کراچی (آغاخالد)
جب خواب تعبیر کالبادہ اوڑھ لیں، لفظوں کی ترتیب تغیرات کے تالاب سے موتی چننے لگے واقعات کا تسلسل خبریت میں ڈھلنے لگے تو سوچوں کے نہاں خانوں کو کنگھالیں سمجھ لیں کہ آپ کے اذہان کی اسکرینوں پر "چینل 5” نے پنجے گاڑ لیے ہیں۔۔۔مگر کیوں??? ذراسوچیے اور سوچیے اور اور۔۔۔کیونکہ
سچائی کو جرئت کے گلدان میں سجاکر تلاش کے گلشن میں وہ آپ کاہم رقیب ہوچکاہے ایک ایسا ادارہ مشرقی روایات کا امین، جہاں کوئی مالک ہے نہ نوکر گھر کاسا ماحول،
(ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمودو ایاز )
28 مئی یوم تکبیر۔۔۔
پوری قوم کے لئے انتہائی یادگار دن جب ملکی قیادت نے یک جاں یک قالب ہوکر اس ملک کو ایٹمی دھماکوں کا تحفہ دیا،اس دن کی مناسبت سے چینل 5 کی انتظامیہ نے ٹیسٹ ٹرامیشن کاآغاز کیا اور اس روز چینل 5 نے لاہور کی سکونت ترک کرکے نیا جنم پاتے ہوے کراچی کی آغوش میں پناہ لی آج چینل 5 کے مرکزی دفتر میں ماحول خاصہ پرجوش تھا آج ایک ماہ کی کوششیں بار آور ہونے کوتھیں چینل 5 کابٹن دباکر انتہائی قابل احترام صحافی تجزیہ کار اور چینل 5 کے میزبان محمود شام نے افتتاح کردیاتھا اور اس پر ریکارڈڈ تلاوت کلام پاک قرئت اور ترجمہ کے ساتھ جاری ہوچکی تھی مگر لائیو نشریات کا مرحلہ قابل عبور تھا اور طے ہوگیا تھا کہ 8 بجے کاخبر نامہ کراچی سے لائیو پڑھاجائے گا مگر ہر لمحہ ڈیجیٹل آلات کے نئے نئے الجھائو پائوں جمانے ہی نہ دے رہے تھے تکنیکی ماہرین اور انجنیرز کی فوج ایک مسلہ حل کرتی تو دو اور سر کشی پر اتر آتے ادھر ادارہ کے شفیق چیرمین خالد آرئیں سیٹ پر موجود انتظار کی گھڑیاں گن رہے تھے ان کے ساتھ صحافت کے سرتاج محمود شام بھی کروٹیں بدل رہے تھے جبکہ ڈائرکٹر نیوز راشد محمود اور کنٹرولر عامر شیخ اپنی ٹیم کے ساتھ سر گرم تھے ادھر چیف آپریٹنگ آفیسر عامر بیگ اور ڈائرکٹر مارکیٹنگ زبیر خان کبھی دو دو سیڑھیاں پھلانگتے گیلری میں قائم ایم سی آر کاجائزہ لیتے اور کبھی اسٹیج پر اپ لنک کی ہدایات دیتے نظر آتے ان کے ساتھ ڈائرکٹر ایڈمن زاہد آرئیں بھی ان کی بھرپور مدد کرہے تھے تشویش ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بے صبری میں بدل رہی تھی سب کے چہروں پر تنائو نمایاں تھا اور انتظار کی گھڑیاں گنتے ہم جیسے نکمے بھی کامیابی کی دعائوں میں مگن تھے وقت انتظار کو اکثر دھوکہ دے کر آگے نکل جاتاہے سو آج بھی ایسا ہی ہوا 8 کو ساڑھے 8 پر لے جایا گیا اور پھر 9 اور اس کے بعد 10 بھی گزر گئے مگر یکے بعد دیگرے پیدا ہوئی خرابیاں دور نہ کی جاسکیں شب کے 11 بجنے کو تھے سناٹے اور تنائو کے بیچ اچانک ادارہ کے چیرمین خالد آرائیں کی آواز گونجی، یار تم لوگوں نے کھانا وانا بھی کھایاہے یا بھوکے پیٹ لگے ہوے ہو پھر تنائو کو جھٹک کر ہنستے ہوے بولے خالی پیٹ تو عبادت بھی منع ہے ساتھیو چلو چھوڑو سب اور چل کر کسی اچھے سے ہوٹل میں کھانا کھاتے ہیں باقی صبح دیکھیں گے چھوٹے بڑے سب سناٹے میں آگئے اور ایک ساتھ بیسیوں تشکر بھری نظریں اپنے ایسے مزدور دوست مالک کی طرف اٹھیں اور پھر اگلے چند منٹ میں سچ مچ پورا قافلہ کلفٹن کے ایک مہنگے ہوٹل کی طرف بڑھ رہاتھا، جہاں کاکھانا بھی بہت پر تکلف اور لذیذ تھا تب مجھے ایک جونیر تکنیکی ماہر نے سرگوشی میں کہا سر جی میں تو آج اپنی پکی چھٹی ہی سمجھ رہاتھا مگر یہ چیرمین تو کمال کے بندے ہیں مینے چھوٹے بڑے بہت سے چینلز میں کام کیاہے مگر اپنے عملے کا اتنا احساس کرنے والا پہلے نہیں دیکھا پھر وہ تشکر بھری نظروں سے دعائیہ دونوں ہاتھ اٹھاکر بولا میرا سوہنا رب کرے یہ چینل کامیاب ضرور ہو۔.