کراچی (رپورٹ : مرزاافتخار بیگ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے معروف صداکار و اداکار طلعت حسین کی یاد میں تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیاگیا جس میں صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ، سینئر صحافی و تجزیہ نگار مظہر عباس، سینئر اداکار مصطفی قریشی، منور سعید، نورالہدیٰ شاہ، قدسیہ اکبر، ساجد حسن، ٹیپو، روحینہ حسین، اشعر حسین، تزین حسین، ڈاکٹر رخشندہ طلعت حسین، ظہیر خان، اقبال لطیف، امجد شاہ، ڈاکٹر عالیہ امام، ریحان شیخ، خالد احمد، ایاز خان، خالد انعم، اداکار فیصل قریشی اور جاوید صبا نے اظہارِ خیال کیا۔تقریب میں نظامت کے فرائض ڈاکٹر ہما میر نے انجام دیے، تعزیتی ریفرنس میں شوبز اور ڈرامہ انڈسٹری کی معروف شخصیات نے بڑی تعداد میں شرکت کی، تقریب کے آغاز میں طلعت حسین کی زندگی پر بنائی گئی شوریل بھی دکھائی گئی، تعزیتی ریفرنس سے صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ میں ایک مداح کے طور پر طلعت حسین کی زندگی میں شامل ہوا بعد میں ان سے بے تکلف دوستی ہوگئی، طلعت حسین نے آرٹس کونسل کے تھیٹر کو بنوانے میں اپنا حصہ ڈالا، وہ بہت مخلص اور محبت کرنے والے انسان تھے، نعیم طاہر، منور سعید ، قوی خان ، طلعت حسین سب ساتھ ساتھ تھے، انہوں نے کہاکہ آرٹس کونسل فنکاروں اور ادیبوں کا ادارہ ہے سب کو ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں شریک ہونا چاہیے ورنہ اس ادارے کا کوئی فائدہ نہیں، انہوں نے کہاکہ میں اکثر بھابھی سے بھی کہتا تھا کہ طلعت حسین کو آرٹس کونسل لے آیا کریں وہ یہاں آکر بہت خوش ہوتے ہیں، طلعت حسین بھابھی کے ایک ٹیلی فون پر بے سکون ہوجاتے تھے،میں یقین دلاتا ہوں کہ آرٹس کونسل ہمیشہ کی طرح طلعت حسین کی فیملی کے ساتھ ہے اور اپنا فرض ضرور پورا کرے گا، سینئر اداکار و نائب صدر آرٹس کونسل منور سعید نے کہاکہ طلعت کی والدہ ریڈیو میں بہت کمال کی اناونسر تھی اس زمانے میں انجینئر اور ڈاکٹر کے علاوہ پیشہ نہیں تھا، طلعت حسین میں ایک فنکار موجود تھا اور وہ پاکستان کے سب سے بڑے فنکار بنے ، ایک مرتبہ طلعت کی والدہ اس پروڈیوسر کے پاس گئیں جس نے طلعت کا آڈیشن لینا تھا اسے کہاکہ طلعت کوفیل کردے جس پر پروڈیوسر بولا اتنی اچھی آواز اتنے اچھے فنکار کو میں فیل نہیں کر سکتا، سینئر اداکار مصطفی قریشی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ احمد شاہ کو قیامت تک زندہ رکھے ، کوئی تو ہو ہم سب جو چلے جاتے ہیں ان کو زندہ رکھے، طلعت کو ڈرامے میں کاسٹ کرنے کا اعزاز بھی مجھے حاصل ہے، طلعت حسین نے نہ صرف پاکستان بلکہ لندن میں بھی اداکاری اور صداکاری سکھائی ، وہ صداکاری میں منجھے ہوئے انسان تھے، فلم ”جناح“میں طلعت حسین نے ثابت کیا کہ آواز اور چہرے کے تاثرات کیا ہوتے ہیں ، ”سوتن کی بیٹی“ میں بہترین فنکارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا، آج ہم اندھے ہوچکے ہیں ہمیں کچھ نظر نہیں آرہا، انہوں نے کہاکہ صدارتی ایوارڈ یافتہ لوگوں کے لیے کوئی مراعات نہیںجس سے پرائیڈ آف پرفارمنس زنگ آلود ہوجاتا ہے، فن کاروں کی زندگی میں قدر کرنی چاہیے ، پاکستان میں احمد شاہ جیسے لوگ موجود ہیں جن کی وجہ سے ہمیں سہارا مل جاتا ہے۔سینئر صحافی و تجزیہ نگار مظہر عباس نے کہاکہ طلعت حسین سے میری دوستی سیاسی زیادہ تھی، وہ بہت کچھ کہنا چاہتے تھے،وہ بہت گہرے انسان تھے ، اکثر پریس کلب آیا کرتے تھے یہاں آکر اپنی ساری بھڑاس نکالتے تھے، ایسے لوگوں کا تعزیتی ریفرنس نہیں بلکہ ان کی زندگی کو سلیبرٹ کرنا چاہیے، انہوں نے کہاکہ پہچان کبھی ختم نہیں ہوتی ،پاکستان کی فلم یا ڈرامہ انڈسٹری میں جب بھی طلعت حسین کا نام پاکستان آئے گا بہت اوپر آئے گا، امجد شاہ نے کہاکہ طلعت حسین حقیقی معنوں میں ہمارے استاد تھے، پرچھائیاں، بندش، ہوائیں اورنہ جانے کتنے کامیاب ڈرامے انہوں نے کیے، ان کا تعلق آخری دم تک پاکستان ٹیلی ویژن سے جڑا رہا، انہوں نے کہاکہ طلعت حسین اپنی آنکھوں سے کام لینا جانتے تھے، ان کی آنکھوں میں ایک الگ ہی چمک تھی، میں احمد شاہ کا سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے فنکاروں کو آپس میں جوڑے رکھا ہے، اداکار خالد انعم نے کہاکہ طلعت بھائی سے میرا تعلق بہت گنجلک تھا، تھیٹر میں بھی ساتھ کام کیا، وہ سب کے لیے بہت فکر مند رہتے تھے اور قومی ترانے کے لیے جب وہ اعلان کرتے تھے تو نہ چاہتے ہوئے بھی سب کھڑے ہوجاتے تھے کہ یار یہ کوئی بہت قدآور شخصیت ہے جو ہمیں پاکستان کی تعظیم کے لیے کہہ رہا ہے،طلعت حسین کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا، نور الہدیٰ شاہ نے کہاکہ انسٹیٹیوٹ کبھی مرتا نہیں جب تک سیکھنے والے موجود ہیں طلعت حسین کا نام زندہ رہے گا، طلعت صاحب کو صرف دیکھنا نہیں بلکہ سننا بھی پڑتا تھا، طلعت حسین ہمارے لیے انسٹیٹیوشن کا درجہ رکھتے تھے، آج بھی طلعت حسین کی تصویر فن کا اظہار کررہی ہے، قدسیہ اکبر نے کہاکہ طلعت حسین ایک عہد ساز شخصیت کے مالک تھے ، وہ اپنی ذات میں انجمن تھے، طلعت حسین کا دنیا سے چلے جانا ہمارا بہت بڑا نقصان ہے اس خلا کو کوئی پرُ نہیں کر سکتا، اداکار فیصل قریشی نے کہاکہ طلعت حسین بہت سینئر اداکار تھے ، وہ مجھے اپنا بیٹا کہتے تھے، ان سے میری اچھی دوستی بھی تھی، انہوں نے شوبز انڈسٹری پر حکومت کی ہے، طلعت حسین فلم اور ڈرامہ انڈسٹری کا بہت بڑا نام تھا، میں نے ایک سیریل طلعت بھائی کی زندگی پر کیا تھا جس پر مجھے ایوارڈ بھی ملا ، انہوںنے کہاکہ جو چلا گیا ہے ایسا کوئی دوسرا نہیں آسکتا ، سینئر اداکار ساجد حسن نے کہاکہ طلعت حسین سب کو ساتھ لے کر چلتے تھے، ہم سب طلعت حسین سے بہت پیار کرتے ہیں، آج کل طلعت حسین جیسے اداکار بہت کم ملتے ہیں جو خود پیچھے رہ کر دوسروں کو آگے کرتے ہیں، وہ اپنی پوتی کو دیکھ کر جیتے رہے، ان کی بیماری میں جس طرح ان کے گھروالوں نے انہیں سنبھال کر رکھا قابل تعریف ہے، اداکار ایاز خان نے کہاکہ طلعت حسین کے بولنے میں جو اپنائیت تھی وہ لوگوں کو سننے پر مجبور کر دیتی تھی، میں نے جتنا بھی کام طلعت بھائی سے سیکھا دوسروں تک بھی پہنچاﺅں گا، احمد شاہ صاحب نے ٹربیوٹ اور تعزیتی اجلاس کی اچھی وایت ڈالی ہے، ظہیر خان نے کہاکہ طلعت کے ساتھ میری ملاقات آواز سے شروع ہوئی ، طلعت حسین ایک سچا انسان تھا، انہوں نے اللہ کی دی ہوئی نعمت کو امانت کے طور اپنی آواز اور اداکارکے ذریعے لوگوں تک واپس پہنچائی، طلعت حسین نے ریڈیو سے شروعات کی تھی اور اپنی محنت سے خود منوایا، اقبال لطیف نے کہاکہ مجھے آج تک یقین نہیں آرہا ہے کہ طلعت بھائی ہم میں نہیں رہے، ہم سب کا دکھ ایک ہی ہے ، طلعت حسین ہمارا سرمایہ ہے اور ان جیسا نہ کوئی پیدا ہوا نہ ہوگا ، عظیم انسانوں کو بھول جانے والی قومیں کبھی عظمت کی طرف نہیں جاتیں، اداکار ریحان شیخ نے کہاکہ طلعت حسین سے میرا تعلق بہت پرانا تھا، وہ مجھے کہا کرتے تھے کہ تم لکھنے پرتوجہ دو مگر مجھے اداکاری کا بھوت سوار تھا، انہوں نے ڈرامہ انڈسٹری انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، اداکار ٹیپو نے کہاکہ طلعت حسین نے پاکستان کا نام روشن کیا، میں خوش نصیب ہوں کہ اتنی بڑی شخصیت کے ساتھ وقت گزارا اور کام کیا، ان کے ساتھ میری بہت کھٹی میٹھی یادیں وابستہ تھیں، ڈاکٹر عالیہ امام نے کہاکہ طلعت حسین عظیم المرتبت فن کار تھے، وہ ادب کے ذہن کی لوح اور فکر کی جگمگاہٹ تھے، نقیب سحر، ادیب و فنکار بننا کافی نہیں بلکہ ایک اچھا انسان ہونا بھی ضروری ہے جیسے طلعت حسین تھے، ان کا فن ہماری دولت ، ہمارا خزینہ، ہماری امانت ہے اس کو خوب سے خوب تر کی طرف لے جانا ہمارا فریضہ اولین ہے، میں انہیں محبت کا خراج پیش کرتی ہوں، جاوید صبا نے کہاکہ طلعت بھائی اداکار کے ساتھ ساتھ گلوکار بھی بہت اچھے تھے، جتنے لٹریچر کے لوگ تھے طلعت حسین ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے ، ان کو کتابیں پڑھنے اور لکھنے کا بہت شوق تھا ، انہوں نے ہمیشہ ادب سے رشتہ جوڑے رکھا، مصری نظمیں اور کہانیاں بھی لکھیں، آدمی جاتا نہیں ہے طلعت حسین بھی ہم میں موجود ہیں، روحینہ حسین نے کہاکہ ابو ہمیشہ پڑھائی مکمل کرنے پر زور دیا کرتے تھے، ان کے ساتھ آخری لمحات میں گزرا وقت بہت یاد آتا ہے، ابو نے ہمیں کسی بات سے نہیں روکا ، وہ ہمیشہ ہمیں سپورٹ کیا کرتے تھے، اگر مجھے دوبارہ دوسری زندگی میں کسی کو مانگنے کا موقع ملے تو میں ابو کو واپس مانگنا چاہوں گی ،اشعر حسین نے کہاکہ ابو ہمیشہ کہتے کہ اچھا انسان بنو، سب سے اچھے سے پیش آﺅ، ابو کی یادداشت کمزور ہوچکی تھی مگر انہیں پاکستان سے اتنا پیار تھاکہ قائداعظم ان کو یاد تھے، طلعت حسین کی صاحبزادی تزین حسین نے کہاکہ میں تعزیتی ریفرنس کے انعقاد پر آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی اور صدر محمد احمد شاہ کی شکر گزار ہوں، بابا ایک اچھے اداکار تو تھے ہی لیکن وہ ایک اچھے باپ بھی تھے، انہوں نے کبھی ہمیں کسی چیز سے نہیں روکا، وہ کہا کرتے تھے کہ آپ اگر کسی کو محبت دیں گے تو اگلا بھی آپ کو محبت دے گا، ڈاکٹر رخشندہ طلعت حسین نے کہاکہ آج طلعت کی شخصیت اور زندگی کے بارے میں سن کر میرے دل میں ان کی عزت اور بڑھ گئی، میاں بیوی کا رشتہ بہت خوبصورت ہوتاہے میں اکثر ان کے کام پر تنقید کیا کرتی تھی طلعت مجھ سے کہتے تھے کہ تم نے میرا ڈرامہ دیکھا سب واہ واہ کرتے ہیں بس تم مجھے میری غلطی بتاتی ہو، وہ اپنے کام کو بہت شوق سے کرتے تھے، انہوں نے کام کے آگے کسی چیز کو اہمیت نہیں دی، کہتے ہیں اچھا اداکار وہ ہے جو اپنے کردار میں ہر وقت رہتا ہو طلعت حسین وہی اداکار تھے ، میں شاہ صاحب کی شکر گزار ہوں انہوں نے آرٹس کونسل کے لیے بہت کام کیا ۔۔واضح رہے کہ طلعت حسین نے 1998ءمیں ریلیز ہونے والی فلم ”جناح“ میں بھی کام کیا جس میں انہوں نے ”پاکستان زندہ آباد “کے نعرے بلند کیے جبکہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی نے کتاب ”یہ ہیں طلعت حسین“ بھی شائع کی۔