کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ) بلدیہ عظمی کراچی نے شہر بھر میں غیر قانونی مذبح خانوں کو روکنے میں ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کراچی کی حدود میں بیمار لاگر،ہر قسم بکرا، دنبہ، بھیڑ، گائے، اونٹ، سمیت دیگر جانوروں کے ذبح کی کھلی اجازت دے دی ہے، .اس قانون سے کراچی میں ماحولیات،صحت و صفائی کے ساتھ وبائی امراض پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گاجو ویسٹ پاکستان وٹرنری ایکٹ 1967 ء کی کھلی خلاف ورزی ہے جس کو 1974ء میں ایکٹ بنا کر نافذ کیا گیا تھا،جس کے تحت جانوروں کا طبی معائنہ، ذبیح کے بعد پوسٹ مارٹم کرنا، گوشت کو انسانی جانوں کے لئے صحت مند قرار دینے کے ساتھ بلدیہ کا صحت مند ماحول میں گوشت کی فروخت کرنا اور ٹیکس کی وصول کا نظام وضح کیا گیا تھا۔مذبحہ خانوں میں گوشت کی سرکاری مہر کے ساتھ ترسیل سند کا درجہ رکھتا تھا،اب نئے قانون سے حلال گوشت ملنا بہت مشکل ہو جائے گا،یہ بھی نہیں پتہ چلے گا کہ جانور زندہ کاٹا گیا ہے یا مردہ۔دوکانوں میں حلال جانور کی جگہ کتا بلی، گدھے اور دیگر حرام جانور بھی شہر بھر میں کھلے عام فروخت ہو سکتے ہیں۔دوکانوں میں وٹرنری ڈاکٹرز موجود نہیں ہیں۔پہلے مذبحہ خانے سے حلال جانور اور حلال گوشت کی گارنٹی بلدیہ عظمی کراچی دے رہا تھا،لیکن اب حلال اور صحت مند گوشت کی فروخت پر کئی سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔اس بارے میں حکومت سندھ کے نوٹیفکیشن نمبرSLGO/SLGB/SECY/2021/196 بتاریخ 5 اگست 2021ء کے تحت تفویض کردہ اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے بیرسٹر مرتضی وہاب ایڈمنسٹریٹر کراچی نے قرارداد کی منظوری دے دی ہے،جبکہ بلدیہ عظمی کراچی کی یادداشت نمبر SDVS/PS/KMC/129 بتاریخ 22 فروری 2022 میں درج سفارشات کی اجازت دی گئی ہے۔نیز ان عارضی مذبح خانوں میں ذبح ہونے والے جانوروں پر فی جانور ون سے قرارداد نمبر 254 مورخہ 8 اپریل 2018ء کے مطابق فیس وصول کئے جانے کی سفارش کی گئی ہے۔200روپے اونٹ، 100روپے گائے بھینس، 75روپے بکرا،دنبہ،بھیڑ وغیرہ فی جانور فیس یا ٹیکس وصول کی جائے گی۔اس سلسلے میں ان دوکانوں کی درجہ بندی کر دی گئی ہے۔درجہ اول 20 جانور کاٹنے والے دکاندار کو 25000 روپے فیس، درجۃ دوم ایک سے 10جانور تک دوکان کو ساڑھے بارہ ہزار روپے، درجہ سوئم 6 سے 10جانور یومیہ ذبح کرنے والے دکاندر پر 8 ہزار 250 روپے اور درجہ چہارم ایک سے پانچ جانور یومیہ ذبح کرنے والے دوکانداروں پر 3000 ٹیکس ماہانہ نافذ کیا جائے گا۔اس فیصلے کا اطلاق صرف گلی محلوں میں قائم ایسی تمام دکانوں پر ہوگا جہاں محدود تعداد میں جانورو ں کو ذبح کیا جارہا ہے۔اس فیصلے سے شہر میں پہلے سے قائم سلاٹر ہاوسز اور مذبحہ خانوں کے لئے قابل قبول ہوگا، سندھ لوکل گورٹمنٹ آردیننس مجریہ 2001کے جدول پنجم حصہ دوئم کے نمبر ثمار 10کے تحت قرار داد نمبر221بتاریخ14جون2007ء کے حدود میں جانوروں کے ذبیح اور فروخت کے امور کی انجام دہی کے لئے اجازت نامہ لائسنس کے حصول کے حوالے سے ضمنی قواعد مرتب کئے ہیں جو کہ 2008ء سے نافذ العمل ہیں۔بلدیہ عظمی کراچی نے سندھ لوکل گورٹمنٹ 2013ء کے جدول پنجم حصہ اول کی شق نمبر 04 کے تحت KMC کی حدود میں ایسے تمام نجی مذبح خانوں، عارضی مذبح خانوں اور دوکانوں جہاں نجی طور پر جانورں کا ذبیح کیا جارہا ہے
اس کی فیس یا ٹیکس ادا کر کے جانور ذبح کرنے کا اختیار ہوگا،لائسنسنگ و تجدید فیس دو لاکھ روپے سالانہ،فی قصاب کی طبعی سرٹیفکیٹ فیس 500 روپے سالانہ،بکرا،دنبہ،بھیڑ کی 75 روپے فی جانور، گائے بھینس کی 100روپے فی جانور، اور اونٹ کا 200 روپے فی جانور فیس مقرر کی گئی ہے۔ایسے نجی مذبح خانوں جو حکومت پاکستان سے اجازت حاصل کرنے بعد جانوروں کو ذبح کرنے کے بعد ان کا گوشت غیر ممالک کو برآمد کر رہے ہیں ان کے لیئے بلدیہ عظمی کراچی کے محکمہ وٹرنری کی نگرانی میں دو مذبحہ خانے موجود ہیں اور ایک مذبحہ اورنگی ٹاون میں زیر تعمیر ہے۔ایک اور کو نجی ادارے کو 10سال کے لئے دیا گیا تھا اس پر قبضہ کر لیا گیا ہے یا کے اہم سی کے حکام کی ملی بھگت سے قبضہ کرا دیا گیا ہے۔مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔یاد رہے کہ بلدیہ عظمی کراچی کا وٹرنری ڈپارٹمنٹ قیام پاکستان سے قبل سے کام کر رہا ہے۔1935 و 1954ء کے قانون کے تحت مذبح خانے اور ذبیح کا طریقہ کار واضح ہے۔ 1979ء،1991ء، 2001ء بلدیاتی آرڈیننس کے تحت وٹرنری ڈپارٹمنٹ کا قانون بنایا گیا تھا۔اس قرارداد کے بعد محکمہ کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے جس کی تمام تر ذمہ داری مرتضی وہاب پر بحیثیت ایڈمنسٹریٹر عائد ہوتی ہے،جبکہ بلدیہ عظمی کراچی کے محکمہ وٹرنری کے حکام کا کہنا ہے کہ نئے مذبح خانوں کی تعمیرات کے لئے طویل وقت اور کثیر سرمایہ درکار ہے،جبکہ بلدیہ عظمی کراچی کے وسائل کی کمی کے باعث یہ کسی طور پر ممکن نہیں ہے۔وقت گزرنے ساتھ ساتھ شہر کراچی میں حلال گوشت کی طلب بڑھ رہی ہے، اور طلب و رسد کے تحت چھوٹے بڑے نجی مذبح خانے قائم ہوتے رہے، مزید برآں بلدیہ عظمی کراچی کے مختلف مقامات پر گلی محلوں میں دوکان کے اندر یا کھلے مقامات پر جانورں کا ذبیح معمول بن چکا ہے اوراس کی روک تھام ممکن نہیں۔ان جانوروں کا گوشت فروخت کے لئے بازار میں میسر ہے،جبکہ بلدیہ عظمی کراچی کو کسی قسم کا محصول ادا نہیں کیا جاتا ہے۔ کراچی میں ایک سرکاری رپورٹ میں 1800 دوکاندار موجود ہیں،3200 مرغی کے گوشت کی دکانیں موجود ہیں۔کراچی میں وٹرنری ڈپارٹمنٹ غیرقانونی مذبح خانوں کو ختم کرنے میں ناکامی کا اعتراف کرچکا ہے،جہاں سے ہفتہ و ماہانہ بھتہ کروڑ روپے کی صورت میں وصول کیا جا رہا ہے۔ایک سرکاری افسر کا کہنا تھا کہ اس قانون کا مقصد محکمہ وٹرنری ڈپارٹمنٹ کو غیر فعال اور غیر منظم کرنے کے ساتھ مذبح خانوں کی زمینوں کو ٹھکانے لگانا ہے،کیونکہ اب ادی کی نگرانی میں چلنے والا کراچی سسٹم کے تحت شہر میں زمینیں کم پڑ گئی ہیں اس لیئے اب مافیا کی نظریں ان مذبح خانوں کی زمینوں پر ہے جو اب بہت قیمتی زمینیں بن چکی ہیں۔ایک غیر منتخب ایڈمنسٹریٹر کراچی کو یہ اخیتار نہیں ہے کہ بلدیاتی انٹخابات سے قبل اتنے بڑے فیصلے کریں۔یہ کراچی کے چار کروڑ انسانی جانوں اور اس کی بنیادی صحت کا معاملہ ہے۔سابق بیورو کریٹ غلام عارف نے اس قانون کو انسانیت کے خلاف قرار دیتے ہوئے فوری منسوخ کرنے کا مطالبہ کردیا ہے،اس حوالے سے کراچی کے عوام اور سول سوسائٹی نے اس قانون کو بنانے پر غیر منتخب ایڈمنسٹریٹر مرتضی وہاب کی فوری برطرفی کا مطالبہ کیا ہے۔عوام الناس کا کہنا ہے کہ مرتضی وہاب کی آنکھیں بھی مذبح خانوں کی زمینوں کی چمک نے خیرہ کر دیا ہے۔