کراچی(رپورٹ – اسلم شاہ)کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ہائیڈرنٹس سیل کی آمدن ماہ جون میں 12کروڑ روپے سے تجاوز کرگئی،6 ہائیڈرنٹس کی مجموعی آمدن 7 کروڑ 20لاکھ روپے، اور ٹینکرز کے ذریعے پانی سپلائی کی مد میں 88 اداروں سے چار کروڑ 85 لاکھ روپے وصول ہوئے ہیں،جبکہ سپرہائی وے پر مویشی منڈی کے ٹھیکیدار غنی اینڈ سنز سے 76 لاکھ روپے اضافی ملے۔اسی طرح شیرپاؤ ہائیڈرنٹ سے پانی کے 1300 ٹینکرز کی چوری پر 45 لاکھ روپے نقد جمع کیا گیا ہے۔ماہ مئی میں مجموعی طور پر 7 کروڑ روپے، ماہ اپریل میں 6 کروڑ، مارچ میں 5 کروڑ،فروری میں ساڑھے 4 کروڑ اور جنوری میں صر ف 4 کروڑ روپے کی آمدنی ریکارڈ کی گئی ہے،جبکہ ماہ جون میں ہائیڈرنٹس کی مجموعی آمدن میں ایک کروڑ 21 لاکھ سخی حسن سے،ایک کروڑ 7 لاکھ کرش پلانٹ منگھوپیر سے، ایک کروڑ 50لاکھ صفورا گوٹھ،91لاکھ روپے فیچر کالونی لانڈھی، 85لاکھ روپے شیر پاؤ،80لاکھ روپے نیپا چورنگی، 76لاکھ روپے سپرہائی وے گائے منڈی، 9 لاکھ بلدیہ ٹاون سے آمدنی ریکارڈ کی گئی ہے۔اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہائیڈرنٹس سے پانی چوری کا سلسلہ اب بھی جاری ہے، ہائیڈرنٹس کے میٹروں اور پانی کی سپلائی میں نمایاں فرق ہے۔جانچ پرتال اور نگرانی کرنے پر بعض ہائیڈرنٹس کو مشکوک قراردیا جارہا ہے جن میں شیرپاؤ، صفورا، نیپا کے ساتھ منگھوپیر کرش پلانٹ سے بڑے پیمانے پر پانی کی چوری جاری ہے۔
مصدقہ ذرائع کے مطابق کراچی میں قانونی اور غیر قانونی ہائنڈرنٹس سے اربوں روں کی پانی چوری کا انکشاف اور تصدیق ہونے کے باوجود ہائیڈرنٹس سیل، انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ اور میٹر ڈویژن کے افسران و عملے کے خلاف اب تک کسی قسم کی کاروائی نہیں ہوسکی۔ہائیڈرنٹس سے روزانہ پانچ یا چھ کروڑ روپے کا پانی چوری کیا جاتا ہے۔اس غیر قانونی ہائیڈرنٹس سے اربوں روپے چوری اور لوٹ مار کا سرپرست سابق نگران وزیر اعلی و چیف سیکریٹری سندھ فضل الرحمن ہیں۔اس کام کے لیئے انہوں نے اپنے داماد بلال عرف بنٹی کو ہائیڈرنٹس کا فرنٹ مین بنا دیا تھا جو کہ تمام رشوت،کمیشن، کک بیک گذشتہ پانچ سالوں سے وصول کررہے تھے۔تقریبا” 20 ارب روپے ہائیڈرنٹس سے لوٹ مار کرکے کراچی سسٹم(یاد رہے کہ کراچی سسٹم کی نگران ادی ہیں)کے تحت بندر بانٹ کردیا جاتا ہے اس میں حصہ بقدر جثہ فضل الرحمن کی نگرانی میں تقسیم کیا جاتا ہے۔اب ادارہ میں ڈپٹی مینجنگ ڈائریکٹر فنانس رفیق قریشی کو کراچی سسٹم کا نگران مقرر کردیا گیا ہے جس میں سعید شیخ، راشد صدیقی، تابش رضا،رحمت اللہ مہر،الہی بخش بھٹو سمیت 11سہولت کار بھی کراچی سسٹم میں موجود ہیں۔اہم ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ ہائیڈرنٹس سے اربوں روپے رشوت کمیشن، کک بیک کے فنڈز بھی فضل الرحمن کے گھر سے تقسیم کیئے جاتے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری نے کراچی سسٹم کے تحت ہائیڈرنٹس کا کنٹرول اور اس سے ہونے والی کمیشن کی تقسیم کا نگران سابق نگران وزیر اعلی و چیف سیکریٹری سندھ فضل الرحمن کو بنایا ہے۔وہ کئی سالوں سے ہائیڈرنٹس کے دو نمبر کاموں کے معاملات کی نگرانی نہایت ایمانداری سے کر رہے ہیں۔وہ قومی احتساب بیورو(نیب)، ایف آئی اے، دیگر تحقیقاتی اداروں،انٹی کرپشن،صوبائی حکومت کے وزراء، ارکان اسمبلی، افسران سمیت دیگر متعلقہ افراد کو حصہ بقدر جثہ کے مطابق ہر ایک کا حصہ نہایت منظم انداز میں اور انتہائی ایمانداری سے تقسیم کررہے ہیں۔
ان کے خلاف وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ، صوبائی وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ سمیت سندھ کے تمام وزراء و اراکین اسمبلی کو ہائیڈرنٹس کی اس طاقتور مافیا کے خلاف کسی قسم کی کاروائی کا اختیار نہیں ہے کیونکہ انہیں زر کی مکمل۔حمایت حاصل ہے،اسی لیئے تمام متعلقہ حلقوں کو اس معاملے میں بولنے سے روک دیا گیا ہے،یہی وجہ ہے کہ تمام تحقیقاتی اداروں نے ہائیڈرنٹس پانی کی چوری میں اپنا حصہ وصول کر کے اپنی آنکھیں،کان اور زبان بند کر کے مکمل خاموشی اختیار کر لی ہے۔اس ضمن میں کراچی میں چلنے والے سرکاری 6 ہائیڈرنٹس سے پانچ تا چھ کروڑ روپے پانی یومیہ یعنی ایک ارب 50 سے 60 کروڑ روپے مالیت کا پانی ماہانہ چوری ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہائیڈرنٹس سے یومیہ 10کروڑ گیلن پانی کی فراہمی جاری ہے،یعنی 1000،2000،3600، 5000، 10,000اور 12,000گیلن والے 20000ٹرپ (ٹینکرز)فراہم کرنے کا سرکاری ریکارڈز ملے ہیں۔ہائیڈرنٹس میں میٹر سے فراہم ہونے والے کنکشن سے پانی کی فراہمی اور آمدن دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے۔اجازت کے بغیر غیر قانونی کنکشن ہائیڈرنٹس میں نلکوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ ہائیڈرنٹس سیل کے نگران رحمت اللہ مہر کی جگہ اعظم خان کو بنایا گیا ہے،ان کو ہائیڈرنٹس سیل کی انتظٓامی امور دیکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ان کی نگرانی میں یومیہ بنیاد پر صبح اور رات گئے میٹر کی نگرانی اور ہنگامی بنیاد پر انسپکشن کے ساتھ چھاپے کے دوران ہائیڈرنٹ میں کئی بے ضابطگیاں پکڑی گئی ہیں۔واٹر بورڈ کا عملہ غائب ہونے پر باز پرس بھی کی گئی ہے۔ہائیڈرنٹس پر عملے کے کئی ملازمین برسوں سے تعینات ہیں۔ میٹر ڈویژن کے سابق سپریٹنڈنٹ انجینئر طارق لطیف اور ایگزیکٹو انجینئر ندیم کرمانی کی پہلے ہی میٹر کے نام پر ہونے والی لوٹ مار پر اب تک جانچ پڑتال نہ ہوسکی،تاہم کمپیوٹرائز میٹرز سے ٹیکس کی آمدن میں کمی پر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ میں کئی سوال کھڑے کر دیئے ہیں۔
جس پر تمام حلقے ہائیڈرنٹس، میٹر ڈویژن، ٹیکس ریونیو کے ساتھ دیگر محکموں نے مکمل طور پر پراسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے،تمام ہائیڈرنٹس سے غیر قانونی کنکشن سے پانی کی فراہمی جاری ہونے کی تصدیق تمام متعلقہ حکام کر کررہے ہیں۔ جبکہ کئی سالوں سے میٹرز ڈوثرن میں سابق سپریٹنڈنٹ انجینئر طارق لطیف اور ایگزیکٹو انجینئر ندیم کرمانی سمیت دیگر افسران کئی سالوں سے تعینات ہیں،ان کی جائیدادوں،اثاثوں کی تعداد اور آمدن ان کی تنخواہ سے زائد بتائی جاتی ہے،تاہم انہوں نے تحقیقاتی اداروں کا سامنا نہیں کیا یعنی پانی کی چوری، بجلی کی چوری،غیر قانونی آمدن میں اضافہ،رشوت کمیشن کک بیک میں اضافے کے باوجود کسی قسم کی تحقیقات کا سامنا نہیں کیا۔ہائیڈرنٹس سے رشوت کمیشن کک بیک وصول کرنے والا نگران وزیراعلیٰ سندھ و سابق چیف سیکریٹری فضل الرحمان کا داماد بلال عرف بنٹی سارے کھیل میں براہ راست ملوث ہے۔وہ شیر پاؤ، کرش پلانٹ منگھوپیر کا ہائیڈرنٹ میں حصہ دار بھی ہے۔ ہائیڈرنٹس مافیا سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود کراچی میں سرکاری چھ ہائیڈرنٹس کے علاوہ نیشنل لاجسٹک سیل،ڈپٹی کمشنر غربی کی نگرانی میں بلدیہ ٹاؤن اور 300 سے زائد غیر قانونی ہائیڈرنٹس بھی شہر میں اس گھناؤنے کاروبار،پانی کی خرید و فروخت بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ ہائیڈرنٹس کنٹریکٹرز کے منافع بخش کاروبار کو سیاسی،سرکاری افسران و دیگر بااثر شخصیات کی سرپرستی حاصل ہے۔سپریم کورٹ کی سخت پابندیوں کے باوجود کراچی کے ضلع غربی میں غیر قانونی ہائیڈرنٹس کا کاروبار عروج پر ہے۔کراچی واٹر ایند سیوریج بورڈ شہر میں پانی کی ضروریات فراہم کرنے میں ناکام ادارہ بن چکا ہے۔گھروں میں شہری پانی کو ترس گئے ہیں۔ناغے کا نظام رائج کرکے پانی ٹینکرز کے ذریعے فروخت کیا جارہا ہے اور پانی مافیا کی کراچی سسٹم کے تحت لوٹ مار کا گھناونا کاروبار عروج پر ہے۔ سابق مینجنگ ڈائریکٹر غلاف عارف نے ہائیڈرنٹس میں لوٹ مار کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے سرپرست(ادی کراچی سسٹم) کےساتھ اس کے سہولت کاروں کے خلاف بھی کاروائی کی جائے،لیکن افسوس کہ اب نئے قانون کے تحت نیب کے دانت اور ناخن نکال ایسا شیر بنا دیا ہے جو خود کتوں سے بھی بڑے گا۔