اسلام آباد۔: (نمائندہ خصوصی ):سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کمیشن کی رپورٹ پر عدم اطمینان کااظہار کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ یہ رپورٹ ٹرمز آف ریفرنسز پر پورا نہیں اترتی ۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے پیر کو کیس کی سماعت کی۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان عدالت میں پیش ہوئے، تحقیقاتی کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز)، رپورٹ پڑھی اور عدالت کی معاونت کی۔سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کمیشن کی رپورٹ پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے حکم نامہ میں کہا کہ ہماری رائے میں رپورٹ ٹرمز آف ریفرنسز کے مطابق نہیں ہے۔ حکم نامہ میں کہا گیا کہ کمیشن نے 6 مارچ کو 149 صفحات اور 8 جلدوں پر مشتمل اپنی رپورٹ جمع کرائی۔ حکمنانے میں مزید کہا گیا کہ کمیشن نے فیصلے کے کئی اہم نکات کو نظر انداز کیا۔عدالت نے کہا کہ وفاقی حکومت بتائے کہ وہ رپورٹ پبلک کرنا چاہتی ہے یا نہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ حکم کی ایک کاپی کمیشن کے ممبروں کو بھیجی جانی چاہئے اور اگر وہ چاہیں تو عدالت کے ابتدائی مشاہدات پر اپنا جواب دے سکتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ارکان تحریری طور پر اپنا موقف بیان کر سکتے ہیں یا عدالت میں پیش ہو سکتے ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس کی سماعت کے موقع پر اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر فیض آباد دھرنا فیصلہ پر عمل کیا جاتا تو شائد 9 مئی جیسا واقعہ بھی نہ ہوتا، ماضی سے سبق حاصل کئے بغیر کیسے آگے جا سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کمیشن نے حلف پر کچھ لوگوں کے بیانات لئے تھے اور بہت سے لوگوں کو جواب دینے کے لئے سوالنامے دیئے گئے تھے۔حیرانگی کی بات ہے کہ تحریک لبیک کے کسی رکن کا بیان ریکارڈ نہیں کیا گیا۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن کی رپورٹ بذریعہ اٹارنی جنرل آفس سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی تھی۔اٹارنی جنرل نے رپورٹ پر حکومت کے جواب سے آگاہ کرنے کے لیے دو ہفتے کا وقت مانگا ہے۔بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔