فیصل آباد ۔(اسٹاف رپورٹر ):چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر مختار احمد نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے انسانوں، حیوانات اور ماحول کے مابین عدم توازن،غذائی استحکام اور دیگر سنگین مسائل پیدا ہو رہے ہیں جس کیلئے جنگلات کی کٹائی کی روک تھام، آلودگی اور پانی کے بے جا استعمال پر قابو اور فصلات پر کیڑے مار ادویات کا بے دریغ استعمال روکنے کے ساتھ ساتھ دیگر اقدامات لینے ہوں گے تاکہ آنے والی نسل کو ایک بہتر ماحول فراہم کیا جا سکے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے زیراہتمام بین الاقوامی کانفرنس برائے بائیوڈائیورسٹی اینڈ بائیوسیفٹی سے بطور مہمان خصوصی اپنے خطاب کے دوران کیا۔ انہوں نے کہا کہ غذائی استحکام کو یقینی بنانے کیلئے ہمیں سائنسی بنیادوں پر زراعت کو استوار کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ بڑھتی ہوئی آلودگی اور درختوں کے کٹاؤ کے منفی اثرات کے بارے میں عوامی سطح پر شعور بیدار کرنا ہو گاتاکہ اس چیلنج سے نبردآزما ہوا جا سکے۔ زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اقرار احمد خاں نے کہا کہ ماحولیاتی نظام میں عدم توازن خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے جس کیلئے سائنسدانوں، سول سوسائٹی، انڈسٹری، ماہرین اور حکومت کو مشترکہ کاوشیں عمل میں لانا ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کا 70فیصد زرعی رقبہ گندم اور چاول کی فصلات پر مشتمل ہے اور یہ صوبے کا 75فیصد پانی استعمال کرتا ہے اسلئے پانی کے بے جا استعمال کو روکنے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی آف کیسل جرمنی کے بین الاقوامی مرکز برائے ترقی اور مہذب کام کے تحت زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں مختلف منصوبہ جات میں بہترین تحقیقاتی امور سرانجام دیئے جا چکے ہیں۔ یونیورسٹی آف کیسل جرمنی کے سائنسدان ڈاکٹر انڈریاس برکٹ نے کہا کہ برصغیر میں زراعت میں پانی کے بے جا استعمال کو روکنے کیلئے قیمت کا نظام مرتب کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ سولر ٹیوب ویلز کی وجہ سے زیرزمین پانی کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قدرتی وسائل کی عزت اور ماحول دوست ٹیکنالوجیز کو فروغ دینا ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پگھلتے ہوئے گلیشیئردنیا کیلئے بڑا مسئلہ ہیں۔یونیورسٹی آف کیسل جرمنی کے ڈاکٹر مارٹن ویل نے کہا کہ ایشیامیں پاکستان، ایران اور افغانستان موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے متاثر ہونے والے بدترین ممالک ہیں جہاں پر فی کس پانی میں بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پگھلتے ہوئے گلیشیئر سمندروں کی سطح میں اضافہ کر رہے ہیں۔ پرووائس چانسلروڈین کلیہ زراعت ڈاکٹر محمد سرور خاں نے کہا کہ اس کانفرنس میں دنیا بھر سے ماہرین مدعو کیا گیا ہے تاکہ بائیوڈائیورسٹی اور بائیوسیفٹی بارے پالیسی، سفارشات مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں شعور بیدار کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کو برصغیر کی اولین زرعی دانش گاہ کے طور پر جانا جاتا ہے جو کہ زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے کوشاں ہے۔انہوں نے کہا کہ تمام سٹیک ہولڈرز کو بائیوڈائیورسٹی کو محفوظ بنانے کیلئے ٹھوس حکمت عملی مرتب کرنا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کئی سپیشیز معدوم ہو گئی ہیں جس سے ماحولیاتی توازن بگاڑ کا شکار ہے۔ اس موقع پر انڈیا کے ڈاکٹر کے این گنیشیا نے کہا کہ بائیوڈائیورسٹی کسی بھی ملک کا اثاثہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ قومی پروگرام کے تحت انڈین بائیوڈائیورسٹی کو انوینٹری، میپنگ اور ڈیجٹیلائز کر رہے ہیں۔ انہوں نے زرعی یونیورسٹی کو اس کانفرنس کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اس کے بہترین نتائج برآمد ہوں گے۔ زرعی یونیورسٹی کے ڈاکٹر سہیل ساجد نے کانفرنس کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا۔