ماسکو(شِنہوا) روس کے صدر ولادیمیرپوتن نے کہا ہے کہ روس اور چین اقتصادی اور ثقافتی شعبوں میں وسیع ،یکساں اور باہمی مفید تعاون سے دونوں ممالک میں خوشحالی کو فروغ دے رہے ہیں۔چین کے اپنے 2 روزہ سرکاری دورے سے قبل شِنہوا کے ساتھ ایک انٹرویو میں پوتن نے اس بات پر زور دیا کہ دونوں ممالک کے درمیان خارجہ پالیسیوں میں ہم آہنگی ایک منصفانہ کثیر قطبی عالمی نظام قائم کرنے میں پیشرفت کررہی ہے جو نئے دور کے رابطوں میں روس ۔ چین جامع اسٹریٹجک شراکت داری کے کامیاب مستقبل کی بنیاد ہے۔روسی صدر پوتن نے اس بات کو اجاگر کیا کہ روس ۔ چین تعلقات نظریے سے بالاتر ہیں اور سیاسی صورتحال سے قطع نظر دونوں ممالک کا آزادانہ طور پر کیا جانے والا اسٹریٹجک انتخاب ہے جو وسیع مشترکہ مفادات، گہرے باہمی اعتماد، مضبوط عوامی تائید اور دونوں ممالک کے عوام کے درمیان حقیقی دوستی پر مبنی ہے۔ دونوں ممالک مشترکہ طور پر خودمختاری، علاقائی سالمیت اور سلامتی کے تحفظ کے لیے پرعزم ہیں۔انہوں نے کہا کہ وسیع تر معنوں میں، ہم مساوی، باہمی مفید اقتصادی اور انسانی تعاون کو بڑھا کر روس اور چین کی ترقی اور خوشحالی میں شراکت دار بننے کے لئے کام کررہے ہیں اور ایک منصفانہ کثیر قطبی عالمی نظام کے قیام کے لئے خارجہ پالیسی میں رابطے کو مضبوط بنا رہے ہیں. یہ سب نئے دور کے لئے ہم آہنگی کی ہماری جامع اسٹریٹجک شراکت داری کے کامیاب مستقبل کی کنجی ہے ۔انہوں نے اس بات تذکرہ کیا کہ روس۔ چین شراکت داری ہمیشہ مساوات اور باہمی اعتماد، خودمختاری میں باہمی احترام اور ایک دوسرے کے مفادات کو مدنظر رکھنے پر مبنی ہے۔ صدر شی جن پھنگ ایک دانشمند اور دور اندیش رہنما ہیں جو دوطرفہ تعلقات میں پیشرفت کےلئے خصوصی اور نمایاں کردار ادا کررہے ہیں۔صدر پوتن نے کہاکہ ہم پہلی بار مارچ 2010 میں ملے تھے اور تب سے ہم باقاعدگی سے ملاقاتیں اور فون پر بات چیت کررہے ہیں۔ صدر شی ایک قابل احترام، دوستانہ، کھلے روابط کے ساتھ ساتھ کاروباری طرز پر رابطے برقراررکھتے ہیں۔ ہرملاقات نہ صرف پرانے دوستوں کے درمیان بات چیت ہوتی ہے بلکہ دوطرفہ اور عالمی ایجنڈے پر بھی مفید تبادلہ خیال بھی کیا جا تا ہے۔پوتن نے یاد کیا ہے کہ 2013 میں صدر شی نے چین کے سربراہ کی حیثیت سے اپنا پہلا سرکاری دورہ چین کا کیا تھا۔ گزشتہ برس مارچ میں دوبارہ چینی صدر منتخب ہونے کے بعد بھی ان کا پہلا سرکاری دورہ روس کا تھا۔ انہوں نے تقریبا 5 گھنٹے ساتھ گزارے، ون آن ون تفصیلی بات چیت کی جس کے بعد سرکاری تقاریب ہوئیں۔روسی صدر پوتن نے زور دیا کہ ہمارے درمیان اسٹریٹجک شراکت داری کی غیر معمولی سطح ہے اور اسی لئے روس کے صدر کا حلف اٹھانے کے بعد انہوں نے اپنے پہلے دورے کے لئے چین کا انتخاب کیا ہے۔صدر پوتن نے کہا کہ روسی صدارت میں برکس مستحکم رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے اور تعاون کے تینوں اہم ستونوں ، سیاست اور سلامتی ، معیشت اور مالیات ، اور عوامی تبادلوں پر بڑے پیمانے پر کام جاری ہے اور اس ضمن میں 200 سے زائد ایونٹس کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔روسی صدارت میں ایک اہم کام برکس میں نئے ارکان کو منظم طریقے سے ضم کرنا ہے۔ ہم تعاون میکانزم کے موجودہ نیٹ ورک میں شامل ہونے میں فعال طور پر ان کی مدد کر رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ایک اور ترجیح عالمی امور میں برکس کی ساکھ میں اضافہ ہے جس کے لئے مربوط طریقے سے کوششیں جاری ہیں ۔ ہم عالمی تعلقات میں زیادہ جمہوری ، مستحکم اور منصفانہ ڈھانچے کے فروغ میں اس کی صلاحیت کو بڑھانا چاہتے ہیں۔روسی صدر پوتن نے یوکرین بحران کے سیاسی حل کے لیے چینی کوششوں کے حوالے سے مثبت خیالات کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ یوکرین بحران کی وجہ اور اس کے عالمی جغرافیائی سیاسی اثرات کو چین اچھی طرح سمجھتا ہےاور اس کا اظہار ” یوکرین بحران کے سیاسی تصفیہ پرچینی موقف” سے ہوتا ہے جو فروری 2023 میں چین کی پیش کردہ 12 نکاتی تجاویز میں پیش کیا گیا۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ دستاویز تصوارت اور تجاویز پر مشتمل ہے جو صورتحال مستحکم کرنے میں چین کی مخلصانہ خواہش کا اظہارہے۔
پوتن نے اس بات پر زور دیا کہ حال ہی میں یوکرین بحران کے پرامن حل سے متعلق صدر شی کے پیش کردہ 4 اصول اس دستاویز کے عین مطابق ہیں۔