اسلام آباد(کامرس رپورٹر )وفاقی وزیر خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ جاری مالی سال کے دوران آئی ایم ایف، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے اندازوں کے برعکس پاکستان کی اقتصادی ترقی کی شرح 2.4 فیصد بڑھی ہے، جاری مالی سال کے دوران پاکستان کی معیشت کا حجم11 فیصد اضافہ کے بعد 338 ارب ڈالر سے بڑھ کر 375 ارب ڈالر ہو گیا ہے، خیرات سے فلاحی ادارے تو چل سکتے ہیں ملک نہیں چل سکتا، ملک چلانے کیلئے ٹیکس ضروری ہے، فی کس آمدنی 129 ڈالر کے اضافہ کے بعد 1680 ڈالر ہو گئی ہے، مہنگائی کی شرح 11.8 فیصد ریکارڈ کی گئی۔منگل کو جاری مالی سال24۔2023 کے اقتصادی سروے کے اجراء کے موقع پر وزیر مملکت علی پرویز ملک، اکنامک ایڈوائزر ڈاکٹر امتیاز، سیکرٹری خزانہ امداد اﷲ بوسال اور سیکرٹری منصوبہ بندی شہریار سلطان کے ہمراہ پریس بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا کہ گزشتہ مالی سال کے اختتام پر جی ڈی پی کی شرح 0.2 فیصد تھی، روپے کی قدر میں 29 فیصد کی کمی ہوئی تھی جبکہ ہمارے پاس صرف دو ہفتوں کا امپورٹ کور تھا، ان مشکل حالات میں ہم نے نئے مالی سال کا آغاز کیا تھا، اس وقت ہمیں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے پروگرام کی ضرورت تھی کیونکہ اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی پلان بی نہیں تھا، وزیراعظم شہباز شریف نے بہترین اقدامات کئے اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ سٹینڈ بائے معاہدہ کے ذریعے معیشت کے استحکام کی بنیاد رکھی، اگر یہ معاہدہ نہ ہوتا تو ہم معاشی اہداف حاصل نہیں کر سکتے تھے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ جاری مالی سال کے دوران بڑی صنعتوں کی پیداوار میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کی بنیادی وجہ بلند شرح سود اور توانائی کی عدم
مساوات تھی تاہم زراعت کے شعبہ نے نمایاں ترقی کی اور ہم نے بمپر فصلیں حاصل کیں، ڈیری اور لائیو سٹاک کے شعبہ میں بھی نمایاں نمو ہوئی ہے، زراعت اب بھی ہمارا اہم ہدف ہے۔ انہوں نے کہا کہ مالیاتی سطح پر بھی مثبت پیشرفت ہوئی ہے، ایف بی آر کی محصولات کی وصولی کی شرح میں 30 فیصد کا نمایاں اضافہ ہوا ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی، پرائمری سرپلس میں صوبوں کا بھی اچھا کردار رہا جس کا کریڈٹ صوبوں کو ملنا چاہئے، جاری مالی سال کے آغاز پر ہمارا اندازہ تھا کہ حسابات جاریہ کے کھاتوں کا خسارہ 6 ارب ڈالر کے قریب رہے گا تاہم سال کے اختتام پر یہ 200 ملین ڈالر کے لگ بھگ ہو گا جو ایک بڑی کامیابی ہے، گذشتہ تین ماہ کے دوران حسابات جاریہ کے کھاتوں کا توازن فاضل رہا ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ترسیلات زر میں بھی نمایاں بہتری ہوئی ہے، ملکی کرنسی میں استحکام آیا ہے، کرنسی کے استحکام میں نگران حکومت کی جانب سے انتظامی اور سٹیٹ بینک کی جانب سے ڈھانچہ جاتی اقدامات نے کلیدی کردار ادا کیا، جن بینکوں کے پاس بوتھ موجود تھے ان کی تعداد بڑھانے جبکہ جن کے پاس بوتھ نہیں تھے انہیں بوتھ کھولنے کی ہدایات جاری کی گئیں، سٹہ بازی اور قیاس آرائیوں کے خاتمہ کیلئے اقدامات کئے گئے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ مالی سال کے آغاز پر زرمبادلہ کے حوالے سے پاکستان ڈیفالٹ کے دہانے پر تھا، اس وقت سٹیٹ بینک کے پاس 9 ارب ڈالر سے زائد کے ذخائر ہیں جو 2 ماہ کے امپورٹ کور کیلئے کافی ہیں، اس کا کریڈٹ بھی سٹیٹ بینک کو جاتا ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ مہنگائی میں بھی بتدریج کمی آ رہی ہے، گذشتہ سال کے اختتام پر افراط زر کی شرح 38 فیصد تھی جو اب 11.8 فیصد کی سطح پر آ گئی ہے، بنیادی اور خوراک کی مہنگائی کی شرح میں کمی ہوئی ہے، پالیسی ریٹ میں بھی کمی کر دی گئی ہے، ہمیں توقع ہے کہ جو زری سہولت شروع ہوئی ہے اس سے افراط زر میں کمی اور معیشت پر مثبت اثرات ہوں گے، ہمیں یہ بھی توقع ہے کہ آنے والے مہینوں اور سالوں میں پالیسی ریٹ سنگل ڈیجٹ پر آ جائے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ معیشت کے استحکام کیلئے اقدامات سے مارکیٹ پر اچھے اثرات مرتب ہوئے ہیں، سٹاک مارکیٹ میں بیرونی خریدار آ رہے ہیں، یہ وہ اشارے ہیں جس سے کلی معیشت کے استحکام کی عکاسی ہو رہی ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ ہماری بات چیت پیداواری اور تعمیری رہی، پاکستان نے سٹینڈ بائے معاہدے کا 9 ماہ کا پروگرام کامیابی سے مکمل کیا، اس دوران پاکستان نے جس نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا اس سے ملک کو فائدہ ہوا ہے، حکومت اصلاحات کے عمل میں سنجیدہ ہے، ہمیں جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح کو بڑھانا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس کے نظام میں اصلاحات لانا ہیں، توانائی اور سرکاری ملکیتی کاروباری اداروں کو بہتر بنانا بھی ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت سٹرٹیجک ایس او ایز کو رکھا جا سکتا ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ ہماری بات چیت اب بھی جاری ہے اور اس حوالے سے مثبت پیشرفت کی توقع ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ اصلاحات اور معاشی استحکام کے حوالے سے دو اہم پہلو ہیں، پہلا پہلو یہ ہے کہ جہاں پر پالیسی ہے وہاں اس پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے، دوسرا یہ کہ ایف بی آر میں لیکیجز کو بند کیا جائے، ٹریک اینڈ ٹریس نظام کو مؤثر بنایا جائے، ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن پر کام ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی مقدس گائے نہیں ہے، ملکی معاملات کیلئے سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، خیرات سے فلاحی ادارے تو چل سکتے ہیں ملک نہیں چل سکتا، ملک ٹیکسوں سے چلتا ہے، اس وقت بجلی کے شعبہ میں سالانہ 500 ارب روپے کی چوری کا تخمینہ ہے، ڈسکوز کے کارپوریٹ گورننس کو بہتر کیا جا رہا ہے، ڈسکوز کو نجی شعبہ کی طرف لے کر جا رہے ہیں، ایک بات بہت واضح ہے کہ ڈسکوز سرکاری شعبہ میں نہیں رہ سکتے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ زراعت پاکستان کی معیشت کا بدستور اہم ستون ہو گا، زراعت اور آئی ٹی دو ایسے شعبے ہیں جن کا آئی ایم ایف کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، ان شعبوں پر توجہ دے کر اور پیداوار میں اضافہ کے ذریعے ہم شرح نمو کو بڑھا سکتے ہیں، زراعت اور آئی ٹی کے شعبہ جات کو قرضوں کی فراہمی کیلئے گورنر سٹیٹ بینک کے ساتھ ہم رابطہ میں ہیں، زراعت میں مڈل مین کے کردار کو کم کرنے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں، حکومت پنجاب نے اس حوالے سے اقدامات شروع کئے ہیں، باقی صوبوں کے ساتھ بھی مشاورت کے ساتھ آگے بڑھیں گے، پاسکو کی ری سٹرکچرنگ کریں گے اور اس حوالہ سے آنے والے دنوں میں اقدامات کئے جائیں گے۔وزیر مملکت برائے اقتصادی امور علی پرویز ملک نے اس موقع پر کہا کہ معیشت میں استحکام اور جو اعتماد نظر آ رہا ہے یہ ان اقدامات کا نتیجہ ہے جو وزیراعظم شہباز شریف نے لئے ہیں، ہماری پوری توجہ معاشی استحکام کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا ہے تاکہ معیشت دوبارہ کمزوری کی طرف نہ جائے، اس حوالہ سے ہمیں آئی ایم ایف کے ساتھ نظام کو آگے لے کر جانا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے واضح ہدایات جاری کی ہیں کہ معاشی طور پر کمزور طبقات پر کوئی بوجھ نہ ڈالا جائے، حکومت معیشت کو دستاویزی بنا رہی ہے، نان فائلرز کو فائلرز بنانے کیلئے اقدامات ہو رہے ہیں، تمام پاکستانیوں کو اپنی آمدنی اور حیثیت کے مطابق پاکستان کی ترقی کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، ہمیں ڈھانچہ جاتی فالٹ لائن کو درست کرنا ہے۔کیپسٹی ادائیگیوں سے متعلق سوال پر وزیر مملکت نے کہا کہ پاکستان کی ساورن وعدے ہوتے ہیں جن پر عملدرآمد کرنا پڑتا ہے، ریاستی وعدوں کا احترام کیا جاتا ہے اور جہاں پر مسائل ہوں وہاں بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس بجلی کی استعداد بہت زیادہ ہے مگر نقصانات کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے تاکہ گردشی قرضہ نہ بڑھے۔ انہوں نے کہا کہ بجلی چوری کے خاتمہ کیلئے صوبوں کے ساتھ بھی ہماری بات چیت جاری ہے، ہمیں بجلی کے شعبہ کی بیماری کا احساس ہے اور بہت جلد اچھی خبریں آنا شروع ہو جائیں گی۔صحافیوں کی جانب سے مختلف سوالات کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا کہ وزیراعظم کا حالیہ دورہ چین پاک۔چین اقتصادی راہداری کے دوسرے مرحلہ کیلئے تھا، سکیورٹی کے واقعات کی وجہ سے ہمیں نقصان ہوا ہے، چین کی حکومت کی جانب سے وزیراعظم کے دورہ چین کا بھرپور خیرمقدم کیا گیا جبکہ کاروباری برادری اور سرمایہ کاروں نے بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کی اپنی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر کے حوالہ سے صورتحال تسلی بخش ہے، آئندہ مالی سال کیلئے ادائیگیوں کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، آنے والے سال میں پاکستان بین الاقوامی کیپٹل مارکیٹس میں جائے گا، علاوہ ازیں پاکستان چین کی کیپٹل مارکیٹس سے بھی استفادہ کرے گا اور مالی سال 25۔2024ء میں پانڈا بانڈ جاری کئے جائیں گے۔ٹریک اینڈ ٹریس نظام سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ اس نظام کو مؤثر بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نگران حکومت نے نجکاری کے حوالہ سے بہترین کام کیا، پی آئی اے اور اسلام آباد ایئرپورٹ کی آئوٹ سورسنگ کی بولی آ چکی ہے، لاہور اور کراچی ایئرپورٹ کو بھی آئوٹ سورس کیا جائے گا۔ وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے ساتھ وفاق کو صوبوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے، ہماری چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ کے ساتھ بہترین ملاقاتیں رہی ہیں اور ہم مشاورت کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مالی خسارہ کو کم کرنے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں، ہم ایک ٹریلین سے زیادہ کا خسارہ برداشت نہیں کر سکتے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ نئے مالی سال کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں انتہائی اہمیت کے منصوبوں کو شامل کیا جا رہا ہے، فنڈز کے بغیر کسی بھی منصوبے کو پی ایس ڈی پی میں شامل نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ قومی اقتصادی کونسل اہم ترین سٹرٹیجک فورم ہے جس کے وزیراعظم سربراہ ہیں، این ای سی بجٹ بنانے والا فورم نہیں ہے۔