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کم کرنے کے لئے اجتماعی اقدامات کی ضرورت ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے نیشنل یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے زیر اہتمام سیمینار ”ڈیزاسٹر ریسیلینٹ پاکستان“ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیر اعظم کی معاون خصوصی نے واضح کیا کہ گزشتہ ایک دہائی میں مجموعی طور پر موسم کے معمولات میں مسلسل رکاوٹوں نے ملک کی زرعی پیداوار کو شدید متاثر کیا ہے، خوراک، پانی، توانائی سے متعلق تحفظات، لاکھوں افراد کے روزگار، بھوک اور غذائیت کی کمی کے مسائل میں اضافے کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کا جغرافیائی محل وقوع اس کے بڑھتے ہوئے سماجی و اقتصادی خطرات کے ساتھ ماحولیاتی بحران سے پیدا ہونے والے خطرات کو تیز کرتا ہے۔ عالمی بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک سمیت بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی مختلف رپورٹس کے شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک مستقبل میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے مزید منفی اثرات کا سامنا کرسکتا ہے، یہ اثرات نہ صرف انسانی زندگیوں اور بنیادی ڈھانچے کو خطرہ میں ڈالتے ہیں بلکہ سماجی و اقتصادی تفاوت کو بھی بڑھاتے ہیں۔رومینہ خورشید عالم نے عالمی بینک کی ”پاکستان: کنٹری کلائمیٹ اینڈ ڈویلپمنٹ رپورٹ“ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 1992 سے 2021 کے درمیان پاکستان میں ماحولیاتی اور موسم سے متعلق آفات سے املاک کو پہنچنے والے نقصان 2020 کے جی ڈی پی کے 11.1 فیصد کے برابر جبکہ اس سے 29.3 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا۔ انہوں نے کہا کہ صرف 2022 میں تباہ کن سیلاب کے باعث 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان ہوا۔ رومینہ خورشید عالم نے تقریب کے شرکا کو وزیر اعظم شہباز شریف کی زیرقیادت میں حکومت کے ماحولیاتی خطرات کو کم کرنے کے اقدامات سے آگاہ کرتے ہوئے کہاکہ حکومت ہمہ گیر پالیسی اقدامات کر رہی ہے۔ وزیر اعظم کی کوآرڈینیٹر رومینہ خورشید نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی کی موافقت اور تخفیف کے پالیسی اقدامات کے ایک حصے کے طور پر لچکدار انفراسٹرکچر، پائیدار زراعت کے طریقوں، موثر پانی کے انتظام اور قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری میں اضافہ ضروری ہے تاکہ ماحولیاتی تبدیلیوں اور خطرات کے خلاف لچک پیدا کی جا سکے،خاص طور پر ساحلی اور پہاڑی علاقوں میں کمزور سماجی و اقتصادی شعبے اور آب و ہوا سے حساس کمیونٹیز کی زندگی اور معاش میں تبدیلی اور ترقی کی ضرورت ہے۔وزیر اعظم کی کوآرڈینیٹر برائے موسمیاتی تبدیلی نے کہا کہ موجودہ حکومت نے پہلے ہی لوگوں کی زندگیوں اور معاش کے تحفظ اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک پائیدار مستقبل کو یقینی بنانے کے لیے ماحول دوست اقدامات کو ترجیح دی ہے، ماحولیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی رابطہ کی وزارت پہلے سے ہی ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مضبوط پالیسیوں اور نفاذ کے فریم ورک کو نافذ کر رہی ہے جس میں قومی ماحولیاتی پالیسی، قومی ماحولیاتی تبدیلی کی پالیسی، نیشنل فاریسٹ پالیسی، پاکستان کلائمیٹ چینج ایکٹ (2017) اور گرین بلڈنگ کوڈزشامل ہیں۔ ان پالیسیوں اور نفاذ کے فریم ورک کے تحت مختلف منصوبے بھی نافذ کیے گئے ہیں جیسے کہ گلیشیئر لیک آئوٹ برسٹ فلڈ (جی ایل او ایف) رسک ریڈکشن پراجیکٹ، دی لونگ انڈس اینی شیئیٹو، ریچارج پاکستان اور گرین پاکستان پروگرام، جس کے تحت 2.1 اورب درخت لگائے گئے ہیں۔رومینہ خورشید عالم نے سیمینار کے شرکا کو بتایا کہ وزارت کی جانب سے متعلقہ صوبائی، قومی اور بین الاقوامی سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے پاکستان کا قومی موافقت کا منصوبہ لاگو کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم کی معاون نے نجی شعبے پر زور دیا کہ وہ حکومتی اقدامات کی حمایت اور فنڈز فراہم کرنے کے لیے آگے بڑھیں ۔ انہوں نے کہا کہ بینکنگ، صنعتی شعبے اور کارپوریٹ سیکٹر سمیت مالیاتی اداروں سے رابطہ کرکے نجی شعبے کو اس عمل میں شامل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تاکہ ماحولیاتی ریزیلنٹ ترقیاتی پروگراموں اور پروجیکٹ میں سرمایہ کاری کی جاسکے۔