اسلام آباد۔:(نمائندہ خصوصی کامرس رپورٹر )قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 25-2024 کا18ہزار 887ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش کر دیا گیا، سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام کا مجموعی حجم 1500 ارب روپے ہے، سبسڈیز کا حجم 1363 ارب روپے رکھا گیا ہے جبکہ مجموعی گرانٹس کا حجم 1777 ارب روپے تجویز کیا گیا ہے، گریڈ ایک سے 16 تک کے سرکاری ملازمین کیلئے تنخواہوں میں 25 فیصد جبکہ 17 سے 22 گریڈ کے آفیسران کی تنخواہوں میں 20 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے جبکہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 15 فیصد اضافے کی تجویز ہے، کم سے کم ماہانہ تنخواہ 32 ہزار سے بڑھا کر 37 ہزار روپے کرنے کی تجویز ہے، ٹیکس محصولات کا ہدف12970 ارب روپے رکھا گیا ہے جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 38 فیصد زیادہ ہے، دفاعی ضروریات کیلئے 2122 ارب روپے مختص کئے جانے کی تجویز اور اقتصادی ترقی کی شرح 3.6 فیصد رہنے کا امکان ہے۔بدھ کو قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے آئندہ مالی سال 25-2024ء کا بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ فروری 2024 کے انتخابات کے بعد مخلوط حکومت کا یہ پہلا بجٹ ہے، تمام اتحادی جماعتوں کی رہنمائی کیلئے ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی اور معاشی چیلنجوں کے باوجود پچھلے ایک سال کے دوران اقتصادی محاذ پر ہماری پیش رفت متاثر کن رہی ہے۔ آج قدرت نے پاکستان کو معاشی ترقی کی راہ پر چلنے کا ایک اور موقع فراہم کیا ہے جسے ضائع کرنے کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے کہا کہ 1990 میں میاں محمد نواز شریف نے پاکستان میں جن معاشی اصلاحات کی بنیاد رکھی ان کو آگے بڑھانے کیلئے وزیراعظم محمد شہباز شریف کی قیادت میں مقامی اصلاحاتی ایجنڈے کے ذریعے موجودہ معاشی مسائل پر قابو پا کر ترقی کی رفتار کو بڑھایا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی گزشتہ حکومت کو سراہتے ہیں جس نے آئی ایم ایف کے ساتھ سٹینڈ بائی معاہدہ کیا۔ اس پروگرام کے تحت کئے جانے والے اقدامات کے نتیجے میں معاشی استحکام کی راہ ہموار ہوئی اور غیر یقینی کی صورتحال اختتام کو پہنچی۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند ماہ میں ہماری مسلسل کاوشوں کے نتائج واضح کر رہے ہیں کہ ہم صحیح سمت میں گامزن ہیں، مہنگائی مئی میں کم ہو کر 12 فیصد پر آ گئی ہے۔ درپیش چیلنجوں میں یہ کامیابی معمولی نہیں ہے، آنے والے دنوں میں اس میں مزید کمی کا امکان ہے۔ انہوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک کی طرف سے شرح سود میں کمی کا اعلان مہنگائی پر قابو پانے کی کوششوں کی تائید اور ثبوت ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ ایک سال میں حاصل کی گئی کامیابیوں کے نتیجے میں ملک بحرانی صورتحال سے نکل چکا ہے اور عوام تک پہنچنے والے ثمرات کا حامل ترقی کا دیرپا سفر شروع ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہی وقت ہے کہ ہم اپنی معیشت میں نجی شعبہ کو مرکزی اہمیت دیں اور چند افراد کی بجائے پاکستان کی عوام کو اپنی ترجیح بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ خسارے کو کم کرناہمارا ایک اہم مقصد ہو گا جس کے حصول کیلئے ہم ایک منصفانہ ٹیکس پالیسی کے ذریعے اپنی آمدن بڑھائیں گے اور غیر ضروری اخراجات کم کرینگے تاہم انسانی ترقی، سماجی تحفظ اور ماحولیات کے حوالے سے اخراجات میں کوئی کمی نہیں لائی جائے گی۔ توانائی کے شعبے میں پیداواری لاگت کو کم کرنا انتہائی اہم ہے،وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت کی اولین ترجیح مہنگائی پر قابو پانا ہے ایک سال قبل افراط زر 38 فیصد جبکہ فوڈ انفولیشن 48 فیصد تھی جس سے کم آمدن طبقات کو شدید مشکلات کا سامنا تھا، حکومت کی بہتر معاشی حکمت عملی کے نتیجے میں مہنگائی میں نمایاں کمی آئی ہے، مئی 2024 میں کنزیومر پرائس انڈکس 11.8 فیصد تھا جبکہ فوڈ انفولیشن صرف 2.2 فیصد تھی، حکومت نے مہنگائی کو سنگل ڈیجٹ تک لانے کیلئے انتھک محنت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح کے حوالے سے دوسرے ممالک سے ہم کافی پیچھے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ٹیکس نظام میں اصلاحات ہماری معاشی کامیابیوں کیلئے انتہائی اہم ہے، ایف بی آر میں کثیر الجہتی اقدامات پہلے سے جاری ہیں۔وزیراعظم ڈیجیٹلائزیشن، ٹیکس پالیسی اور ایف بی آر میں انتظامی اصلاحات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور ان کی واضح ہدایات ہیں کہ ٹیکس نیٹ میں پہلے سے موجود لوگوں پر بوجھ نہ ڈالا جائے بلکہ ٹیکس نیٹ میں وسعت لائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تاجر دوست سکیم متعارف کرائی ہے جس کا مقصد ہول سیلر ریٹیلزر اور ڈیلرز کو رجسٹرڈ کرنا ہے اس سکیم کے تحت 30 ہزار 400 تک رجسٹریشن ہو چکی ہے، آنے والے وقت میں ایف بی آر لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے اپنی کوششوں کو تیز تر کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت اکیلے مالیاتی استحکام کے اہداف کو حاصل نہیں کر سکتی، اس لئے وفاقی حکومت ملک کے مجموعی وسائل میں زیادہ سے زیاہ اضافہ کیلئے صوبائی حکومتوں کے ساتھ ملکر کام کر رہی ہے۔ ان کوششوں کو تقویت دینے کیلئے ہم تمام صوبائی حکومتوں کے ساتھ ایک جامع قومی مالیاتی معاہدہ تجویز کرتے ہیں۔ ہم آہنگی اور یگانگت خود کفالت کے ہدف کو حاصل کرنے کا واحد ر استہ ہے اس سلسلے میں ہماری صوبوں کے ساتھ مشاورت جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومتی اخراجات میں کمی مالیاتی خسارے کو کم کرنے کی حکمت عملی کا دوسرا اہم ستون ہے، ہم غیر ضروری اخراجات کم کر رہے ہیں۔ حکومت پنشن کے نظام میں اصلاحات لا رہی ہے، وفاقی حکومت کی تمام خالی آسامیوں کو ختم کرنے کی تجویز زیر غور ہے جس سے سالانہ 45 ارب روپے کی بچت کا امکان ہے، وفاقی حکومت کے حجم اور وسائل کے ضیاع کو کم کرنے کیلئے ایک اعلیٰ سطح اور بااختیار کمیٹی تشکیل دی گئی جو حکومتی ڈھانچے کا بغور جائزہ لے گی اور اگلے ڈھائی ماہ میں اپنی سفارشات کابینہ کو پیش کرے گی۔ وزیراعظم نے رائیٹ سائزنگ کے حوالے سے پہلے اقدام کے طور پر پی ڈبلیو ڈی کے محکمے کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک میں کاروباری سرگرمیوں کو تیز کرنے اور برآمدات بڑھانے کیلئے ریگولیٹری فریم ورک کو آسان بنانا انتہائی اہم ہے، اس سلسلے میں سرمایہ کاری بورڈ کے تحت پاکستان ریگولیٹری ماڈرنائزیشن اینیشیٹو کا آغاز کر دیا گیا ہے جس کا مقصد آٹومیشن کے ذریعے کاروباری ماحول کو بہتر کرنا ہے تاکہ سرمایہ کاری برآمدات اور معاشی ترقی کی رفتار کو بڑھایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی حکومت کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ اشیاء اور خدمات کے حصول میں صرف ہوتا ہے، پروکیورمنٹ کے نظام میں آسانی اور شفافیت کے ذریعے حکومت کی کارکردگی میں بہتری لانے کے ساتھ ساتھ وسائل کی بچت بھی کی جا سکتی ہے۔ ای پروکیورمنٹ سے سرکاری اخراجات میں 10 سے 20 فیصد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔ اس نظام سے کرپشن، فراڈ اور بدنیتی جیسے مسائل پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ یہ نظام 37وزارتوں جبکہ 279 پروکیورنگ ایجنسیوں میں نافذ ہو چکا ہے، حکومت کا پختہ ارادہ ہے کہ تمام پروکیورمنٹ کو اسی سال ای پروکیورمنٹ کے فریم میں لایا جائے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومتوں کو کاروبار نہیں کرنا چاہئے، وزیراعظم اس سلسلے میں حکومتی عمل کو کم کرنے اور نجی شعبہ کو فروغ دینے پر پختہ یقین رکھتے ہیں، اسی لئے ہم نے نجکاری کو ایک کلیدی ترجیح بنایا ہے، نہ صرف پی آئی اے، روزویلیٹ ہوٹل، ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن اور فرسٹ وومن بینک جیسے اداروں کی جاری نجکاری میں تیزی لائیں گے بلکہ نجی شعبہ کی سرمایہ کاری کیلئے دیگر سرکاری اداروں کو پیش کرنے کا ایک ٹھوس پروگرام بھی شروع کرنے جا رہے ہیں، آنے والے سالوں میں توانائی، مالیاتی اور صنعتی شعبوں میں ایس او ایز کی ملکیت اور انتظام کی نجی شعبے کو منتقلی پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔
انہوں نے پی آئی اے کی نجکاری کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ فروری 2024 میں حکومت کے آنے کے بعد اس سلسلے کو تیزی سے آگے بڑھایا ہے، مارچ 2024 میں پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی کی تشکیل کی گئی جس کے بعد 622 ارب روپے کے اثاثہ جات کو پی آئی اے سے منتقل کیا گیا، اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے نجکاری کمیشن نے اپریل 2024 میں پی آئی اے کی نجکاری کیلئے اظہار دلچسپی کی دعوت دی جس میں 12 کمپنیوں نے دلچسپی کا اظہار کیا۔ 6 کمپنیوں کو پر ی کوالیفائی کیا گیا، اگست 2024 کے پہلے ہفتے میں سرمایہ کاروں کی جانب سے بڈز منگوا لی جائیں گی جس کے بعد یہ سلسلہ پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ملک کے بڑے ہوائی اڈوں کو آئوٹ سورس کر رہی ہے، اس سے ایک طرف مسافروں کو بہتر سہولیات میسر آئیں گی اور دوسری جانب آمدن میں اضافہ ہو گا، اسلام آباد انٹرنیشنل ایئر پورٹ کو سب سے پہلے آئوٹ سورس کیا جائے گا، اس سلسلے میں عالمی مسابقتی بڈنگ کے ذریعے 15 جولائی 2024ء تک بولیاں وصول ہو جائیں گی۔ لاہور اور کراچی ایئر پورٹس کی آئوٹ سورسنگ کا آغاز چند ماہ بعد کیا جائے گا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ وفاقی حکومت پر کھربوں روپے کی پنشن کا بوجھ ہے، پنشن کے اخراجات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ان اخراجات میں اضافے کی شرح کو کم کرنے کی ضرورت ہے، حکومت نے اس شعبہ کی اصلاح کیلئے سہ جہتی حکمت عملی مرتب کی ہے، جس کے تحت موجودہ پنشن سکیم میں اصلاحات لائی جائیں گی، نئے ملازمین کیلئے کنٹربیوٹری پنشن سکیم متعارف کرانے کی حکمت عملی بنائی گئی ہے جس میں حکومت کا حصہ ہر ماہ ادا ہو گا، اس سے مستقبل کے ملازمین کی پنشن ان کی ملازمت کے آغاز سے ہی مکمل فنڈڈ ہو گی، اس کے علاوہ پنشن فنڈ کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ہمارے سماجی تحفظ کے اقدامات کے سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے، اتحادی حکومت کا عزم ہے کہ کمزور طبقے کی زیادہ سے زیادہ معاونت کی جائے، آئندہ مالی سال کے بجٹ کے ذر یعے کمزور طبقوں کو بی آئی ایس پی پروگرام کے ذریعے معاونت کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا، اس کی رقم میں 27 فیصد اضافے کے ساتھ 593 ارب روپے تک لے جایا جائے گا، کفالت پروگرام کے تحت مستفید ہونے والے افراد کی تعداد 93 لاکھ سے بڑھا کر ایک کروڑ کی جائے گی، تعلیمی وظائف میں مزید 10 لاکھ بچوں کا اندراج کیا جائے گا، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے مالی خود مختاری کا ہائی برڈ سوشل پروٹیکشن پروگرام متعارف کرانے کے منصوبے کا بھی آغاز کیا جا رہا ہے،
وزیر خزانہ نے کہا کہ زراعت ہماری معیشت کا اہم ستون ہے، ملک کی فوڈ سکیورٹی اور صنعتی شعبے کی پیداواری صلاحیت اسی شعبے پر منحصر ہے۔ زرمبادلہ کمانے کے بھی یہ بڑے ذرائع ہیں، وزیر اعظم کے اعلان کردہ کسان پیکیج کے تحت اس سکیم کیلئے 5 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا کہ توانائی کا شعبہ گردشی قرضوں کے چیلنجوں سے دوچار ہے، موجودہ مالی سال کے دوران بجلی کی تقسیم کو بہتر بنانے کیلئے کئی اقدامات کئے گئے جن کے نتیجے میں سال کے اختتام تک سرکلر ڈیٹ سٹاک میں کوئی اضافہ نہیں ہو گا، بجلی چوری کیخلاف مہم سے ہمیں پچاس ارب روپے کی بچت ہوئی، آئندہ مالی سال کی اصلاحات کے تحت نقصانات کو کم کرنے کیلئے ٹرانسمیشن و ڈسٹری بیویشن کارکردگی کو بہتر بنایا جائے گا، این ٹی ڈی سی کی تنظیم نو کی جا رہی ہے، نوڈسکوز اور جینکوز کی نجکاری کو تیز کرنے کا منصوبہ ہے، بجلی چوری کیخلاف مہم کو زیادہ منظم کیا جائے گا، بجلی کی پیداوار کو مہنگے برآمدی فیول کی بجائے قابل تجدید توانائی کی طرف منتقل کرنا ہماری اولین ترجیح ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ توانائی کے شعبہ کیلئے ترقیاتی بجٹ میں 253 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے، این ٹی ڈی سی کے سسٹم میں بہتری کیلئے 11 ارب روپے کی رقم تجویز کی گئی ہے، انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں آبی وسائل کیلئے 206 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، یہ سرمایہ کاری پینے کے صاف پانی تک رسائی، زرعی پیداواری صلاحیت اور ہائیڈل پاور سے متعلقہ شعبوں میں لگائی جائے گی، مہمند ڈیم کیلئے 45، دیامیر بھاشا کیلئے 40، چشمہ رائیٹ بینک کینال کیلئے 18 ارب روپے اور بلوچستان میں پٹ فیڈر کینال کی ری ماڈلنگ کیلئے 10 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت آئی ٹی سیکٹر پر آئندہ مالی سال میں خصوصی توجہ دے گی، حکومت کی سازگار پالیسیوں کی وجہ سے رواں مالی سال آئی ٹی کی برآمدات ساڑھے 3 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ آئی ٹی سیکٹر کیلئے 79 ارب روپے سے زیادہ رقم مختص کی جانے کی تجویز دی گئی ہے، فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں ڈیجیٹلائزیشن اور اصلاحات کیلئے 7 ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں، کراچی میں آئی ٹی پارک کی تشکیل کیلئے 8 ارب روپے، ٹیکنالوجی پارک ڈویلپمنٹ پراجیکٹ اسلام آباد کیلئے 11 ارب روپے، پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ کیلئے 2 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔
انہوں نے کہا کہ انسانی ترقی میں سرمایہ کاری حکومت کی بہترین سرمایہ کاری ہے، حکومت بچوں کی تعلیم کیلئے سازگار ماحول کی فراہمی میں خاطر خواہ سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کے تحت اسلام آباد کے 167 سرکاری سکولوں میں انفراسٹرکچر اور تعلیمی سہولیات کو بہتر بنانے کیلئے رقم مختص کرنے کی تجویز ہے، اسلام آباد کے 200 پرائمری سکولوں میں طلباء کو متوازن اور غذائیت سے بھرپور کھانا فراہم کیا جائے گا، پڑھائی اور تحقیق کے کلچر کو فروغ دینے کیلئے ای لائبریریاں قائم کی جائیں گی،
اسلام آباد کے 16 ڈگری کالجز کو نسٹ، این ایس یو، نمل اور کامسیٹس جیسی مشہور یونیورسٹیوں کے تعاون سے اعلیٰ نظام کے حامل تریبتی اداروں میں تبدیل کیا جائے گا، 6 ماہ کے آئی ٹی کورسز کرائے جائیں گے، پرائیویٹ سکولوں میں زیر تعلیم طلباء کیلئے ایجوکیشن ووچر سکیم متعارف کرائی جا رہی ہے، دیہی سے شہری علاقوں تک طالبات کے سفر کیلئے پنک بسیں متعارف کرائی جا رہی ہیں، وزیراعظم کی ہدایت پر دانش سکولوں کے پروگرام کو اسلام آباد، بلوچستان، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان تک پھیلایا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ہمارے معاشی ڈھانچے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، حکومت بیرون ملک مقیم اہل وطن کی مدد کیلئے متعدد سہولیات متعارف کروا رہی ہے، ان میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجے جانے والے ترسیلات زر کے فروغ کیلئے 86.9 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، یہ رقم ٹی ٹی چارجز کی واپس ادائیگی، سوہنی دھرتی سکیم اور دیگر سکیموں کیلئے استعمال کی جائے گی، افرادی قوت کو مارکیٹ کے جدید ترین تقاضوں کے مطابق تیار کرنے کیلئے سنٹر آف ایکسلینس قائم کئے جائیں گے، تارکین وطن کی شکایات کے بروقت ازالے کیلئے موثر نظام بنایا جائے گا، اس کیلئے ایک بین الاقوامی کال سنٹر کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ نئے ایمیگرینٹس کیلئے جلد از جلد بیرون ملک آباد کاری کیلئے قرض کی سہولیات فراہم کرنے پر کام جاری ہے، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی غیر ملکی خدمات کے اطراف کیلئے محسن پاکستان ایوارڈ متعارف کرایا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں برآمدات کو فروغ دینے کی کوششوں کے باوجود اس میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو سکا اس شعبے کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایگزم بینک کے ذریعے ایکسپورٹ ری فنانس سکیم کیلئے مختص رقم کو 3 ارب 80 کروڑ سے بڑھا کر 13 ارب 80 کروڑ کرنے کی تجویز ہے۔ سٹیٹ بینک کے ذریعے 539 ارب روپے کے ایکسپورٹ کریڈٹ کی فراہمی کی جائے گی، وزیراعظم نے اس بات کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے کہ اس سہولیات کا کم سے کم 40 فیصد ایس ایم ایز سیکٹر پر مرکوز رہنا چاہئے، حکومت کی ایس ایم ایز حکمت عملی کے تحت ایس ایم ایز کے کریڈٹ کو 540 ارب روپے سے بڑھا کر 11 سو ارب روپے کیا جائے گا، جس میں سے 100 ارب روپے کا اضافہ اگلے مالی سال کے دوران کیا جائے گا، مستقبل میں یہ اقدام پاکستان کے برآمدی شعبے کو ایک اہم لائف لائن فراہم کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ بیرونی سرمایہ کاری ہماری ادائیگیوں کے توازن اور پاکستان کی ساکھ میں اضافے کیلئے اہم ہے، اس سلسلے میں برادر اور دوست ممالک کے ساتھ بات چیت اور کوششیں حتمی مراحل میں ہیں، انہوں نے سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کے کردار کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ خلیج تعاون کونسل ممالک سے زراعت، لائیو سٹاک، کان کنی اور سیاحت جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری کو لانے کے عمل کی قیادت کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے دورہ چین کا مقصد سی پیک کے دوسرے مرحلے کا احیا کرنا تھا، سی پیک کے اس مرحلے میں چینی کمپنیوں کو خصوصی اقتصادی زونز کے ذریعے پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کئے جائیں گے، اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی کمپنیاں چینی کمپنیوں کے ساتھ جوائنٹ وینچر کر سکیں گی، سی پیک کے دوسرے مرحلے سے ملک میں صنعتی شعبے اور برآمدات میں اضافے کا ایک نیا باب کھلے گا۔وزیراعظم نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے پاکستان کو شدید خطرات لاحق ہیں، حکومت ان خطرات سے نمٹنے کیلئے کوشاں ہے جس کیلئے پاکستان کلائمیٹ چینج اتھارٹی کو فعال کیا جا رہا ہے، نیشنل کلائمیٹ فنانس سٹرٹیجی اکتوبر 2024 تک تیار کر لی جائے گی جس کا مقصد گلوبل کلائمیٹ فنانس کو پاکستان میں لانا ہے۔ ای بائیکس کیلئے 4 ارب اور توانائی کی بچت والے پنکھوں کیلئے 2 ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں، آئندہ مالی سال کے بجٹ کے اہم خدوخال پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مالی سال 25-2024 کیلئے اقتصادی ترقی کی شرح 3.6 فیصد رہنے کا امکان ہے، افراط زر کی اوسط شرح 12 فیصد متوقع ہے، بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 5.9 فیصد جبکہ پرائمری سرپلس جی ڈی پی کا ایک فیصد ہو گا۔انہوں نے بتایا کہ ایف بی آر کے محصولات کا تخمینہ 12 ہزار 970 ارب روپے جو کہ رواں مالی سال سے 38 فیصد زیادہ ہے، وفاقی محصولات میں صوبوں کا حصہ 7 ہزار 438 ارب روپے ہو گا۔ انہوں نے بتایا کہ وفاقی نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 3 ہزار 587 ارب روپے ہو گا، وفاقی حکومت کی خالص آمدنی 9 ہزار 119 روپے ہو گی، وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 18 ہزار 877 ارب روپے ہے جس میں سے 9 ہزار 775 ارب روپے سود کی ادائیگی کیلئے ہونگے، سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام کیلئے 14 سو ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے، پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے 100 ارب روپے اضافی مختص کئے گئے ہیں، دفاعی ضروریات کیلئے 2122 ارب روپے فر اہم کئے جائیں گے، سول انتظامیہ کیلئے 839 ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں، پنشن کے اخراجات کیلئے 1014 ارب روپے، بجلی گیس اور دیگر شعبوں کی سبسڈیز کیلئے 1363 ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے ضم اضلاع گلگت بلتستان، اے جے کے، بی آئی ایس پی ، ایچ ای سی، ترسیلات زر اور آئی ٹی کے شعبے کے فروغ کیلئے 1777 ارب روپے مختص کرنے تجویز ہے۔انہوں نے کہا کہ سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام میں جاری منصوبوں کو ترجیح دی گئی ہے، بنیادی انفراسٹرکچر کیلئے 59 فیصد، سماجی شعبہ کیلئے 20 فیصد کا ترقیاتی بجٹ مختص کئے جانے کی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے 25-2024ء کیلئے تاریخ میں سب سے بڑا فیڈرل پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ دیا ہے جس کا حجم ایک ہزار پانچ سو (1,500) ارب روپے ہے۔ جو پچھلے سال کے نظر ثانی شدہ حجم سے ایک سو ایک (101) فیصد زیادہ ہے۔ پندرہ سو (1500) ارب میں پی پی پی پراجیکٹس کے لیے ایک سو (100) ارب روپے شامل ہیں۔ اس مشکل صورتحال میں، ترقیاتی بجٹ کا یہ حجم انفراسٹرکچر کو ترقی دینے اور transportation ، توانائی، آئی ٹی اور آبی وسائل کے انتظام میں اہم چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے حکومت کے عزم اور اخلاص کا مظہر ہے تا کہ معاشی ترقی میں سہارا ملے اور اہل وطن کے معیار زندگی میں بہتری آئے۔پی ایس ڈی پی میں جاری منصوبوں کی تکمیل کو ترجیح دی گئی ہے اور تقریبا اکیاسی (81) فیصد وسائل جاری منصوبوں کے لیے جبکہ صرف انیس (19) فیصد وسائل نئے منصوبوں کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔بنیادی انفراسٹرکچر کا شعبہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ مالی سال 2024-25 کی پی ایس ڈی پی میں اس شعبے کے لیے انسٹھ (59) فیصد رقم مختص کرنے کی تجویز ہے۔ سماجی شعبے کے لیے ترقیاتی بجٹ میں (20) فیصد رکھنے کی تجویز ہے ، ملک میں متوازن علاقائی ترقی کو یقینی بنانا ایک آئینی ذمہ داری ہے۔ اس لیے آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے ضم شدہ اضلاع کے لیے دس (10) فیصد وسائل مختص کیے گئے ہیں۔ تقریبا گیارہ اعشاریہ دو (11.2) فیصد وسائل دیگر شعبوں جیسے آئی ٹی اور ٹیلی کام، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ، گورنس اور پروڈکشن سیکٹر وغیرہ کے لیے مختص ہیں۔انہوں نے کہا کہ پی ایس ڈی پی 25-2024 کے لیے قومی اقتصادی کونسل کی طرف سے منظور کردہ گائیڈ لائن کے مطابق درج ذیل معیار پر اترنے والے منصوبوں کو ترجیح دی جائے گی جن میں آبی وسائل ، ٹرانسپورٹیشن Strategic and Core projects مواصلات اور توانائی کے شعبوں کی طرف خاص توجہ دی جائے گی۔ غیر ملکی امداد سے چلنے والے منصوبے، تاکہ ان کی تکمیل مقررہ وقت پر ہو سکے اور تمام شعبوں میں ایسے منصوبے جن پر خرچہ اسی (80) فیصد سے زیادہ ہو چکا ہے اور جنہیں مالی سال 25-2024 کے دوران مکمل کیا جاسکتا ہے اور معیشت کو بر وقت مالی اور اقتصادی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ٹرانسپورٹیشن کے شعبے میں ہائی ویز کے نیٹ ورک کو بہتر بنانے، بڑے شہروں اور علاقوں کے درمیان رابطے بڑھانے، اور ٹریفک کے بڑھتے ہوئے حجم کو سنبھالنے کے لیے موجودہ انفراسٹرکچر کو اپ گریڈ کرنے کے منصوبوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ برآمدات اورپیداواری صلاحیت میں اضافہ کیلئے نئے منصوبوں کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے، پی ایس ڈی پی میں اس حوالہ سے متوازن ترقی کیلئے اقدامات کوشامل کیاگیاہے، اس ضمن میں نجی شعبہ کا کردارکلیدی اہمیت کاحامل ہے، حکومت نجی شعبہ کی حوصلہ افزائی کررہی ہے، سرکاری اورنجی شعبہ کے درمیان تعاون سے تمام فریقوں کویکساں فائدہ پہنچے گا۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ ٹرانسپورٹیشن کے شعبہ میں ہائی ویز کے نیٹ ورک کو بہتربنانے، بڑے شہروں اورعلاقوں کے درمیان رابطے بڑھانے، اورٹریفک کے بڑھتے ہوئے حجم کو سنبھالنے کیلئے موجودہ بنیادی ڈھانچہ کوجدید بنانے کے منصوبوں پرتوجہ دی گئی ہے، مزیدبرآں ایسے اقدامات کئے جارہے ہیں جن کا مقصد ملک کے توانائی کے بنیادی ڈھانچہ کو وسعت دینا اور جدید بنانا ہے، جن میں ہائیڈرو پاور ڈیم کی تعمیر، سولر پاور پلانٹس کی تنصیب، اور ٹرانسمیشن لائنیں بچھانا شامل ہیں تاکہ بجلی کی موثراورفعال تقسیم کو یقینی بنایا جا سکے اور توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کیا جا سکے۔سیلاب میں کمی اور زرعیوگھریلو استعمال کے لیے پانی کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ڈیموں، آبپاشی کے نظام، اور نکاسی آب کے نیٹ ورکس کی تعمیر کے ذریعے پانی کے وسائل کوموثرانتظام وانصرام خصوصی توجہ دی جائے گی۔ یہ منصوبے بنیادی ڈھانچہ کو ترقی دینے اور ٹرانسپورٹیشن، توانائی اور آبی وسائل کے انتظام میں در پیش بڑے چیلنجز سے نمٹنے کے عزم کی عکاسی کرتے ہیں تاکہ اقتصادی ترقی میں مدد ملے اور شہریوں کے معیار زندگی کو بہتر بنایا جا سکے۔وزیرخزانہ نے کہاکہ اگلے مالی سال کی پی ایس ڈی پی میں انفراسٹرکچر کی فراہمی کے لیے آٹھ سو چوبیس ارب روپے کی خطیر رقم مختص کرنے کی تجویز ہے جس میں سے توانائی کے شعبہ کے لیے 253 ارب روپے، ٹرانسپورٹ اینڈ کمیونیکیشن سیکٹر کے لیے 279 ارب روپے، واٹر سیکٹر کے لیے دو سو چھ (206) ارب روپے جبکہ پلاننگ اور ہا ئوسنگ کے لیے چھیاسی (86) ارب روپے شامل ہیں۔ سماجی شعبے کے لیے رواں سال میں دو سو چوالیس (244) ارب روپے کے مقابلے میں دو سو اسی (280) ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔خصوصی علاقے (آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان) کے لیے پچھتر (75) ارب روپے، خیبر پختونخوا کے ضم ہونے والے علاقوں کے لیے چونسٹھ (64) ارب روپے اور سائنس اور آئی ٹی کے لیے اناسی (79) ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اسی طرح پروڈکشن سیکٹر بشمول زراعت کے لیے پچاس (50) ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ سالانہ ترقیاتی پروگرام میں ہنربہترکرنے پر بھی خصوصی توجہ دی گئی ہے تاکہ ہمارے ملک کے نوجوان جدید علوم اور ٹریننگ حاصل کر کے روزگار حاصل کر سکیں اور ملک کی ترقی میں بھر پور کردار ادا کر سکیں۔وزیرخزانہ نے کہاکہ کراچی نہ صرف ملک کا سب سے بڑا شہر ہے بلکہ ملک کی اقتصادی ترقی میں کراچی کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ تمام شراکت داروں کی مشاورت سے کراچی کے انفراسٹرکچر کو جدت کی طرف لے جایا جائے۔اس کے لیے ایک جامع کراچی پیکیج کی تجویز ہے۔ جس کے ساتھ ساتھ حیدرآباد، میر پور خاص، سکھر اور بے نظیر آباد کے لیے بھی منصوبے مرتب کرنے کی تجویز ہے۔ اسی طرح کراچی کو پانی کی سپلائی بہتر بنانے کے لیے 4-K منصوبے کے لیے ایک خطیر رقم رکھنے کی تجویز ہے تاکہ اس اہم منصوبے کو تکمیل کی طرف لے جایا جائے۔وزیرخزانہ نے کہاکہ وزیر اعظم کی خصوصی ہدایت پر اسلام آباد کے ہسپتالوں کوجدید بنانے کرنے کے لیے جامع پلان مرتب کیا جائے گا تاکہ اسلام آباد، راولپنڈی، آزاد کشمیر، خیبر پختونخوا اور گردو نواح کے علاقوں کی عوام کو علاج معالجہ کی جدید سہولیات فراہم کی جاسکیں۔خاص طور پر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسزاورقائداعظم ہیلتھ ٹاور کے نام سے ایک نیا منصوبہ شروع اوراسکے لیے ایک خطیر رقم رکھنے کی تجویز ہے۔ ٹیکس پالیسی کے حوالہ سے اقدامات کاذکرکرتے ہوئے وزیرخزانہ نے کہاکہ ٹیکس کی بنیاد کووسیع کر کے جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کیا جائیگا، غیردستاویزی معیشت کاخاتمہ کیاجائیگا۔