کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ)میئر کراچی اور ڈپٹی میئر کے درمیان مویشی منڈی کے انتظامات،نگرانی کے اختیارات پر اختلافات پیدا ہونے پر بلدیہ عظمی کراچی کے ویٹنری ڈپارٹمنٹ کی ایک بار پھر عید الاضحی سے قبل تمام سرگرمیاں عملا معطل اور کروڑوں روپے آمدنی سے محروم ہو گیا ہے جس سے افسران اور ملازمین اس صورتحال سے دل براشتہ ہورہے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈپٹی میئر سلمان مراد براہ راست ادارہ میں حکمنامہ جاری کررہے ہیں،جبکہ اصولی طور پر میئر کے ہوتے ہوئے ڈپٹی میئر کے تمام احکامات غیر قانونی ہوتے ہیں۔ مویشی منڈی لگانے کی تمام تر درخواستیں پر اجازت نامے ڈپٹی میئر کی جانب سے آرہے ہے جس میں میئر کراچی کا اجازت نامہ موجود نہیں ہے۔ ڈپارٹمنٹ میں میئر کراچی اور ڈپٹی میئر کراچی کے درمیاں تنازعات پر اضطراب پیدا ہورہا ہے۔ ویٹنری ڈپارٹمنٹ کیلیئے میئر اور ڈپٹی میئر کراچی اگر پالیسی بنائیں یا واضح کریں تو اس سے ادارے اور محکمے دونوں کو فائدہ ہو گا۔اس ضمن میں محکمے نے ایک بار پھر عید قربان میں جانوروں کے تاحال نہ ویٹنری سینٹر بنائے، نہ اجازت نامہ جاری کیا، نہ کسی ادارے کو این او سی جاری کیئے،نہ کسی بکرا منڈی کا چالان جاری کیا اور نہ ہی کسی بکرا منڈی میں میڈیکل کیمپ لگائے،جبکہ مویشی منڈی کے جانوورں پر میونسپل ٹیکس بھی کمشنر کراچی کے اجلاس میں مسترد کر دیا گیا ہے جس کے تحت 500 سے 1000 روپے فی جانور ٹیکس لگانے کی تجویز دی گئی تھی جبکہ مرکزی منڈی کو بڑے جانور پر 6000 روپے چھوٹے جانور سے تین ہزار روپے ٹیکس وصول کرنے کی منظوری دی گئی تھی اور بلدیہ کو 18مقامات پر مویشی منڈی لگانے کی تجویز پر بھی تاخیری حربے استعمال کیئے جا رہے ہیں۔مبینہ طور پر کمشنر کراچی حسن نقوی نے بعض سیاسی اور انتظامی حکام کی ہدایت پر بلدیہ عظمی کراچی کو منڈی کے اجازت نامے پر ہوم ڈپارٹمنٹ کی این او سی سے مشروط کردیا گیا ہے۔اس بارے میں ویٹنری ڈپارٹمنٹ حکام کا کہنا ہے کہ جب تک ہوم ڈپارٹمنٹ کی این او سی نہ مل جائے ہم اپنی ورکنگ نہیں کرسکتے ہیں،ہمیں معلوم نہیں کہاں مویشی منڈی لگے گا کہاں نہیں لگ سکتی ہے،کہاں دفعہ 144کا نفاذ ہوگا،جبکہ محکمہ ویٹنری کے حکام کا کہنا ہے کہ قانون کے مطابق جانوروں کے بازار، بکرامنڈی کے اجازت نامے جاری کرنے کے تمام تر اختیارات صرف بلدیہ عظمی کراچی کے محکمہ ویٹنری ڈپارٹمنٹ کو دیا گیا ہے۔ یہ اختیارات کنٹونمنٹ بورڈز سمیت کسی ادارے یا محکمے کے پاس نہیں ہے۔بلدیہ عظمی کراچی کی اجازت کے بغیر لگنے والی تمام بکرامنڈی غیر قانونی ہے۔اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کی جانب سے اجازت نامہ بھی غیر قانونی ہوگا۔ کمشنر کراچی کے اجلاس میں سب سے بڑی مویشی منڈی تیسر ٹاون میں لگانے اور اس کے تمام انتظامات عسکری ادارے کو دے دی گئی ہے۔اس کے علاوہ کنٹونمنٹ بورڈ اور دیگر انتظامیہ بھی غیر قانونی مویشی منڈی لگانے پر تیار ہے کئی مقامات پر پہلے ہی ورکنگ جارہی ہے۔کچھ بااثر افراد جنہیں مبینہ طور پر کچھ وزراء کی بھی پشت پناہی حاصل ہے جن میں حاکم جسکانی، طارق تنولی اور فراز نامی اشخاص بھی شامل ہیں وہ بھی غیر قانونی مویشی منڈی لگا رہے ہیں،ان تمام افراد کو طاقتور سیاسی حلقوں کی حمایت حاصل ہے۔بلدیہ عظمی کراچی کی حدود میں لگنے والی مویشی منڈی کی درج ذیل مقامات پر لگانے کی سفارش کی گئی ہے،لوکل گورٹمنٹ ایکٹ 2013ء کے شیڈول، کیٹل منڈی کی تجویر کردہ ایریا کے ایم سی کے اختیار میں ہے۔ اپنے علاقے میں نگرانی اور انتظامات کے لئے کراچی کے مختلف علاقوں میں منظوری دی گئی ہے ان میں ضلع جنوبی میں مویشی منڈی،ملیر ندی کورنگی کریک روڈ،ضلع وسطی میں مویشی منڈی اتوار بازار سیکٹر 11-D نارتھ کراچی،مویشی منڈی لیاقت آباد نمبر 8 نزد فٹبال گروانڈ،مویشی منڈی نزد ضیاء الدین ہسپتال،مویشی منڈی سندھ اسپورٹس کمپلیس نزد رینجرر ہیڈ کوارٹر نمبر ون،مویشی منڈی افغان گروانڈ بلاک 19 ایف بی ایریا،ضلع شرقی میں مویشی منڈی حسن اسکوائر بلب فیکٹری عقب سوک سینٹر گلشن اقبال،مویشی مندی بچت بازار موسمیات چورنگی اسکیم 33،مویشی منڈی کامران چورنگی گلستان جوہر، مویشی منڈی رم جم ٹاور نزد صفورا چورنگی،مویشی منڈی سہراب گوٹھ، ضلع کورنگی میں مویش منڈی پنجاب گراؤنڈ شاہ فیصل کالونی، ضلع کیماڑی میں مویشی منڈی نزد مائی کلاچی روڈ کلفٹن، مویشی منڈی بکری پیٹری لیاری، ضلع ملیر میں مویشی منڈی ٹنکی گروانڈ روڈ 8،سلاٹر ہاوس کٹیل کالونی، مویشی منڈی سرجانی ٹاون۔میونسپل کمشنر کراچی نے 18 مقامات پر مویشی منڈی لگانے کی تجویر دی تھی۔ ایک ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر میئر اور ڈپٹی میئر کے درمیاں اختیارات کی جنگ جاری رہی تو شہر میں لگنے والی تمام غیر قانونی بکرا منڈ ی لگانے والے کسی ادارے یا اتھارٹی کو نہیں روکا جا سکتا۔سندھ حکومت کے بھی براہ راست یا بلا واسطہ جاری کیا گیا دفعہ 144 لگانے کے باوجود بکرا منڈی شہر کی اہم شاہراہوں، سڑکوں، فٹ پاتھوں،میدانوں،پارکوں کے علاوہ مارکیٹوں کے اطراف بھی بڑے پیمانے پر غیر قانونی بکرا منڈی بن جائے گی جس سے شہر میں بدترین ٹریفک جام ہو گا اور انوائرنمنٹ کے شدید مسائل پیدا ہو جائیں گے۔کے ایم سی کی نااہلی، عدم توجہی کے باعث ادارے میں 12 ویٹنری ڈاکٹرز میں اکثریت ریٹائرڈ ہو گئی ہے۔ ویٹنری ڈپارٹمنٹ میں اب صرف 4 ڈاکٹرز ملازمت پر رہ گئے ہیں،جن سے کام نہیں لیا جا رہا ہے۔ کراچی کے 7 اضلاع میں 72 ویٹنری ڈاکٹرز کی ٹیم کی ضرورت ہے۔ ضلع یا ٹاون کی سطع پر ڈھانچہ تشکیل دینے کی اشد ضرورت کا اظہار کیا جارہا ہے۔دو سرکاری سلاٹر ہاوس کے علاوہ سینکڑوں غیر قانونی مختلف مذبح خانے شہر میں چل رہے ہیں،دلچسپ امر یہ ہے کہ صوبائی حکومت اور میئر کراچی و ڈپٹی میئر کراچی کے اختیارات کی جنگ میں بلدیہ عظمی کراچی کا ایک ویٹنری ڈپارٹمنٹ کی آمدنی جو پہلے ہی بند ہے اب ادارے کا عضو معطل ہو کر رہ گیا ہے۔ٹول ٹیکس،ملیچنگ فیس کی کروڑ روپے ریونیو کو غیر قانونی اور جبرا” ضلع کونسل کراچی اور ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن ملیر اور اب گڈاپ ٹاون کو دینے پر تمام تحقیقاتی ادارے گونگے بہرے بنے ہوئے ہیں،اور ان تمام معاملات پر اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں۔ سندھ حکومت کی ایما پر کے ایم سی کو قانونی ٹیکس سے بھی محروم کردیا گیا ہے لیکن میئر اور ڈپٹی میئر اختیارات کی جنگ کر رہے ہیں،جبکہ ٹیکس غیر قانونی طور پر ڈی ایم سی ملیر وصول کررہا ہے۔دوسری جانب نجی ادارے کی نگرانی میں چلنے والے میکرو ملٹن نجی ادارے نے سلاٹر ہاوس لانڈھی کو معاہدے کے تحت ادائیگی بند ہو گئی ہے۔ 2013ء میں سلاٹر ہاوس نجی کمپنی کے حوالے کیا گیا تھا لیکن اس سے ایک روپے کی بھی آمدنی نہیں ہو رہی ہے۔معاہدے کی مدت اگلے سال ختم ہوجائے گی۔اس سلسلے میں ہونے والی ایک ارب روپے کی آمدنی پر ڈی ایم سی ملیر نے قبضہ کرکے غیر قانونی طور پر بلدیہ عظمی کراچی کے ویٹنری ڈپارٹمنٹ کو آمدنی سے محروم کردیا ہے جسے فوری حل کرنے کی ضرورت ہے، لیکن اس حوالے سے اب تک کوئی بھی اجلاس بھی طلب نہیں کیا گیا ہے البتہ ڈپارٹمنٹ کے مفادات کو بھول کر میئر اور ڈپٹی میئر میں اختیارات کی جنگ جاری ہے۔