اسلام آباد۔(نمائندہ خصوصی )وزیر اعظم کی کوآرڈینیٹر برائے موسمیاتی تبدیلی رومینہ خورشید عالم نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے بڑھتے ہوئے اثرات اور بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی پاکستان کی خوراک اور پانی کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو یہاں کامسیٹس کے زیر اہتمام اقوام متحدہ کے عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر پینل ڈسکشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو موسمیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات کا سامنا ہے جس سے پاکستان کو خوراک کی حفاظت، پانی کی کمی اور زمین کے انحطاط جیسے باہم مربوط چیلنجز کا سامنا ہے۔انہوں نے کہا کہ زمین کا انحطاط لاکھوں ہیکٹر اراضی کو سالانہ نقصان پہنچا رہا ہے اور لاکھوں لوگوں کو دنیا بھر میں بے گھر ہونے پر مجبور کر رہا ہے، زراعت پاکستان کی زندگی ہے اور زمین کے کٹائوسے جنگلات پر بھی سنگین اثرات مرتب ہوں گے جو اس مسئلہ کو مزید بڑھا دے گا۔ وزیر اعظم کی کوآرڈینیٹر نے کہا کہ پاکستان کو پانی فراہم کرنے والے دریائوں پر بھارت کی جانب سے ڈیموں کی تعمیر بھی باعث تشویش ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ صورتحال فصلوں کی پیداوار میں کمی کا سبب بنی جو غربت اور دیہی سے شہری علاقوں کی جانب نقل مکانی کا باعث بن رہی ہے۔اپنے استقبالیہ کلمات میں کامسیٹس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر محمد نفیس زکریا نے کہا کہ عالمی یوم ماحولیات ایک اہم تقریب ہے اور یہ مکالمہ ماحولیاتی تحفظ کے مقصد کے لیے حکومت کے مخلصانہ عزم کا عکاس ہے۔ انہوں نے کہا کہ اعلیٰ سطح کی پالیسی سازی کی رہنمائی کے لیے آگاہی بہت ضروری ہے جو پائیدار ترقی اور ماحول دوست اقتصادی ترقی کی رفتار کو طے کرے گی۔ محمد نفیس زکریا نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی، غربت اور بھوک اندرونی طور پر جڑے ہوئے مسائل ہیں۔انہوں نے کہا کہ کامسیٹس نے گرین ہائیڈروجن، ریموٹ سینسنگ ماڈلنگ اور سمولیشن، فیول سیل ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں پر کام کیا ہےجبکہ کامسیٹس کا دولت مشترکہ جیسے معروف بین الاقوامی پلیٹ فارمز اور عالمی دائرہ کار کے معروف سائنسی اور ماحولیاتی فورمز کے ساتھ فعال ورکنگ ریلیشن شپ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگوں کے اثرات ماحول کے لیے تباہ کن رہے ہیں۔ ایکو سائنس فائونڈیشن کے صدر پروفیسر سید کومل طیبی نے کہا کہ ماحول کا تحفظ انتخاب کا نہیں بلکہ وجود کا معاملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ خطے کو اس مسئلہ سے نمٹنے کے لیے وسائل کی کارکردگی، علاقائی تعاون، زمینی صحرائی تخفیف اور متعلقہ بحرانوں کے لیے شراکت داری کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی فرد اور حکومت اکیلے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹ نہیں سکتی، انسانوں اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی کے لیے مشترکہ ذمہ داری کے جذبے کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک نے کہا کہ پاکستان کو ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ سے متعلق اے آئی معلومات سے آگاہ اور لیس کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور خاص طور پر دنیا پائیدار ترقی کے اہداف پر زیادہ کام کرنے سے قاصر ہے جبکہ 2030 کے لیے درجہ حرارت کی حد گزشتہ سال عبور کر لی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم آہنگی کے بغیر کوئی بھی قوم کلائمیٹ ایکشن کو حاصل نہیں کرسکتی، ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ اور کم کرنے کی تیاری میں مالی رکاوٹیں اور معاشی رکاوٹیں قوم کے لیے ایک چیلنج ہیں۔این ڈی ایم اے کے چیئرمین نے کہا کہ پاکستان پانی کی شدید قلت کے دہانے پر ہے جو دیرپا خطرے سے نمٹنے کے لیے سنجیدگی سے توجہ دینے کا مطالبہ کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی ایک اجتماعی مسئلہ ہے۔ اپنے اختتامی کلمات میں ایڈیشنل سیکرٹری وزارت خارجہ سید حیدر شاہ نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی ہماری زندگیوں کی واضح حقیقت ہے اور کوئی بھی قوم اسے پلٹ نہیں سکتی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دس ممالک میں شامل ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے تقریباً 3.2 سے 3.6 ملین لوگ متاثر ہوئے، ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف جنگ میں ترقی پذیر ممالک کو صلاحیت کی تعمیر اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے وسیع پیمانے پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ تقریب کے آخر میں ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کامسیٹس نفیس زکریا کی طرف سے معززین کو یادگاری شیلڈز پیش کی گئیں۔