کراچی(ہیلتھ رپورٹر ) پاکستان میں تھلیسمیا میں مبتلا بچوں کی شرح اموات میں اضافہ ہورہا ہے تاہم عوام میں شعور پیدا کرکے نہ صرف اس پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ پاکستان کو تھلیسمیا فری ملک بنایا جاسکتا ہے۔سیلانی تھلیسمیا سینٹر میں داخل بچوں کی بہترین دیکھ بھال کی وجہ سے نہ صرف شرح اموات میں کمی ہوئی ہے بلکہ خون چڑھانے کے دورانیہ (فریکوئنسی)میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ان خیالات کا اظہارمقررین نےبدھ کو ورلڈ تھلیسمیا ڈے کے موقع پر سیلانی بلڈ بینک اینڈ تھلیسیما سنیٹر کے تحت تھلیسیما میں مبتلا بچوں اور ان کے والدین کے ساتھ منعقدہ تقریب اور سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔تقریب سے سیلانی کے سی ای او مدنی رضا،سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی کی سیکریٹری ڈاکٹر در ناز جمال ،ہیموٹولوجسٹ ڈاکٹر یونس جمال ،ڈاکٹر غلام سرور،بحریہ یونی ورسٹی کے ڈائریکٹر جنرل اطہر مختار ،ڈاکٹر عذرا رفیق ،سیلانی کے ممبر بورڈ ڈائریکٹر بلڈ بینک محمد اقبال اور دیگر ماہرین نے بھی خطاب کیا۔تقریب میں سیلانی کے پریذیڈنٹ عارف لاکھانی اور دیگر معززین کے علاوہ جامعات کے طلبہ و طالبات نے بھی شرکت کی۔سیلانی کے سی ای او مدنی رضا نے اپنے خطاب میں کہا کہ بعض بیماریوں سے نجات صرف دوا سے ممکن نہیں بلکہ اس کے خلاف شعوری مہم ضروری ہوتی ہے۔اگر نکاح خواں حضرات کا رجسٹریشن ریکارڈ چیک کیا جائے تو پتا چلے گا کہ بہت سے نکاح خواں حضرات کو تھلیسمیا سے متعلق قانون سازی کا ہی علم نہیں ہے ۔سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی کی سیکریٹری ڈاکٹر در ناز جمال نے کہا کہ پاکستان میں تھلیسیمیا کی بیماری پر قابو پایا جاسکتا ہے بشرطیکہ کی حکومت کے ساتھ ساتھ کمیونٹی بھی تعاون کرے اور شادی سے پہلے تھیلیسیمیا ٹیسٹ کروالیا جائے۔ اس بیماری پر قابو پانے میں سب سے بڑی رکاوٹ شعور کی کمی ہے ۔ قانون پر عمل درآمد سے زیادہ ہمیں کمیونٹی سپورٹ کی ضرورت ہے۔ایسی شعوری مہم کی ضرورت ہے کہ لوگ خود اس بات پر آمادہ ہوں کہ شادی سے پہلے تھلیسیمیا ٹیسٹ لازمی کرائیں۔سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر انتقال خون اور اس سے متعلق دیگر بیماریوں پر تحقیق کرنے اور ضروری قانون سازی میں مصروف ہے۔ ڈاکٹر غلام سرور نے کہا کہ سیلانی بلڈ بینک اینڈ تھیلیسیمیا سینٹر میں داخل بچوں میں انتقال خون کی ضرورت میں کمی آئی ہے۔ اس وقت سیلانی تھلیسیمیا سینٹر میں 700 بچے رجسٹرڈ ہیں۔ماضی میں انہیں ایک ماہ میں 1600 پوائنٹ خون چڑھتا تھا جو اب کم ہوکر 538 پوائنٹ رہ گیا ہے۔اس کا مطلب ہے ک بہترین دیکھ بھال اور ادویات کے بروقت استعمال نے بچوں کی صحت میں بہتری پیدا کی ہے۔ ایسی ادویات پر تحقیق جاری ہے جس کی وجہ سے انتقال خون کی ضرورت کم سے کم کی جاسکتی ہے۔سیلانی بلڈ بینک میں تھلیسمیا اسکریننگ کا ٹیسٹ سب کے لیے مفت ہے۔اگر لوگ نکاح سے پہلے لڑکے اور لڑکی کی بلڈ اسکریینگ کرالیں تو وہ آنے والی نسل کو اور خود کو مشکلات سے بچاسکتے ہیں ۔ورنہ آنے والی نسل تھلیسمیا میجر کے ساتھ پیدا ہوگی،ساری زندگی بچے کو دودھ سے زیادہ خون کی ضرورت پڑے گی اور والدین کی زندگی بلڈ ڈونر تلاش کرنے میں گزر جائے گی۔سیلانی کے کنسلٹنٹ ہیموٹولوجسٹ ڈاکٹر یونس جمال نے کہا کہ دنیا بھر میں اس کا علاج نہایت مہنگا ہے۔بون میرو ٹرانسپلانٹ 60 لاکھ سے ایک کروڑ روپے تک اورنئی ٹیکنالوجی جین تھراپی اس سے بھی مہنگا علاج ثابت ہوئی ہے۔پاکستان میں اس قدر مہنگا علاج ممکن نہیں ہے اس لیے اسے ادویات سے کنٹرول کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔