اسلام آباد(نمائندہ خصوصی):چیئرپرسن بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) روبینہ خالد کی زیر صدارت بی آئی ایس پی ٹیکنالوجی ونگ کے ساتھ اہم میٹنگ کا انعقاد کیا گیا جس میں بی آئی ایس پی سے منسلک دھوکہ دہی کی سرگرمیوں کے انسداد کے لیے جاری کوششوں اور مستقبل کی حکمت عملیوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اجلاس میں ایڈیشنل سیکرٹری بی آئی ایس پی ڈاکٹر محمد طاہر نور نے بھی شرکت کی۔میٹنگ کا بنیادی مقصد چیئرپرسن کو ٹیکنالوجی ونگ کے کاموں اور فراڈ سے نمٹنے کے لئے اب تک کئے گئے اقدامات کے بارے میں آگاہ کرنا تھا۔ روبینہ خالد نے بی آئی ایس پی کو بدنام کرنے والی دھوکہ دہی کی سرگرمیوں میں ملوث افراد کی نشاندہی کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
میٹنگ کے دوران روبینہ خالد نے ٹیکنالوجی ٹیم کو ہدایت کی کہ آئندہ ہفتے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اور دیگر متعلقہ سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر سکیورٹی کے مسائل حل کرنے کے لئے ایک میٹنگ کا انعقاد کیا جائے۔ انہوں نے ہدایت کی کہ وہ ایف آئی اے کے لیے جامع تجویز کا مسودہ تیار کرے جس کا مقصد بی آئی ایس پی کے نام پر فراڈ کرنے والے افراد، تنظیموں اور عناصر سے نمٹنا ہے۔بریفنگ میں ٹیکنالوجی ونگ کی اہم کامیابیوں کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا جس میں ایف آئی اے کے تعاون سے 170 جعلی ویب سائٹس کو بلاک کرنا اور 37,389 جعلی سم کارڈز کو غیر فعال کرنا شامل ہے۔ ٹیکنالوجی ونگ نے بی آئی ایس پی سے مستفید ہونے والوں کے تحفظ کے لیے بالخصوص کفالت سہ ماہی قسط کے اجراء سے قبل نافذ کیے گئے وسیع حفاظتی اقدامات کا خاکہ بھی پیش کیا۔
روبینہ خالد نے ایڈیشنل سیکرٹری ڈاکٹر محمد طاہر نور کو ہدایت کی کہ وہ بی آئی ایس پی کی قومی ، سماجی و اقتصادی رجسٹری ٹیم کے ساتھ ملاقات کا اہتمام کریں۔ اس میٹنگ میں متعلقہ فریقوں کے ساتھ ڈیٹا شیئرنگ کے طریقہ کار پر تبادلہ خیال، سروے کے طریقہ کار کا جائزہ لینے اور فائدہ اٹھانے والوں کی رجسٹریشن پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ مزید برآں حفاظتی پروٹوکول کو بڑھانے کے لیے آلات کی جیو فینسنگ کی جانچ کی جائے گی۔مستحقین اور عام لوگوں کو مزید تحفظ فراہم کرنے کے لیے چیئرپرسن نے بی آئی ایس پی کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بشمول فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور یوٹیوب کے ذریعے آگاہی کے پیغامات جاری کرنے کی تجویز دی۔ انہوں نے بی آئی ایس پی کال سینٹر نمبر 0800-26477 اور 8171 پیغامات کو بطور رنگ ٹون استعمال کرنے کی تجویز پیش کی تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ آفیشل نمبر صارفین کے ذہنوں میں نمایاں رہیں، اس طرح معصوم لوگوں کو جعلساز عناصر سے بچایا جا سکے گا۔