: کراچی (رپورٹ:آغاخالد)سپرنٹنڈنٹ نے زبردستی کی دوستانہ مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ کے اشارہ سے اسے سلام کیا تو وہ سپاٹ چہرے کے ساتھ اٹھا اور موٹی موٹی سلاخوں والے لوہے کے دروازے کے دوسری طرف آ کھڑا ہوا مینے سکوت توڑتے ہوے اسے سلام کیا اور اپنے تعارف کے ساتھ مدعاء بیان کیا تو وہ میری بات مکمل ہونے سے قبل ہی چیخا اور مشتعل ہوکر دروازے کی سلاخوں کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر جھنجوڑتے ہوے بولا، تم میرا مذاق اڑانے آئے ہو، سناٹے میں اس کی آواز اور زیادہ گونج رہی تھی جبکہ جن بیرکس میں سے ذکر اذکار کی مدھم آوازیں آرہی تھیں وہ بھی اس کی پہلی چیخ کے ساتھ ہی دب گئی تھیں مینے اس سے کچھ مزید بات کرنے یا اسے منانے کی کوشش کی مگر قیدی کو بے قابو ہوتے دیکھ کر سپرنٹنڈنٹ میرا ہاتھ پکڑ کر واپس چل پڑا مینے مڑکر اسے دیکھا تو وہ اور زیادہ چلاتے ہوے مغلظات بکنے لگا،سپرنٹنڈنٹ مجھے متوجہ کرکے سرگوشی میں بولا، چند گھنٹوں بعد پھانسی لگنے والے سے الجھنا نہیں چاہیے ، ہم ناکام واپس آکر دفتر میں داخل ہوتے ہی کرسیوں پر ایسے ڈھیر ہوگئے جیسے ہارا ہوا جواری۔۔۔۔ سپرنٹنڈنٹ نے ماحول کی سنجیدگی کو ہوا میں اڑاتے ہوے ہلکا سا قہقہ لگایا اور بولا ، پریشان نہ ہوں آغاجی یہ جیل ہے یہاں معاشرہ کے چھٹے ہوے بدمعاش اور جرائم پیشہ برسوں سے رہ رہے ہوتے ہیں یہاں آنے کے کچھ دنوں بعد ہی ان میں جیل کاخوف ختم ہوجاتاہے مگر ایسے میں انہیں سیدھا رکھںنا ان سے جیل قواعد پر عمل کروانا اتنا آسان نہیں اس لیے آج کی صورت حال آپ کے لیے گھمبیر سہی ہمارے لیے معمول کاحصہ ہے پھر وہ میرا کندھا تھپ تھپاکر بولا آپ کا آج کا جیل کا دورہ ناکام نہیں ہوگا میں ابھی اس کی فائل منگواکر آپ کو اس کے جرم کی تفصیل بتادیتا ہوں اس کے بعد ہم گھر چل کر (جو جیل کے احاطہ میں ہی تھا)کھانا کھائیں گے اور ایک فلم دیکھیں گے اتنے میں پھانسی کا وقت ہوجائے گا پھر آکر آپ اپنی آنکھوں سے وہ منظر بھی دیکھ لینا یوں آپ کی خواہش کے مطابق آپ کی اسٹوری بن جائے گی یہ سن کر میں بھی خوش ہوگیا تو اس نے مجرم کی فائل منگوائی اور اس میں سےمیری اسٹوری کے نکتہ نظر سے کچھ ضروری نکات لکھوانے لگا مجرم کا نام "انور چوہان” تھا اور وہ پنجاب کے ایک چھوٹے شہر (مظفر گڑھ) کا بدنام وکیل تھا وہ اپنے شہر کے وکیلوں کالیڈر بھی تھا اور جب بھی ضلعی بار کونسل کاانتخاب لڑتا جیت جاتا کیونکہ اس کی غنڈہ گردی اور بلیک میلنگ کی وجہ سے مقامی وکلا میں وہ خاصہ مقبول تھا اس کافائدہ اٹھاکر وہ اکثر اپنے موئکلوں سے دھوکہ دہی بھی کرگزرتا اور مخالف گروپ سے پیسے لے کر کیس ہارجاتا اور اس کے فراڈ پر احتجاج کرنے والوں کی وہ پھینٹی بھی لگادیتا وہ مقامی وکیلوں کے ایک طاقت ور گروپ کاسرغنہ تھا اور کوئی شریف آدمی یا قانون پسند وکیل بھی اس کی غنڈہ گردی کے سامنے کھڑے ہونے کی جرئت نہ کرتا تھا جس پر وہ روز بروز بے لگام ہوتا جارہاتھا ایسے میں قریبی شہر کے 4 بھائیوں نے اپنی زمیں کا کیس اسے دیا ان کی زمیں پر ان کے 6 چچیرے بھائیوں نےقبضہ کرلیا تھا وہ مال دار اور اور طاقت ور تھے اس لیے ان 4 بھائیوں نے اپنا کیس ڈٹ کے لڑنے کا چوہان کو معقول معاوضہ بھی دیا مگر شراب اور جوئے کی لت میں وہ سب چند روز میں اڑاگیا پھر دوسری پارٹی سے پیسے لے کر کیس جان بوجھ کر ہار گیا ان 4 بھائیوں نے اپنا کل اثاثہ چھن جانے پر ہائی کورٹ بار میں کچھ ثبوتوں کے ساتھ چوہان کی شکایت کردی کیونکہ مقامی سطح پر چوہان ایڈوکیٹ کے اثرو رسوخ کی بنا پر انصاف ملنے کی امید نہ تھی اور پھر ان کا بڑا بھائی اپنی شکایت پر کاروائی کے لیے روزانہ ہائی کورٹ بار پہنچ جاتا جس پر چوہان خاصہ خوف زدہ اور مشتعل تھا کیونکہ اسے نظر آرہاتھا کہ اگر اس نے فریادی کو نہ روکا تو ہائی کورٹ بار اس کی ضلع بار کی ممبر شپ منسوخ کردے گا اور یوں وہ رسوا ہونے کے ساتھ بے دست و پا بھی ہوجائے گا سو اس نے مدعی کو ڈرانے دھمکانے میں ناکامی کے بعد اپنے تجربے سے قانونی موشگافیوں کافائدہ اٹھاکر مدعی پارٹی کو عبرت کا نشاں بنانے کا فیصلہ کرلیا اور لاہور کے ایک اسپتال میں دل کی تکلیف کا بہانہ کرکے کچھ رشوت کے عوض داخل ہوگیا اور اپنی جگہ کسی اپنے ساتھی کو لٹاکر مخبر کی اطلاع پر پستول کے ساتھ مدعی کے ٹھکانے پر پہنچ گیا وہ اس وقت نشہ میں بدمست ہورہاتھا اس لیے آئو دیکھا نہ تائو مدعی کو دیکھتے ہی اس پر 3 فائر کیے وہ زخمی ہوکر گرگیا گولیوں کی آواز پر مضروب کے دو بھائی جو قریب ہی تھے موقع پر پہنچ گئے اس سے قبل کہ قاتل فرار ہوتا انہوں نے چوہان کو دبوچ لیا اس نے چھڑانے کی بہت کوشش کی مگر ناکام ہوکر ان کے سروں پر بھی فائر دے مارے جس سے بعد میں آنے والے دونوں بھائی موقع پر ہلاک ہوگئے جبکہ پہلے والے نے 3 گولیوں کے باوجود دو روز بعد اسپتال میں دم توڑا چوہان تین بھائیوں کو قتل کرکے فرار ہوکر اسپتال جارہا تھا کہ نشے کی زیادتی اور قدرت کی پکڑ سے راستے میں ایکسیڈنٹ ہوگیا اسے راہ گیروں نے بے ہوشی کی حالت میں مقامی اسپتال پہنچایا جہاں اس کے ہاتھوں موقع پر قتل ہونے والے دو بھائیوں کی لاشیں پڑی تھیں اور ان کے عزیزو اقارب کی بڑی تعداد بھی اسپتال میں موجود تھی جنہوں نے چوہان کو پہچان کر پولیس کو اطلاع دی جس نے اسپتال پہنچ کر اسے بے ہوشی میں ہی گرفتار کرلیا یوں اس کا لاہور کے اسپتال میں داخلہ والا منصوبہ دھرا رہ گیا بعد میں اس نے پولیس کو دیے گئے بیان میں کہاکہ وہ ایک بھائی کو قتل کرنا چاہتا تھا لیکن دوسرے دو نے اسے دبوچ لیا تو مجبورن انہیں بھی قتل کرنا پڑا ،انہیں تینوں بھائیوں کے قتل پر اسے سزائے موت سنائی گئی تھی جس پر آج عمل درآمد ہونا تھا، یہ سب تو ٹھیک ہے مگر پنجاب کے مجرم کی سزائے موت کے فیصلہ پر کراچی میں پھانسی کیوں? وہ بولے یہ معمول کاحصہ ہے اگر کسی مجرم کے فرار یا اس پر مخالف فریق کے حملے کاخطرہ ہوتوایسے قیدیوں کے بین الصوبائی تبادلے کیے جاتے ہیں، سپرنٹنڈنٹ کے گھر پر وقت گزار کر ہم دوبارہ پونے 4 بجے جیل پہنچ گئے جہاں مجرم کو پھانسی کی آخری تیاریاں جاری تھیں سزائے موت کے قیدیوں کی بیرک سے پھانسی گھاٹ تک ہر 20 فٹ کے فاصلہ پر لالٹینیں جلاکر رکھی گئی تھیں جس کے متعلق جیل حکام کا کہنا تھا کہ انگریز دور سے یہ رسم چلی آرہی تھی جس کا مطلب مرنے والے کو پروٹو کول دینا تھا ہر 100 قدم کے بعد ایک مسلح سپاہی کھڑا تھا ہم بھی سپرنٹنڈنٹ کے ساتھ پھانسی گھاٹ کے سامنے کھڑے ہوگئے دو پرانے قیدی مجرم کو سہارا دیے آرہے تھے جبکہ مجرم کے ایک ہاتھ میں ہتھکڑی تھی جس کا دوسرا سرا ایک سپاہی نے اپنے بیلٹ کے ساتھ جڑا ہوا تھا چوہان جونہی ہمارے قریب آیا اور لالٹین کی مدھم روشنی میں اس کی نظر مجھ پر پڑی تو وہ چونک کر کھڑا ہوگیا اس کا مجہول جسم اچانک تن گیاتھا مجھے لگا وہ کسی بھی لمحے مجھ پر حملہ کردے گا اس نے میری جانب انگلی کا اشارہ کرکے کہا، تم وہی ہونا جو میرا انٹرویو کرنے آئے تھے، میری زباں خشک ہوچکی تھی، مینے اثبات میں سر ہلایا تو وہ بولا، ہاں تو اب پوچھو کیا پوچھنا چاہتے ہو، اس کے لہجہ میں اب نفرت یاغصہ نہیں تھا جس سے مجھے حوصلہ ملا مینے کہا، آپ آج کیسا محسوس کرہے ہیں، وہ بلا توقف بولا، جنتی،میں پکا جنتی ہوں اور آج سیدھا جنت میں جائوں گا، اس کے الفاظ اعتماد سے لبریز تھے، مجھے یقین ہے میں بخشا جائونگا ، پھر وہ بات آگے بڑھاتے ہوے بولا، اللہ نے مجھے معافی کا بہت وقت دیا اور مینے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا، اپنے کیے پر نادم ہو، بہت زیادہ مجھے نشے اور خراب صحبت نے تباہ کیا ، پھر وہ مجھے نصیحت کرتے ہوے بولا،اس سے بچو، دوبارہ زندگی ملی تو کیسے گزارو گے، وہ غصہ سے بولا مسلمان ہوں ہندو نہیں ہمارا یہاں ایک ہی جنم ہے دوسرا اگلے جہاں،سپرنٹنڈنٹ کے اشارہ پر اس کے گارڈ اسے لے کر آگے بڑھ گئے ہم بھی تختہ دار کے دوسری جانب آن کھڑے ہوے جہاں جلاد اپنا کام مکمل کرکے قاضی کے اشارے کا منتظر تھا اور قاضی بار بار گھڑی دیکھ رہاتھا پھر اس نے جلاد کو آنکھ کا اشارہ کیا تو اس نے ایک قدم یچھے ہٹ کر تختہ کالیور تھام لیا قاضی نے پیچھے کھڑے جیلر کی طرف دیکھا اس نے تختہ دار کی پشت پر لگےٹیلی فون پر مین گیٹ پر کال کی اور پوچھا کہ عدالت سے کوئی اور ہنگامی حکم یا مدعی تو نہیں آئے جواب نفی میں پاکر اس نے قاضی سے کہا، نہیں سر، یوں اس کی زندگی کی آخری امید بھی دم توڑگئی، اور پھر قاضی نے جلاد کی طرف دیکھ کر شہادت کی انگلی بلند کی جس کے ساتھ ہی تختہ گرنے اور مجرم کے پھانسی کے پھندے پر جھول جانے کی زور دار آواز آئی مجرم کا جسم تختہ کے اندر گم ہوگیا اور ہم سب لوگ صرف ہلتی رسی سے اس کی تکلیف محسوس کرہے تھے ، رسی کئی منٹ تک اچھلتی اور زندگی کی بھیک مانگتی رہی پھر آہستہ آہستہ ساکت ہوگئی ایک انسان کاجسم پھندے پر جھول رہاتھا اور روح پرواز کرچکی تھی (اناللہ واناالیہ راجعون) شہادت کی انگلی کے اشارے کے ٹھیک 25 منٹ بعد ڈاکٹر قاضی کی اجازت سے آگے بڑھا اور تختہ دار کا چھوٹا سا دروازہ کھول کر اندر چلاگیا اور لاش کو اچھی طرح چیک کرکے موت کی تصدیق کردی ہم میں سے کسی کو بھی مجرم سے ہمدردی نہ تھی مگر پھر بھی ایک انسانی موت پر ہم سب اداس اور دکھی تھے تبھی ہمارے قدم بوجھل ہورہے تھے ،جیل سے باہر نکلے تو رات کی تاریکی کو چیر کر سفیدی اپنی چادر تان چکی تھی مگر جیل کے باہر بہت بڑے میدان کے ایک ہیکونے میں ایک ٹیڑھے میڑھے پتھر پر کوئی بوڑھی عورت تنہا بیٹھی تھی سپرنٹنڈنٹ نے میرا ہاتھ پکڑا اور دور بیٹھی اس عورت کی طرف چل دیا اس کے قریب پہنچ کر وہ بولا، اماں پھانسی پانے والا تمھارا کون تھا ، پھانسی ہوگئی، اس کی لرزتی آواز رندھ گئی اور رخساروں پر سے آنسو بہ نکلے اس بڑھیا نے بھی سفید چادر اوڑھی ہوئی تھی اور اس کے برابر ایک چھوٹی سی گٹھڑی پڑی تھی سپرنٹنڈنٹ کے دوبارہ سوال پر وہ کانپتی آواز میں بولی ،ماں ہوں ۔۔۔او میرا پتر سی، اور پھر اس کی ہچکی بندھ گئی شاید ممتا کے جذبے تلے وہ یہ سوچ رہی ہو گی کہ پھانسی ٹل سکتی ہے ، ہم پہلے ہی اداس تھے ماں جی نے تو ہمیں بھی رلادیا ،سپرنٹنڈنٹ نے ماں جی کے سنبھل جانے پر کہا آپ اکیلی ہیں یاکوئی اور بھی ہے آپ کے ساتھ ناں پتر کلی آں پھر وہ سپرنٹنڈنٹ کو مخاطب کرکے بے بسی سے بولی، ماں واں پتر میں اودی ، دکھ سکھ وچ ماواں ای آندیاں نے،سپرنٹنڈنٹ نے ماں جی کو مخاطب کرکے کہا ،لاش تھوڑی دیر میں کاغذی کاروائی مکمل کرکے آپ کے حوالے کردی جائے گی، پھر اس نے پوچھا ،اماں آپ لاش کہاں اور کیسے لے کر جائوگی ،مظفر گڑھ پتر، آگے وہ خاموش ہوگئی سپرنٹنڈنٹ سمجھ گیا اس نے اپنے عملے سے کہا ایدھی کی ایمبولینس بلائو مظفر گڑھ کے لیے اسے ادائگی کرکے اماں کو رخصت کرنا پھر اس نےمیری طرف اشارہ کرکے ماں جی سے کہا یہ کراچی کے صحافی ہیں آپ کے بیٹے کی کہانی چھاپیں گے ان کو پتہ لکھوادو لوگ آپ کی مدد کریں گے، وہ تڑپ کر دونوں ہاتھ جوڑ کر بولی ناں پتر پہلے ہی بڑی بدنامی ہوئی اے بس ہور ناں کریں ،اور پھرسر نیچے کرکے ہم سے اپنے آنسو چھپانے لگی اس کے الفاظ کسی بم سے کم نہ تھے میں بہت دل گرفتہ گھر پہنچا ماں جی کی التجاء میرا پیچھا کرہی تھی، مینے سارے نوٹس اپنی دراز میں ڈالے اور اس عہد کے ساتھ سوگیا کہ یہ اسٹوری کبھی نہیں چھپے گی ماں جی کے دکھ میں مزید اضافہ نہیں کرونگا آج 25 سال بعد کتاب چھاپنے کی تیاری ہورہی تھی تو دوستوں نے اصرار کیاکہ مقام اور کرداروں کے نام بدل کر تو لکھ سکتے ہو، بہت سوں کو عبرت ہوگی-