کراچی (آغاخالد)ایک چھوٹے سے ہال میں دس بارہ لوگ موجود تھے مگر ہم سب صرف ایک دوسرے کے سانسوں کی سرسراہٹ ہی سن سکتے تھے اور دوسری طرف 20 سے 25 فٹ اونچے تختہ پر وہ بظاہر تناہوا کھڑا تھا مگر اس کی ٹانگیں لرز رہی تھیں اسی لیے اس کی پشت سے دو لوگ اسے سہارا دیئے ہوے تھے اور ان دونوں نے اس کے ہاتھ اس کی پشت پر ایک پتلی رسی سے باندھ دیئے تھے ، یہ پھانسی کے مجرم کے آخری لمحات تھے ، 3 جیتے جاگتے اپنے موئکلوں کو لمحوں میں گولیوں سے بھون دینے والا قانون داں تختہ دار پر بے بسی کی تصویر بنا کھڑاتھا ، جلاد نے اس کے سر سے ایک فٹ اونچے لکڑی کے فریم میں ایک موٹی سی رسی باندھی پھر اس کی مضبوطی کا اندازہ لگانے کو یکے بعد دیگرے اسے کئی بار جھٹکا اور پھر اسکے دوسرے سرے کو پھندے کی شکل دے کر اسے بھی ناپا تولا اور ایک بار تن کر کھڑے ہونے کی کوشش کرتے مجرم کے گلے میں ڈال کر دیکھا اور پھر رسی نکال کر مجرم سے بلند آواز سے پوچھا کہ وہ کچھ اور کہنا چاہے گا تو مجرم نے پہلی مرتبہ جلاد سے آنکھیں ملائیں اور پھر درد ناک بے بسی سے سر جھکادیا جس کا مطلب شاید انکار ہوگا جلاد نے پھر بلند آواز میں پوچھا "پانی” یہ سن کر اس نے ہونٹوں پر زباں پھیری مگر نفی میں گردن ہلادی ، اپنے فرض کی تکمیل کے بعد جلاد نے اپنے کھلے ڈلے چوغے کی جیب سے سیاہ رنگ کی ٹوپی نکالی اور مجرم کے سر پر اس طرح چڑھائی کہ وہ گردن تک آگئی شاید یہ اسی مقصد کے لیے تیار کروائی جاتی ہوگی پھر اس نے پھانسی کا پھندا مجرم کے گلے میں ڈالا اور اس کی گٹھان اتنی کھینچی کہ مجرم کو سانس لینے میں کوئی دقت نہ ہو مگر وہ گردن میں اس طرح پیوست ہوجائے کہ ایک جھٹکے میں اس کے سانس کی ڈور کو کاٹ دے ادھر سے فارغ ہوکر اس نے قاضی کی طرف دیکھا جو بار بار اپنی کلائی پر بندھی گھڑی دیکھ رہے تھے اس کے ساتھ جیلر اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ بھی کھڑے تھے اور جیلر کے دوتین ماتحت بھی ان کے پیچھے کھڑے تھے جبکہ ہال میں 20 سے 25 فٹ اونچے تختہ دار پر جلاد مجرم اور دو اسے سہارا دینے والے کھڑے تھے تختہ دار کے سامنے خاصی جگہ تھی جس میں لکڑی کی دو تین بینچیں پڑی تھیں اور اسے ایک جنگلہ لگاکر الگ کردیا گیا تھا جنگلے کے دوسری طرف بھی آٹھ دس لوگ تھے جن میں موت کی سزا کے منتظر اور دیگر کچھ قیدی تھے جیل حکام کے مطابق عبرت کے لیے انہیں موت کا حقیقی منظر دکھایا جاتاہے مگر یہ سب خاموش اور با ادب کھڑے تھے بینچیں خالی پڑی منہ چڑارہی تھیں بعد میں مجھے بتایا گیا کہ عموما اس جنگلے کے پیچھے مجرم کے متاثرین ھی ہوتے ہیں جبکہ تختہ کے بائیں جانب میں اور جیل سپرنٹنڈنٹ کھڑے تھے قانونی طریقہ کار کے مطابق صبح کی اذان سے قبل موت کی سزا دی جاتی ہے جبکہ اس کا تعین میجسٹریٹ جیل حکام کے مشورہ سے ہر مجرم کا الگ سے طے کرتاہے مگر چند منٹ کے فرق سے پھانسی صبح کاذب کے وقت ہی دی جاتی ہے ماسوا کسی خاص کیس یا حالات کے پھانسی کا جو دن متعین ہوتاہے اس روز پھانسی کے مجرم کے لیے خصوصی اہتمام کیا جاتاہے اسے بہترین کھانا اور اس کی پسند کی دیگر اشیاء خوردو نوش دی جاتی ہیں وہ اگر طلب کرے تو اسے اس کی پسند کی خوشبو بھی فراہم کی جاتی ہے سوائے آزادی کے قانون کے دائرے میں اس کی ہر جائز خواہش پوری کی جاتی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بقول جیل حکام کے پھانسی سے دوتین روز پہلے ہی اکثر مجرم کھانا پینا چھوڑ دیتے ہیں اور اپنے گناہ بخشوانے کو عبادات میں مگن ہوجاتے ہیں ان کی بھوک مٹ جاتی ہے اور وہ صرف زندہ رہنے کو دن بھر میں ایک بار دوچار نوالے ہی کھا پاتے ہیں جبکہ ان کی زندگی کا آخری دن تو بہت ہی عبرت ناک ہوتاہے وہ نڈھال ہوجاتے ہیں اور بات چیت بند کردیتے ہیں یا چڑچڑے ہوجاتے اور جیل عملے سے الجھنا شروع کردیتے ہیں جیل حکام کے مطابق سب سے زیادہ تشویش کاباعث وہ قیدی ہوتے ہیں جو باقاعدہ پاگل ہوجاتے ہیں یا ان پر پاگل پن کے دورے پڑنے لگتے ہیں انہیں سنبھالنا خاصہ مشکل ہوتاہے مگر سپرنٹنڈنٹ کہ رہے تھے قانون کے تقاضوں کی تکمیل ہی ہمارے فرائض کا اہم ترین جز ہے جو ہمیں بعض اوقات دل پر پتھر رکھ کر بھی پورا کرنا پڑتاہے ، ایک اور حیرت انگیز انکشاف کرکے انہوں نے مجھے ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ اکا دکا ایسے قیدی بھی ہوتے ہیں جو پھانسی گھاٹ تک اچھلتے کودتے ڈانس کرتے جاتے ہیں اور خواہش کرکے اپنے ہاتھ کھلواکر پھانسی کاپھندا چوم کر اپنے گلے میں خود ڈالتے ہیں سپرنٹنڈنٹ کا کہنا تھا مگر ایسا قیدی برسوں میں کوئی ایک آدھ ہی آتاہے ایسے موت کے سوداگروں کا نفسیاتی تجزیہ کرتے ہوے انہوں نے کہاکہ در اصل یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو کسی ظلم پر رد عمل میں قتل جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کرتے یا اپنے پیاروں کے قتل کابدلہ لینے کے لیے مجرم بن جاتے ہیں اور اس لیے وہ اپنے کیے پر نادم بھی نہیں ہوتے یا کوئی بہت بڑا بے دین یا مذاہب کاباغی بھی ایسا رد عمل دیتاہے وہ اپنے تئین یہ تصور کرلیتاہے کہ تقدیر نے اس کے ساتھ کبھی انصاف نہیں کیا اور اس طرح ماہرین نفسیات کے مطابق اس کے ذہن میں پکتا لاوا اسے معاشرہ کاباغی اور موت سے بے نیاز کردیتاہے تبھی پھانسی کے پھندے پر ان کا انداز انسانی نفسیات کے برعکس چونکا دینے والا ہوتاہے، اوہ۔۔میں یہ تو بتاناہی بھول گیاکہ میں پھانسی گھاٹ میں کیوں آیاہوں ، تو آئیے پہلے اس پر بات کرلیتے ہیں ، یہ 90 کی دہائی کا قصہ ہے میں ان دنوں ایک قومی روزنامہ میں "کرائم رپورٹر” تھا اور مجھے عرصہ دراز سے جنون تھا تفتیشی رپورٹنگ کا جو میرا محبوب شعبہ تھا اسی حوالہ سے دھرے قتل کے ایک بدنام کیس کی خبر پڑھ کر من مچلا کہ کیوں نہ کسی مجرم کے پھانسی پانے کے منظر کی رپورٹنگ اور اس کا انٹرویو کیا جائے اس کے لئے مینے کراچی کی ایک جیل کےدوست سپرنٹنڈنٹ سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا انہوں نے میرا مدعا سن کر قانونی تقاضوں کی تکمیل کی لمبی چوڑی تفصیل بیان کی تو میں مایوس ہوگیا تب وہ ہنس کر بولے بھائی مینے یہ جو جیل قواعد بتائے یہ میرے دوست کے لیے نہیں عام جام کے لیے تھے آپ ایسا کریں کل رات 8 بجے آجائیں ایک مجرم کو پھانسی لگنی ہے اس کا انٹرویو کرلیں اور علی الصبح اس کی پھانسی کامنظر بھی دیکھ لینا ، بس پھر کیاتھا بے چینی سے دوسرے دن کی شب کا انتظار کیاجانے لگا اور دوسرے روز ٹھیک 8 بجے شب جیل کے دیو ہیکل کالے رنگ کے گیٹ کے سامنے میں موجود تھا وہ گیٹ اتنا بڑا تھا کہ وہ پورا کھولا جائے تو بھاری بھرکم کنٹینر بھی اندر جاسکتا تھا مگر میرے لیے اس گیٹ کے ایک کونے میں بنا چھوٹاسا گیٹ کھولا گیا جس میں سے بمشکل ایک شخص ہی اندر جاسکتاتھا ، شاید جان بوجھ کر اس چھوٹے گیٹ کی اونچائی بھی کم رکھی گئی تھی اس میں سر جھکاکر ہی داخل ہوا جاسکتا تھا میں اندر داخل ہوا تو سپرنٹنڈنٹ سامنے کھڑے تھے وہ بڑی محبت سے ملے اور پھر مجھے اپنے دفتر لے گئے اور باقاعدہ بیٹھنے سے پہلے بولے یہ بتائیں کھانے میں کیا چلے گا، وہ بڑی محبت سے بولے، مینے اس لیے پہلے نہیں منگوایا کہ آج آپ کی پسند کا کھائیں گے ، مجھے بے چینی تھی موت کے قیدی سے ملاقات کی اور میں اس سے سوالات کی لمبی فہرست بھی ذہن میں تیار کرکے آیا تھا سو مینے معذرت کرتے ہوے بتایاکہ میں گھر سے کھاکر نکلا ہوں بس فلحال آپ مجھے جلدی سے قیدی سے ملوائیں تو انہوں نے کہاکہ یار جلدی کیاہے? پوری رات پڑی ہے مگر میرے اصرار پر انہوں نے اپنے ایک سپاہی سے کہاکہ جائو اس قیدی کی پوزیشن دیکھ کر آئو اور اسے بتابھی دینا کہ ایک سینیر صحافی اس کا انٹرویو کرنا چاہتاہے وہ سپاہی چند منٹ میں ہی پلٹا اور اپنے صاحب کو سلوٹ مارکر بولا، صاحب وہ جاگ رہا مگر عبادت میں مگن ہے ، اسے بتایا تم نے آغاجی کا، سپرنٹنڈنٹ بولا ، جی صاحب قیدی نے کوئی جواب نہیں دیا ، اس جیل کے سب سے بڑے افسر نے چپل پہنی جو اتار کر وہ ٹانگیں پھلائے بیٹھا تھا اور میرے ساتھ چل پڑا ،جیل کے اصل حصہ میں داخل ہونے کے بھی کچھ قواعد و ضوابط ہوتے ہیں جیل کے بڑے گیٹ کے بعد انتظامی دفاتر ہوتے ہیں اور وہاں جیل کے افسران اور ان سے متعلق عملہ بیٹھتا ہے اس حصہ کو جیل کی اصطلاح میں ماڑی کہاجاتاہے اس ماڑی کے ایک حصہ میں قیدیوں سے ملنے کے لیے آنے والوں کی ملاقاتیں بھی کروائی جاتی ہیں جبکہ جیل کے اندر قیدیوں پر نظر رکھنے اور جیل کی حفاظتی چوکیوں میں تعینات عملہ اس کے علاوہ ہوتاہے ماڑی کی حدود کے بعد ایک اور بڑا گیٹ ہوتاہے جس سے جیل کے اندرونی حصہ میں داخل ہونے والے ہر چھوٹے بڑے افسر یا سپاہی کی باقاعدہ تلاشی اور ان کے ہاتھ پرانمٹ سیاہی کی مہر لگائی جاتی ہے ہم اس مرحلہ سے گزر کر اندرون جیل داخل ہوے اور ایک لمبی راہداری سے ہوتے موت کے قیدیوں کی بیرک پہنچ گئے رات زیادہ نہ گزری تھی مگر جیل میں ہو کا عالم تھا اس بیرک کو خاص طرز پر تعمیر کیا گیا تھا 8/8 یا 8/10 کی کھولیاں لائین سے بنی تھیں کچھ خالی تھیں مگر جن میں موت کی سزا پانے والے قیدی تھے ان میں مدھم روشنی کا چھت میں لگا بلب جل رہاتھا اور کچھ میں سے تلاوت یا ذکر کی ہلکی سی آوازیں آرہی تھیں سپرنٹنڈنٹ آخری بیرک سے پہلے والی کے سامنے رک گیا ، جس میں ایک چھوٹے قد کا گٹھے ہوے جسم کا قیدی مصلے پر بیٹھا ذکر میں مشغول تھا مدھم روشنی میں اس کے نقوش کچھ زیادہ نمایاں نہ ہورہے تھے، سناٹے میں ایک سے زائد پیڑوں کی آواز پر وہ مڑکر ہماری طرف متوجہ ہوگیا تھا سپرنٹنڈنٹ نے زبردستی کی دوستانہ مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ کے اشارہ سے اسے سلام کیا تو وہ سپاٹ چہرے کے ساتھ اٹھا اور موٹی موٹی سلاخوں والے لوہے کے دروازے کے دوسری طرف آ کھڑا ہوا مینے سکوت توڑتے ہوے اسے سلام کیا اور اپنے تعارف کے ساتھ مدعاء بیان کیا تو وہ میری بات مکمل ہونے سے قبل ہی چیخا اور مشتعل ہوکر دروازے کی سلاخوں کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر جھنجوڑتے ہوے بولا، تم میرا مذاق اڑانے آئے ہو،
(بقیہ ، دوسری قسط)